سچ خبریں: اردن کی موجودہ حکومت کا اہم مقصد صیہونی حکومت کے تحفظ اور حمایت کرنا ہے اس لیے حکمران خاندان ہاشمی کی بقا کا انحصار تل ابیب کی مکمل حمایت پر ہے۔
العہد نیوز ایجنسی کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق 13 اپریل کی شب کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت کو نشانہ بنانے کے صیہونی جرم کے جواب میں ایران کے ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں کے ذریعہ کیے جانے والے جوابی حملے کے دوران اردن کی حکومت بھی قابض حکومت کو بچانے کے لیے میدان میں اتری۔
اس رپورٹ کے مطابق ایرانی مقبوضہ علاقوں میں انٹرنیٹ نیٹ ورک کو منقطع کرنے اور صیہونی حکومت کے الیکٹرانک نظام کو کافی حد تک درہم برہم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: اردن اور صیہونی حکومت کے تعلقات کی تاریخ
اس کے علاوہ ایران کے ڈرون اور میزائل حملوں کا حجم اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام اور نگرانی کی خدمات کی صلاحیتوں سے باہر تھا ، اسی وجہ سے ان ڈرونز اور میزائلوں کی اچھی خاصی تعداد اپنے اہداف کو نشانہ بنانے اور وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گئی۔
قابل ذکر ہے کہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں استعمال ہونے والا صیہونی حکومت کے سب سے بڑے فضائی اڈوں میں سے ایک نواتیم ایئر بیس ایرانی حملے کا نشانہ بنا اور مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
اس حملے کی قابل ذکر بات یہ تھی کہ امریکی، برطانوی اور فرانسیسی فضائی اور جنگی دستوں نے اردن سے ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کے گزرنے اور اسے مقبوضہ علاقوں کی فضائی حدود میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔
اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اردن کی فضائیہ نے بھی ان میزائلوں اور ڈرونز کا مقابلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
اگرچہ اردن نے ابتدائی طور پر ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے میں اپنی موجودگی سے انکار کرنے کی کوشش کی،تاہم صہیونی میڈیا نے بتایا کہ اردن نے اپنی فضائی حدود میں 6 ایرانی ڈرون مار گرانے میں حصہ لیا جو صیہونی اہداف پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔
صیہونی حکومت کے ساتھ تعاون کی اردن کی وسیع تاریخ
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اردن کی حکومت صیہونی حکومت کے حق میں میدان میں اتری ہو، 1973 میں مقبوضہ صحرائے سینا اور گولان کو آزاد کرانے کے لیے اسرائیل کے خلاف مصر اور شام کی جنگ شروع ہونے سے صرف چند روز قبل شاہ حسین نے اپنا خصوصی ہیلی کاپٹر تیار کیا اور مقبوضہ علاقوں کا سفر کیا اور اس وقت کی صیہونی وزیر اعظم گولڈا مائر کے گھر پر حاضری دی۔
اردن حکومت نے اپنے صیہونی اتحادی کو بتایا کہ شام اور مصر اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں، البتہ مزے کی بات یہ تھی کہ مائر نے اس وارننگ پر توجہ نہیں دی لیکن چند دنوں بعد یہ آپریشن شروع ہو گیا۔
1948ء سے صیہونی حکومت کے فلسطین پر قبضے کے آغاز کے دوران اردن نے اس حکومت کے رہنماؤں کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات شروع کر دیے تھے اور ملک کے بعض علاقوں میں فلسطینیوں کو دبانے کے لیے اس کا صیہونی ملیشیا کے ساتھ وسیع فوجی رابطہ تھا،یہ مسئلہ امریکی اور اسرائیلی دستاویزات میں موجود ہے اور مرحوم اور مشہور مصری صحافی محمد حسنین ہیکل نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
صیہونی حکومت کی حمایت میں اردن کا فعال کردار
محمد حسنین ہیکل نے اپنے کالم میں عرب ممالک اور خاص طور پر شام کو تقسیم کرنے کے لیے اس ملک میں ہاشمی خاندان کے عروج کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس نقطہ نظر سے یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ عبداللہ دوم ان میزائلوں کو گرانے کی کوشش کریں جو صیہونی ریاست کی طرف بڑھ رہے ہوں اس لیے کہ اردن کے بادشاہ اس اقدام کو خیانت نہیں سمجھتے کیونکہ انہوں نے صیہونی حکومت کی حمایت کا اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جب کہ یمنیوں کی جرأت مندانہ کارروائیوں کے نتیجے میں بحیرہ احمر میں صیہونی حکومت کی امدادی لائنیں منقطع ہوگئی تھیں، اردن کی ہاشمی حکومت نے قابض حکومت کے لیے ایک زمینی پل بنایا تاکہ اس تک مختلف قسم کی امداد اور فوجی سازوسامان پہنچ سکے۔
مزید پڑھیں: اردن اور صیہونیت کے درمیان فوجی سکیورٹی تعاون کا تجزیہ
جبکہ مقبوضہ علاقوں میں صیہونی اپنی وسیع کارروائیوں کے ساتھ ساتھ غزہ میں نسل کشی کر رہے ہیں لیکن اردن کا ہاشمی خاندان کے لیے ان کی حمایت کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کا وجود اسی حمایت پر منحصر ہے۔