سچ خبریں: یدیعوت احرانوت اخبار کے تجزیہ کار رامی سمینی نے اس حوالے سے ایک مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ شام ایک جعلی ملک ہے جسے تقسیم ہونا چاہیے کیونکہ اسے اپنے وجود کو جاری رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
اس مصنف کے مطابق شام کی تشکیل 1920 میں سان ریمو کانفرنس کے بعد اور سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد ہوئی تھی اور اس کے متحد رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اس صہیونی تجزیہ نگار کے مطابق شروع ہی سے اس علاقے کو مختلف قبیلوں کے زیر کنٹرول پانچ خطوں یعنی دروز، علوی، کرد اور دو سنی علاقوں میں تقسیم ہونا چاہیے تھا، لیکن فرانس کے دباؤ کے باعث آخر کار جس شکل میں حکومت آج شام ہے، اسی طرح اس کا ہمسایہ لبنان ایک جعلی عیسائی ملک تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عیسائی اس ملک پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھے۔
اس مضمون کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد جو جھوٹا امن قائم ہوا ہے اس نے تجزیہ کاروں کے جوش و خروش کو بڑھا دیا ہے اور انہیں دہشت گردوں کے امن کے داعیوں میں تبدیل ہونے کے بارے میں سختی سے بات کرنے اور امید ظاہر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کم از کم ایک بار ایسا مشرق وسطیٰ میں ہوگا، جو یقیناً نہیں ہوگا، کیونکہ عرفات اور شاید خود حکومت کرنے والی تنظیموں اور حماس کے ساتھ ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا۔
اس مضمون کے تسلسل میں مصنف اس بات پر زور دیتا ہے کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق شام کی حکومت کے غائب ہونے میں اسرائیل کے مفادات ہیں، اس ملک کو تقسیم کر کے ان کی جگہ پانچ خودمختار خطوں سے لے جانا چاہیے جو ابھی تک حقیقی شکل میں موجود ہیں، اسرائیل ایک ہی وقت میں۔ اب اسے شام کے اندرونی حالات پر اپنی گرفت مضبوط کرنی چاہیے، خاص طور پر یہ موجودگی ڈروز کے علاقے میں زیادہ ہونی چاہیے، کیونکہ یہ خطہ اسرائیل میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، شاید یہ الحاق لفظی معنی میں نہیں، بلکہ اس کا گواہ ہے۔ کے تحت خود مختاری اور خود حکمرانی کی قسم آئیے اسرائیل کی حمایت کا مشاہدہ کریں۔