سچ خبریں: 17 جولائی کو چینی بحریہ نے ملک کے دارالحکومت کے شنگھائی شپ یارڈ میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران تیسرے طیارہ بردار بحری بیڑے کو لانچ کرنے کا اعلان کیا۔
پہلے ٹائپ 003 کے نام سے جانا جانے والا یہ طیارہ بردار بحری جہاز اب باضابطہ طور پر چین کا ایک ساحلی صوبہ فوجیان کے نام سے جانا جاتا ہے اور امریکہ کے بعد دنیا کا سب سے طاقتور طیارہ بردار بحری جہاز ہے۔
چینی بحریہ کا مقامی طور پر تیار کردہ طیارہ بردار بحری جہاز چلانے کا عزائم 1970 کی دہائی سے ہے لیکن اس مقصد کے لیے اس کا حقیقی راستہ 1985 میں شروع ہوا جب بیجنگ نے تحقیقی مقاصد کے لیے سوویت ساختہ چار طیارہ بردار بحری جہاز خریدے۔ بیجنگ کو اپنا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز، لیاؤننگ بنانے میں 2012 تک کا وقت لگا تاہم لیاؤننگ مکمل طور پر چینی مصنوعات نہیں تھی بلکہ ایک نامکمل سوویت طیارہ بردار بحری جہاز تھا جسے چینیوں نے خریدا مکمل کیا اور انہوں نے اسے تعلیمی اداروں کے لیے مختص کیا۔
2017 تک بیجنگ نے اپنا پہلا مکمل طور پر گھریلو طیارہ بردار بحری جہاز شانڈونگ آغاز کیا اس کے بعد اس سال 2022 میں فوجیان نے اور اندازوں کے مطابق بیجنگ 2023 تک چھ طیارہ بردار بحری جہاز رکھنے کا ہدف رکھتا ہے۔
تاہم چین کی اپنی بحریہ کو جدید بنانے کی کوششیں صرف طیارہ بردار بحری جہاز تک محدود نہیں ہیں۔ چین کے پاس اس وقت بحری جہازوں اور آپریشنل یونٹس کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے، جس میں کل تقریباً 355 بحری جہاز ہیں جبکہ امریکی بحریہ کے لیے یہ تعداد صرف 300 ہے۔
لیکن جب کہ چین بحری جہازوں کی تعداد میں سرفہرست ہے، امریکی بحریہ عالمی سطح پر سب سے طاقتور مہلک اور غالب قوم ہے، جو کہ دوسری طاقتوں سے بہت آگے ہے۔ تاہم امریکیوں کے نقطہ نظر سے مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اور چین کے درمیان سمندری فاصلہ مسلسل سکڑ رہا ہے۔