سچ خبریں: روزنامہ الاخبار کے چیف ایڈیٹر نے لکھا کہ شہید سید حسن نصراللہ مزاحمتی محاذ کا ایک مکتب تھے، اگرچہ انہیں معلوم تھا کہ حق کے دفاع کی قیمت ان کی جان اور ان کے عزیزوں کی جان بھی ہو سکتی ہے اس کے باوجود وہ کبھی اپنے راستے پر شک میں مبتلا نہیں ہوئے اور اسی راہ میں شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔
لبنانی روزنامہ الاخبار کے چیف ایڈیٹر ابراہیم امین، نے اپنے اداریے میں شہید سید حسن نصراللہ کی جرات مندانہ زندگی پر روشنی ڈالی اور لکھا کہ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے مزاحمتی تحریک میں ایک منفرد مقام حاصل کیا۔
شہید سید حسن نصراللہ جانتے تھے کہ حق کی حفاظت کی قیمت ان کی اور ان کے پیاروں کی جان ہو سکتی ہے لیکن انہوں نے کبھی اس راستے پر کوئی تردد نہیں کیا اور اسی راہ میں شہید ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سید حسن نصراللہ کی شہادت سے مزاحمتی تحریک شکست کھا جائے گی؟حماس کا بیان
ابراہیم امین لکھتے ہیں کہ حزب اللہ کی قیادت سنبھالنے کے آغاز سے ہی شہید نصراللہ جنگ کی حقیقت اور قربانیوں سے بخوبی واقف تھے، لیکن اس کے باوجود وہ پوری استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے، وہ ایک ایسے رہنما تھے جو اپنے ساتھیوں اور مجاہدین کی قربانیوں کو ہمیشہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے اور ہر فیصلہ انتہائی غور و فکر کے بعد کیا کرتے تھے۔
ایران کا اسلامی انقلاب ؛ شہید نصراللہ کی فکر مزاحمت کا سرچشمہ
شہید نصراللہ کم عمری ہی سے مزاحمت کے فلسفے پر ایمان رکھتے تھے اور اپنے ولی امر کی اطاعت میں سرگرم رہے، 1982 میں جب انہوں نے امام خمینی کی قیادت میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کی فضا میں قدم رکھا،یہ ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔
ان کا ایمان تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کا مقصد ظلم کے خلاف مزاحمت کو فروغ دینا ہے، انہوں نے اس مشن کے تحت اپنی زندگی کو وقف کر دیا، ان کے نزدیک اطاعت اور ایمان کا حقیقی مفہوم وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس راستے پر چلے۔
ذہانت اور روحانیت کا بے مثال توازن
شہید نصراللہ ایک منفرد شخصیت تھے جو ذہانت اور روحانیت کے درمیان ایک نایاب توازن قائم کیے ہوئے تھے، وہ اپنے فیصلوں میں نہایت حساس اور سخت گیر تھے لیکن ہر معاملے میں خدا کی مصلحت پر یقین رکھتے تھے۔
انہوں نے ظلم اور استکبار کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے رہنے کا عزم کر رکھا تھا اور مظلوموں کے دفاع کے لیے ہر ممکن طاقت جمع کی۔
شہید نصراللہ کی قیادت کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ وہ انسانی جانوں، عزت اور معیشت کا احترام سب سے زیادہ کرتے تھے اور کبھی بھی ذاتی جذبات کو اپنے فیصلوں پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔
سید مقاومت کی جهادی زندگی؛ مظلوموں کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش
شہید سید حسن نصراللہ کی زندگی میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے ہیں، جن پر کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے ہیں، لیکن ان کی مکمل خدمات کا احاطہ کرنے کے لیے یہ سب کافی نہیں ہیں۔
ان کی خدمات کا ایک بڑا حصہ ابھی تک منظرعام پر نہیں آیا، سید حسن نصراللہ نہ صرف لبنان میں بلکہ دور دراز کے ممالک میں بھی مظلوم اور ضرورت مند افراد کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔
فلسطین سے سید حسن نصراللہ کا خصوصی تعلق
شہید نصراللہ کا فلسطین کے ساتھ ایک خاص اور انمول تعلق تھا، 7 اکتوبر 2023 کو جب ان کے معاونین نے انہیں بتایا کہ حماس غزہ کے باہر ایک بڑی کارروائی کر رہی ہے، سید حسن نصراللہ کے لیے ایک تاریخ ساز دن ثابت ہوا، وہ ہمیشہ صورتحال سے بخوبی واقف رہتے تھے اور انہیں معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
اس دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ طوفان الاقصی ایک عظیم معرکہ ہے جس میں غزہ کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا، سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کی فوجی قیادت کو فوری طور پر متحرک کر کے غزہ کی حمایت کے لیے اقدامات کا آغاز کیا۔
فلسطین کی حمایت میں شہید نصراللہ کی بہادری
یہ معرکہ مزارع شبعا سے شروع ہوا اور جلد ہی جنوبی لبنان فلسطین کی حمایت میں ایک اہم محاذ بن گیا، سید حسن نصراللہ کی سب سے بڑی ترجیح یہ تھی کہ غزہ کی حمایت کرتے ہوئے لبنان کی سالمیت کو بھی محفوظ رکھا جائے۔
انہوں نے فوجی جوانوں کو ہدایت دی کہ اس جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار اور حکمت عملی پہلے سے طے شدہ ہیں اور اس کے تحت ہی کارروائیاں کی جائیں گی۔
سید نصراللہ جانتے تھے کہ اس جنگ میں بہت بڑی قربانیاں درکار ہوں گی، انہوں نے غیر علنی ملاقاتوں اور عوامی بیانات میں کہا کہ اسرائیل اور اس کے حمایتی، امریکہ اور یورپی ممالک، لبنان کو دھمکیاں دے کر غزہ کی حمایت روکنا چاہتے ہیں۔
لیکن شہید نصراللہ نے اس معرکے کو دو اہم اہداف کے تحت آگے بڑھایا؛ پہلا، حزب اللہ کی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا اور دوسرا، غزہ کی حمایت کے تسلسل کو یقینی بنانا۔
شہادت حق کی راہ میں ایک جاری رہنے والا سفر
حزب اللہ کے میدان جنگ کے کئی کمانڈروں کی شہادت کے بعد، شہید سید حسن نصراللہ نے مزاحمت کی نئی صورتحال کے مطابق معرکہ کی حکمت عملی کو دوبارہ مرتب کیا۔
سب سے پہلے انہوں نے حکم دیا کہ ان تحقیقات کا آغاز کیا جائے، جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ سکیورٹی میں کہاں خلل ہوا اور دشمن کس طرح لبنان میں پیجر دھماکوں سمیت دیگر دہشت گردانہ حملے کر سکا۔
ممکن ہے کہ شہید سید حسن نصراللہ کی آخری ملاقات میں، جس میں وہ مزاحمت کے دیگر کمانڈروں اور رہنماؤں کے ساتھ تھے، دشمن کے خلاف نئے محاذ پر گفتگو کی جا رہی تھی کہ اچانک دشمن نے دہشت گردی کا ایسا بہیمانہ عمل کیا، جس میں سینکڑوں ٹن دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا جو سید مقاومت کی شہادت کا سبب بنا لیکن ان کی شہادت کے بعد مزاحمت کی فکر ختم نہیں ہوئی۔
یہ سچ ہے کہ مزاحمت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جن میں سے کچھ تنظیمی نوعیت کے ہیں جو غیر عسکری ڈھانچے سے متعلق ہیں اور کچھ عسکری نوعیت کے ہیں جو فوجی ڈھانچے سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن جو کوئی بھی سید حسن نصراللہ کے ساتھ رہا ہے اور ان کے فیصلوں پر اعتماد کیا ہے اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دشمن کی شروع کی گئی جنگ آسانی سے ختم نہیں ہوگی، صرف مسلح اور موثر مزاحمت ہی قابض دشمن کے مزید مظالم کو روک سکتی ہے۔
لہذا، ہم سب کو صبر کا دامن تھامنا ہوگا اور ان موقع پرستوں کی باتوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے جو ناامیدی پھیلانے اور دشمن کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
یہ لوگ یا تو سطحی سوچ رکھتے ہیں یا پھر صرف سر تسلیم خم کرنے کی پالیسی جانتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سید حسن نصراللہ کیا تھے اور شہید حسن نصراللہ کیا ہوں گے؟
آخر میں، شہید سید حسن نصراللہ کے تمام چاہنے والے، چاہے وہ لبنان میں ہوں، خطے میں ہوں یا پوری دنیا میں، اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آج ہمیں ایک ہی نعرہ بلند کرنا ہے؛ مزاحمت اور شہید سید کی راہ جاری رہے گی۔