سچ خبریں: عمان میں پاکستان کے سفیر عمران علی نے دعویٰ کیا ہے کہ پیر کی شب مسقط کے قریب امام بارگاہ پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند پاکستانی نہیں تھے، انہوں نے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔
اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے، عمانی حکام کے مطابق، پیر کی رات مسقط کے قریب امام بارگاہ پر حملے اور سکیورٹی آپریشن کے دوران کل نو افراد ہلاک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: عمان میں حسینی عزاداروں پر داعش کا حملہ
داعش نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر جاری بیان میں کہا کہ تین خودکش بمباروں نے وادی الکبیر کے علاقے میں اہل تشیع کی مجلس پر اس وقت حملہ کیا جب وہ عاشورہ کی مجلس کے لیے جمع تھے۔ اس تنظیم کے حامیوں نے بھی سوشل میڈیا پر اس حملے کا جشن منایا۔
عمانی حکام نے پیر کی رات تقریباً گیارہ بجے علی بن ابو طالب امام بارگاہ پر مسلح افراد کے حملے کی اطلاع دی۔ عمانی رائل پولیس کے مطابق، امام بارگاہ پر حملے سے نمٹنے کے لیے فوجی اور سکیورٹی حکام نے آپریشن کیا جس کے نتیجے میں نو افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک پولیس اہلکار اور تین حملہ آور شامل ہیں۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے جبکہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں سفیر عمران علی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور حملہ آور پاکستانی نہیں تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چار شہداء، غلام عباس، حسن عباس، قیصر عباس، اور سلیمان عباس، دہشت گردی کا نشانہ بنے اور انہوں نے دوسروں کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
واضح رہے کہ داعش نے ماضی میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں شیعہ مجالس، جلوسوں اور عزاداروں کو نشانہ بنایا ہے، لیکن عمان میں یہ ان کا پہلا حملہ تھا، جہاں شیعہ برادری اقلیت میں ہے۔
پاکستان کے عمان میں سفیر عمران علی نے مزید کہا کہ یہ حملہ پاکستان کو نشانہ بنا کر نہیں کیا گیا بلکہ یہ فرقہ وارانہ نوعیت کا تھا۔ اس میں پاکستان کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ امام بارگاہ کو مینیج کرنے والی کمیٹی بہادر پاکستانیوں پر مشتمل ہے اور ان کے کچھ کارکن اس حملے میں شہید ہوئے ہیں، تاہم وہ صلہ رحمی سے کام لے رہے ہیں اور شہداء کے خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں۔
عمران علی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے اور کل کی فلائٹ سے دو لاشیں روانہ کی جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ پیپر ورک کو تیز کر دیا گیا ہے، تمام قانونی تقاضے سائڈ پر رکھ دیے گئے ہیں اور این او سی جاری کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے واٹس ایپ گروپ پہلے سے قائم تھے، ہمیں کوئی اضافی کام نہیں کرنا پڑا۔ تمام یرغمالیوں کے پاس میرا واٹس ایپ نمبر تھا اور اس وقت وہاں پھنسے ہوئے لوگ ہمیں کال کر رہے تھے۔ یہ ایک مثال ہے کہ سفارت خانے کا نمبر سب کے پاس موجود تھا، جس کی وجہ سے ہم عمانی حکومت کو بہتر مشورہ دے سکے کہ کس قسم کے آپریشن کی ضرورت ہے۔
عمران علی نے بتایا کہ مینجمنٹ کمیٹی کے لوگ اور یوسف الندابی جو شہید ہوئے، وہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیتے ہوئے یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر دروازے بند کر وائے۔ اگر امام بارگاہ کے دروازے کھلے ہوتے اور لوگ باہر جا رہے ہوتے تو وہ اوپر بیٹھے سنائپرز کے لیے آسان ہدف تھے۔
عمان میں پاکستانی سفیر عمران علی نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آوروں نے ابتدائی طور پر ایک قریبی عمارت سے مسجد میں موجود افراد پر فائرنگ کی تھی۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں عمانی حکام کے حوالے سے بتایا کہ امام بارگاہ پر دہشت گرد حملے میں گولیاں لگنے سے چار پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی۔
مسقط میں پاکستانی سفارت خانے نے ہلاک ہونے والے چار پاکستانیوں کے نام غلام عباس، حسن عباس، سید قیصر عباس اور سلیمان نواز بتائے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ 30 پاکستانی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ انڈین سفارت خانے کا کہنا ہے کہ اسے عمانی وزارت خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں ایک انڈین شہری ہلاک اور ایک زخمی ہوا ہے، تاہم ہلاک ہونے والے انڈین شہری کی شناخت نہیں کی گئی۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ میں نے مسقط میں پاکستانی سفارت خانے کو ہدایت کی ہے کہ زخمیوں کو ہر ممکن مدد فراہم کریں اور ذاتی طور پر ہسپتالوں کا دورہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سلطنت عمان کے ساتھ اس وقت میں یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتا ہے۔
پاکستانی سفیر عمران علی نے بتایا کہ امام بارگاہ علی بن ابو طالب دارالحکومت مسقط کے نواحی علاقے الوادی الکبیر میں واقع ہے جہاں پاکستانی شہریوں کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے شہری بھی جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جس کے وقت امام بارگاہ میں 300 سے 400 لوگ موجود تھے جن میں بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین شامل تھے۔ عمران علی نے بتایا کہ حملہ سوموار کی رات تقریباً 11 بجے ہوا۔
حملہ رات 11 بجے ہوا جس کے دوران امام بارگاہ میں جاری مجلس میں موجود بچوں اور خواتین سمیت لوگوں کو تقریباً تین گھنٹے تک یرغمال بنایا گیا۔ پاکستانی سفیر عمران علی کے مطابق امام بارگاہ میں یرغمال بنائے جانے والے پاکستانی شہریوں نے ان سے اسی حملے کے دوران رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ عمان میں رہائش پذیر تقریباً تمام پاکستانی شہریوں کے پاس میرا واٹس ایپ نمبر ہے۔ لوگ مجھ سے رابطہ کر رہے تھے، مدد مانگ رہے تھے اور رو رہے تھے۔ اس دوران پاکستانی سفیر عمان کے حکام سے رابطے میں تھے اور عمران علی نے بی بی سی کو بتایا کہ رات ڈھائی بجے کے قریب عمان کی پولیس نے یرغمالیوں کو باحفاظت ریسکیو کر لیا تھا۔
عمران علی نے بتایا کہ انہیں لوگوں نے بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد پانچ تھی، انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے پاس حملہ آوروں کی شناخت کے حوالے سے معلومات تو موجود ہیں لیکن عمانی حکام نے ان سے اس بارے میں بات نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
عمران علی نے بتایا کہ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے خولہ ہسپتال، ناہدہ ہسپتال اور رائل ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
بی بی سی عربی کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کئی صارفین نے اس حملے کی ویڈیوز شیئر کی ہیں اور عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ویڈیوز میں لوگوں کو امام بارگاہ کے قریب گولیوں کی آوازوں کے درمیان منتشر ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ’لبیک یا حسین‘ کے نعرے گونج رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستانی سفیر کے مطابق عمان میں تقریباً چار لاکھ سے زائد پاکستانی شہری مقیم ہیں۔
مسلح حملہ آوروں نے مسجد میں لوگوں کو یرغمال بنایا
عمان کی حکومت اور حکام نے اس حملے کے بارے میں ابھی تک زیادہ معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔
ابو ظہبی کے اخبار دی نیشنل کے مطابق، مسجد میں موجود خواتین اور بچوں سمیت کئی افراد کو مسلح افراد نے یرغمال بنایا، جنہیں بعد میں اسلحے سے لیس قانون نافذ کرنے والے اداروں نے رہا کروا لیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں شیعہ عزاداروں پر دہشت گردانہ حملہ، عراقی رہنما نے شدید مذمتی بیان جاری کردیا
علی نامی ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک ڈراؤنا واقعہ تھا،سب محرم کے دوران مسجد میں عبادت کرنے گئے تھے۔ جو ہوا وہ پریشان کن تھا، انہوں نے مزید کہا کہ مسجد میں موجود معصوم لوگوں پر منصوبہ بندی کے تحت حملہ کیا گیا اور ہم اب تک صرف یہی جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا ہوسکتا تھا، ہم اس پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔
حملے کے وقت کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ‘یا اللہ’ اور ‘یا حسین’ کہہ رہے ہیں۔