سچ خبریں:اقوام متحدہ سے وابستہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے شام کے اپنے چھٹے دورے پر ہیں اس دوران انہوں نے دمشق کے اطراف کے علاقوں کا دورہ کیا۔
اقوام متحدہ کے اس اہلکار نے خبردار کیا کہ شام میں بھوک ایک غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے جو کہ 2011 میں اس ملک میں جنگ کے آغاز کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔
انہوں نے کہا کہ 12 سال کی کشمکش کے بعد مہنگائی کی وجہ سے بگڑتی ہوئی معیشت اور قومی کرنسی جو غیر معمولی سطح پر گر چکی ہے اور خوراک کی قیمتیں جو مسلسل بڑھ رہی ہیں 12 ملین شامی یہ نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے ملے، 2.9 لاکھوں لوگ بھوک سے مرنے کے خطرے سے دوچار ہیں جس کا مطلب ہے کہ 70% شامی جلد ہی اپنے خاندانوں کے لیے کھانا مہیا نہیں کر سکیں گے۔
دمشق میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم نے شام میں اس انسانی بحران کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی تو صورت حال ہمارے تصور سے بھی بدتر ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ کے اس اہلکار نے خبردار کیا کہ 2015 کی طرح یورپ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی ایک اور لہر آئے گی۔ کیا عالمی برادری یہ چاہتی ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو اس موقع کو تباہی سے بچنے کے لیے فوری طور پر استعمال کیا جانا چاہیے ہمیں شامی عوام کے لیے امن اور استحکام کے حصول کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔