(سچ خبریں) بیس برس قبل گیارہ ستمبر 2001ء کے روز امریکا کے مطابق نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، اس کے بعد امریکا نے اپنی طویل ترین جنگ شروع کی اس جنگ میں شکست کے بعد امریکا اس تاریخ کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن بی بی سی کو نام نہ بتانے کی شرط پر امریکی اہلکار نے بتایا کہ امریکا کے خفیہ اداروں نے صدر بائیڈن کو بتا دیا تھا کہ امریکی افواج کا افغانستان میں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے اور طالبان کو افغانستان میں مکمل فتح حاصل ہو چکی۔
چند دن قبل امریکی انٹیلی جنس نے بھی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چونکہ طالبان پرُاعتماد انداز سے فتح کی جانب گامزن ہیں اس لیے موجودہ امریکی حکومت کو ان کے مقابلے میں کافی جد وجہد کرنی پڑے گی۔
افغانستان میں بدستور پر تشدد حملے، ہدف بنا کر قتل کی وارداتیں اور کار بم حملے میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں بیس برس کی معرکہ آرائی کے بعد امریکی فوج آئندہ ستمبر میں وہاں سے واپس نکلنے کا اعلان ہوا ہے لیکن اب بھی امریکا یہی ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ایک فاتح کے طور پر نکل رہا ہے اور یہ وہ غلطی ہے جو امریکا کے سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
ماہرین کے مطابق بیرونی افواج کی واپسی کے بعد طالبان پھر سے اقتدار میں ہوں گے، قبل ازیں صدر جو بائیڈن بار بار اعلان کرتے رہے ہیں کہ امریکی افواج کا افغانستان سے فوری انخلا ناممکن ہے لیکن عالم مجبوری میں ان کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ امریکا اس برس گیارہ ستمبر کو امریکی افواج کا انخلا مکمل کر سکے گا اور افغانستان میں قیام امن کے لیے 24 اپریل 2021ء کو ترکی میں کانفرنس کا انعقاد ہوگا، اس کانفرنس جس میں انخلا کا شیدول بنایا جائے گا، اس سلسلے میں قطر میں طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ جب تک تمام بیرونی فورسز افغانستان کی سرزمین سے مکمل طور پر نکل نہیں جاتے اس وقت تک ہم افغانستان سے متعلق فیصلہ لینے والی کسی بھی کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے مارچ 2021ء کو نشریاتی ادارے اے بی سی سے گفتگو میں کہا تھا کہ افغانستان میں موجود بقیہ ڈھائی ہزار امریکی فوج کا فوری انخلا ایک سال تک مشکل دکھائی دیتا ہے، بائیڈن کا کہنا تھا کہ میں اس بارے میں حتمی فیصلہ لینے کے مرحلے میں ہوں کہ ہم کب تک افغانستان سے اپنے فوجوں کو واپس بلائیں گے، لیکن سابق صدر اوباما نے ایک بھر پور تبصرہ کرتے ہو ئے کہا کہ طالبان کے خطرے نے امریکا کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔
ناٹو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس مجوزہ فوجی انخلا کے منصوبے کے اعلان کے پس منظر میں 14اپریل 2021ء کو اتحادیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے ایک ویڈیو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، افغانستان میں ناٹو ممالک کے اس وقت نو ہزار 600 فوجی تعینات ہیں جن میں سے امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار ہے، اس سے قبل ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکی افواج کے انخلا کی تاریخ رواں برس یکم مئی مقرر کی تھی تاہم اب صدر بائیڈن کے فیصلے کے تحت فوجیوں کی واپسی میں مزید پانچ ماہ کی توسیع ہو جائے گی۔
عالمی اخبارات اس بات پر بھی پریشان نظر آرہے ہیں کہ امریکی مدد کے بغیر اشرف غنی حکومت مشکلات سے دو چار ہو سکتی اور اسی لیے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انتھونی بلنکن نے صدر بائیڈن کے اعلان سے قبل افغان صدر اشرف غنی اور ایک دن قبل پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فونک بات چیت کی اور انہیں امریکی صدر کے فیصلے سے آگاہ کیا اگرچہ اس بات کے خدشات پہلے ہی سے ہیں کہ بیرونی افواج کی غیر موجودگی سے طالبان مزید مضبوط ہو جائیں گے اس لیے فوجی انخلا کا فیصلہ زمینی صورت حال پر منحصر نہیں ہوگا، لیکن افغانستان قیام کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کے سینئر اہلکار کا اے بی سی نیوز کو کہنا تھا کہ صدر کا خیال ہے کہ اگر صورت حال کے مطابق پالیسی اختیار کی گئی، جیسا کہ دو عشروں سے چلی آ رہی ہے، تو پھر صدرکے مطابق افغانستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکنا پڑے گا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ یکم مئی کے بجائے یہ تاخیر اس لیے نہیں کہ بائیڈن نے یکم مئی کو افغانستان سے نکلنا ناممکن قرار دے دیا تھا حقیقت یہ ہے کہ لاجسٹک وجوہات کے سبب پانچ ماہ کی تاخیر کرنی پڑی اور اس سلسلے میں اتحادیوں سے بھی رابطہ کر کے صلاح و مشورہ کیا گیا۔
امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے طالبان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کی فورسز کو نشانہ بنایا تو پھر ان کے خلاف بھی جوابی کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا، ’’امریکا نے طالبان کو بہت واضح طور پر بتا دیا ہے کہ جب امریکا افغانستان سے نکلنے کی تیاری میں ہے اور اس دوران اگر طالبان نے امریکی یا اتحادی فوج پر حملہ کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
امریکا 20برسوں تک افغانستان میں کیا بہت نرم کارروائی کرتا رہا ہے اور کیا اسی نرم کارروائی کی وجہ سے امریکا اور 50ممالک کی افواج کو افغانستان سے نکلنا پڑ رہا ہے۔
طالبان کی فتح کے یقین کی وجہ سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس فروری میں امریکی فوج کے انخلا سے متعلق طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، اس کے تحت اگر طالبان القاعدہ جیسے دیگر شدت پسندوں کی حمایت کرنا ترک کر دیں تو یکم مئی تک امریکی فوج کے نکل جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کابل حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا راستہ بھی ہموار کیا تھا تاہم بائیڈن کی بھارت سے دوستی کی وجہ سے یہ بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
امریکی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کے فورسز چند شہروں اور دیگر علاقوں کی سلامتی پر مامور ضرور ہیں لیکن وہ صرف دفاع تک ہی محدود ہیں اور اُن علاقوں کو وہ دوبارہ اپنے کنٹرول میں نہیں کر پائے ہیں یا پھر وہاں اپنی موجودگی نہیں دکھا سکے ہیں جہاں گزشتہ برس طالبان سے جنگ کے دوران افغان حکومت کے پیر اکھڑ گئے تھے۔
موجودہ امریکی حکومت نے آتے ہی افغانستان میں طویل عرصے تک افواج رکھنے کا منصوبہ بناتے ہوئے بھارت اور کواڈ ممالک کو افغانستان میں آگے لانے اور اشرف غنی حکومت کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتی رہی لیکن اب انتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکا کبھی بھی افغانستان میں ہمیشہ رہنا نہیں چاہتا تھا، اس سے یہ بات بالکل واضح ہورہی ہیکہ امریکا نے افغانستان میں اپنی ذلت آمیز شکست کو تسلیم کرلیا ہے کیونکہ جس مقصد کے لیئے امریکا افغانستان میں آیا تھا وہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی آخرکار وہ افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہوگیا ہے۔