سچ خبریں: اسرائیل اسماعیل ہنیہ کو قطر یا ترکی میں بھی شہید کر سکتا تھا، قطر میں امریکی فوج کا سب سے بڑا اڈا موجود ہے اور اسرائیل کا بھی نفوذ ہے، اسی طرح ترکی کے بھی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور اسرائیل کی تمام فوجی مشقیں ترکی میں ہوتی ہیں نیز اس ملک میں اسرائیلی فوجی اڈے بھی موجود ہیں یعنی اسرائیل کے لئے قطر اور ترکی میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنا زیادہ آسان تھا، لیکن اسرائیل نے اس قتل کے لئے ایرانی سرزمین کا انتخاب کیا تاکہ کئی اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ شہید ہو کر بارگاہِ الہیٰ میں پہنچ گئے اور دنیا بھر میں غم کی لہر دوڑ گئی، وہ حماس کا بین الاقوامی چہرہ تھے اور اپنی زندگی استقامت اور مزاحمت میں گزاری، بیٹے، پوتے اور اب خود بھی شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے؛ آپ حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے اس شعر کے مصداق تھے:
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جب شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی خبر دنیا بھر میں پھیلی تو کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ایران کی فلسطین کاز سے متعلق نیت اور حکمتِ عملی پر سوالات اٹھائے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایرانی سکیورٹی کی کمزوری کی وجہ سے ہوئی ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر ایران مہمان کی حفاظت نہیں کر سکتا تھا تو اسے بلایا کیوں؟ اور کچھ نے ایران کو کوفیوں سے تشبیہ دی جنہوں نے اپنے مہمان کو شہید کر دیا۔
دوسری طرف، کچھ لوگوں نے معقول بیانات دیئے کہ اس حساس وقت میں مسلمانوں کو آپس میں لڑنے کے بجائے اپنے مشترکہ دشمن اسرائیل اور اس کے حامی امریکہ کے خلاف متحد ہونا چاہئے، جو غزہ میں مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔
معروف کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی نے اس سلسلے میں ایک اچھا نقطہ نظر پیش کیا ہے، وہ اپنی فیس بک وال پر لکھتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت بہت تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔
انہوں نے بے پناہ قربانیاں دیں اور اب خود بھی خالق حقیقی سے جا ملے، یہ موت وہ خواہش ہے جس کی ہم میں سے بہت سے مسلمان آرزو کرتے ہیں۔
فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا ہو چکی ہے، اللہ ان کے لئے آسانی پیدا کرے، مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ میزائل حملہ اسرائیل نے کیا، اور اس کی مذمت کے بجائے کچھ لوگ ایران کی مذمت کیوں کر رہے ہیں؟
ایران کا اس میں کیا قصور؟ میزائل حملے کا توڑ کیسے ہو سکتا تھا؟
ایران اپنی انقلابی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل، قاسم سلیمانی، جنہیں وہ مالک اشتر ثانی کہتے ہیں، کو اس طرح کے میزائل حملے سے نہ بچا سکا، ان کے کئی بڑے نیوکلیئر سائنسدان اپنے ملک میں شہید ہو چکے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ پر میزائل حملے کی کسی کو توقع نہیں تھی، کیونکہ وہ ایک سیاسی رہنما تھے، کوئی عسکری کمانڈر نہیں۔ عام طور پر مسلح تنظیموں کے سیاسی رہنماؤں کو کچھ نہیں کہا جاتا تاکہ مذاکرات کا آپشن برقرار رہے، لیکن بزدل اور مایوس دشمن نے وار کر ڈالا۔
ایسے میں ایران کو موردِ الزام ٹھہرانا شدید تعصب ہوگا، کیا ایران کی مخالفت میں ہم اتنے اندھے ہو چکے ہیں؟ یہ بات سب کو پتہ ہے کہ دراصل ایسے لوگ بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی ایران سے متعلق اپنی نفرت کا اظہار کر دیتے ہیں اور اس دوران وہ اسرائیل کو بھی بھول جاتے ہیں۔
لیکن ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حساس وقت ہے، اسرائیل نے بزدلانہ طور پر بیروت، بغداد اور تہران میں حملے کیے اور اپنی جنایت کا برملا اعلان کیا ہے۔
ایسے وقت میں تکفیریت اور صہیونیت کا ایک ہی موقف دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس وقت پوری دنیا اسرائیل کو قاتل کہہ رہی ہے اور اسماعیل ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کر رہی ہے۔
خود حماس نے بھی اپنے رسمی بیان میں اسرائیل کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ حتی کہ شہید اسماعیل ہنیہ کی بیٹی نے بھی تکفیری پروپیگنڈا کا جواب دیتے ہوئے ایران کو اسلام کا مرکز قرار دیا ہے۔
تاہم پاکستان میں تکفیریت اسے ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کا حربہ بنا کر استعمال کر رہی ہے جو افسوس ناک ہے۔ حقیقت میں اسرائیل یہی چاہتا تھا، وہ اسماعیل ہنیہ کو قطر یا ترکی میں بھی شہید کر سکتا تھا، قطر میں امریکی سب سے بڑا فوجی اڈا موجود ہے اور اسرائیل کا بھی اثر و رسوخ ہے، اسی طرح ترکی بھی اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے اور اسرائیل کی تمام فوجی مشقیں ترکی میں ہوتی ہیں، اس ملک میں اسرائیلی فوجی اڈے بھی ہیں یعنی اسرائیل کے لئے قطر اور ترکی میں اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنا زیادہ آسان تھا، لیکن اسرائیل نے اس قتل کے لیے ایرانی سرزمین کا انتخاب کیا تاکہ کئی اہداف حاصل کر سکے:
1. شیعہ سنی اتحاد کا خاتمہ۔
2. ایران کو ہنیہ کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانا یا ایرانی نئے صدر کو مورد الزام بنانا۔
3. فلسطین اور ایران کے تعلقات ختم کرنا۔
4. اسرائیل پر حملے کے بعد، دنیا بھر کے ممالک آہستہ آہستہ ایران کی طرف مائل ہو رہے تھے اور امریکی پابندیوں کو نظرانداز کر رہے تھے،110 ممالک کے نمائندوں کے سامنے اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے ان 110 ممالک اور دیگر ممالک کو پیغام دینا کہ یہ کام تمہارے ساتھ بھی ہو سکتا تھا لہذا دنیا کے حکام کو ڈرا کر دوبارہ سیاسی و سفارتی طور پر ایران کو تنہا کرنا۔
5. حماس اور ایران کے درمیان تعلقات خراب کرنا اور حماس اور فلسطینی مزاحمت کو تنہا کرنا۔
6. مزاحمتی گروہوں میں ناامیدی پیدا کرنا اور انہیں یہ پیغام دینا کہ جب ایران خود اپنا دفاع نہیں کر سکتا تو وہ باقی مزاحمتی گروہوں کا کیسے کر سکتا ہے۔
ان تمام اہداف کو پورا کرنے کے لیے سوشل میڈیا استعمال ہو رہا ہے، جس میں سب سے بڑھ چڑھ کر عرب تکفیری گروہ اور پاکستانی تکفیری گروہ شامل ہیں جو کھل کر صہیونی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ جو لوگ ایران کی حکمت عملی پر سوالات اٹھا رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دوست اور دشمن سب جانتے ہیں کہ بقولِ عامر خاکوانی، یہی میزبان (ایران) ملک ہی ان مظلوموں کا سب سے بڑا حامی، سرپرست اور پشتیبان رہا ہے۔
کسی اور مسلم ملک بشمول ہمارے یہ جرات نہیں ہوئی کہ ان مظلوموں کی کھل کر مدد کر سکے، اگر یہی میزبان ملک ان مظلوموں کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیتا تو شاید کئی برس پہلے ہی مظلوم دم توڑ جاتے۔
سوشل میڈیا پر مفت میں مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے والوں کو شہید اسماعیل ہنیہ کی صاحبزادی نے اپنے ایکس پلیٹ فارم اکاونٹ پر بہترین جواب دیا ہے، ملاحظہ کیجیے:
"کس نے کہا ایران قصور وار ہے! تم عرب اپنے ملکوں میں ان کو پوچھتے تک نہیں، حالانکہ تم لوگ (قوم اور زمینی فاصلے کی نسبت) ایران سے زیادہ ہم سے نزدیک ہو! ایران تم سے زیادہ بہتر مددگار ہے، اسی لئے تمہیں حق نہیں پہنچتا کہ ایران کے بارے میں کوئی بات کرو، ایران تم سے زیادہ شرافت مند ہے، اس اعتبار سے ایران اسلام کا دارالحکومت ہے! بہرحال، اسماعیل ہنیہ نے جام شہادت نوش کر لیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ کی جنگ رک سکتی ہے، ایٹمی قوت پاکستان کے خلاف اپنا یہ مقدمہ لے کر وہ اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں، جس کے پاس جتنی طاقت ہے، اتنی جواب دہی کے لئے تیار ہوجائے۔
یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور عرب ممالک کی نسبت زیادہ شرافت اور ہمت دکھائی ہے۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی صاحبزادی کا یہ بیان ان لوگوں کے لیے بھی ایک تنبیہ ہے جو ایران پر بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد خطہ میں جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے؟ مشاہد حسین سید کی زبانی
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ان کی یہ بات کہ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ کی جنگ رک سکتی ہے، بہت اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بیان پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو ان کی طاقت اور ذمہ داری کا احساس دلانے کے لیے ہے۔