سچ خبریں: انڈیا کے بعد شیخ حسینہ کا اگلا ٹھکانہ کون سا ملک ہو گا؟ کیا برطانیہ، امریکہ یا کوئی دوسرا مغربی ملک انہیں سیاسی پناہ دے گا؟
بنگلہ دیش میں ہفتوں سے جاری پُرتشدد مظاہروں کے بعد، پانچ اگست کو شیخ حسینہ نے بطور وزیراعظم اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور فوراً بعد انڈیا روانہ ہو گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: شیخ حسینہ کے ایک لفظ نے ان کے 16 سالہ اقتدار کو کیسے مٹی میں ملا دیا؟
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ انڈیا شیخ حسینہ کی آخری منزل نہیں ہے۔
ان کے مطابق، بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم نے استعفیٰ کے بعد مختصر مدت کے لیے انڈیا کا دورہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔
شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی والدہ نے کسی ملک سے سیاسی پناہ کی درخواست نہیں کی۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا کے بعد شیخ حسینہ کا اگلا ٹھکانہ کون سا ملک ہو گا؟ کیا برطانیہ، امریکہ یا کوئی دوسرا مغربی ملک انہیں سیاسی پناہ دے گا؟
ماہرین کے مطابق، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دیگر ممالک اس صورتحال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے محقق ٹام کینے کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے لیے کسی مغربی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنا مشکل ہو گا، اور شاید یہ ممکن ہی نہ ہو۔
بنگلہ دیش میں حکومت کے خاتمے سے قبل شیخ حسینہ نے آخری لمحے تک پولیس اور فوج کو مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔
ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشین سینٹر کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا بھی خیال ہے کہ شیخ حسینہ کے لیے کسی مغربی ملک میں پناہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔
مغربی ممالک نے شیخ حسینہ کی حکومت کے آخری دنوں میں پیش آنے والے واقعات پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔
مائیکل کوگلمین نے مزید کہا کہ سکیورٹی فورسز کے ذریعے پُرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور حکومت کے ظلم و ستم نے مغربی ممالک کو شدید تحفظات میں مبتلا کر دیا ہے۔
اس کے باوجود کہ شیخ حسینہ کے خاندان کے متعدد افراد مغربی ممالک میں مقیم ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھی طلبہ کے خلاف طاقت کے استعمال کے معاملے کو اُٹھایا، لیکن شیخ حسینہ کو روکا نہیں جا سکا۔
ٹوم کینے کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ اقتدار میں رہنے کے لیے مزید لوگوں کی جان لینے پر آمادہ تھیں۔
اگر عالمی ادارہ برائے انصاف بنگلہ دیش میں حالیہ واقعات کی تحقیقات کرتا ہے تو شیخ حسینہ کے لیے برطانیہ میں بھی پناہ محفوظ نہیں ہو سکتی۔
ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب آمروں کو یورپی ممالک اور امریکہ نے پناہ دی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب نے بھی مختلف مسلم ممالک کے معزول حکمرانوں کو پناہ دینے کی روایت قائم رکھی ہے۔ تاہم، شیخ حسینہ کے معاملے میں مغربی ممالک کی جانب سے پناہ دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق، سرد جنگ کے بعد یورپ اور امریکہ نے متعدد آمروں کو سیاسی پناہ دی تھی، لیکن موجودہ دور میں حالات کافی بدل چکے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے محقق ٹوم کینے کا کہنا ہے کہ "بنگلہ دیش میں حالیہ واقعات کو دنیا نے بہت قریب سے دیکھا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز کی بھرمار ہے۔
20 یا 30 سال قبل ایسے واقعات اتنی تیزی سے عالمی سطح پر نہیں پہنچتے تھے۔”
کینے کا مزید کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والی ہلاکتوں نے شیخ حسینہ کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
سرد جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ نے اپنے دوستوں کو پناہ دی تھی، لیکن موجودہ حالات میں وہ شیخ حسینہ کی ذمہ داری لینے سے گریز کریں گے۔
ماضی میں شیخ حسینہ مغربی ممالک کی پسندیدہ شخصیات میں شامل رہی ہیں، لیکن وہ کبھی حقیقی معنوں میں ان کی دوست نہیں بن سکیں۔
مزید برآں، یورپ اور امریکہ میں مقیم لاکھوں بنگلہ دیشی شہریوں نے نہ صرف طلبہ کے احتجاج کی حمایت کی بلکہ شیخ حسینہ کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔
کینے کے مطابق، ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی حکومتیں شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے کے فیصلے پر متعدد بار غور کریں گی۔
جب آمر اپنے ملک میں اقتدار سے محروم ہو جاتے ہیں، تو ان کے لیے ملک میں رہنا خطرناک ہو جاتا ہے۔
انہیں جیل جانے یا اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر آمر اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ملک سے فرار کو ترجیح دیتے ہیں۔
سپین کی یونیورسٹی آف بارسلونا کے پروفیسر عبدالسکریبا فوک اور امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیل کرامرچ نے فوجی آمروں کی جلا وطنی پر تحقیق کی ہے۔
ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کئی مرتبہ آمروں کی جلا وطنی تنازعات کے خاتمے کا باعث بھی بنتی ہے۔
مثال کے طور پر، 1979 میں یوگینڈا کے فوجی آمر عیدی امین باغیوں اور تنزانیہ کی فوج کی پیش قدمی کے دوران لیبیا فرار ہو گئے اور بعد میں سعودی عرب میں پناہ لے لی۔
اسی طرح، 1986 میں فلپائن کے آمر مارکوس فرڈیننڈ عوامی بغاوت کے بعد امریکہ کی مدد سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہیٹی کے فوجی آمر جین کلوڈ ڈوویلیئر بھی اقتدار سے محروم ہونے کے بعد فرانس فرار ہو گئے تھے۔
ان تمام مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جب فوجی آمروں کا اقتدار ختم ہوا تو ان ممالک میں انتخابات کا انعقاد ہوا اور پُرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی ممکن ہوئی۔
تاہم، اگر یہ آمر دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کرتے تو صورتحال بہت پیچیدہ ہو سکتی تھی۔
سنہ 2011 میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے چند ممالک میں ‘عرب سپرنگ’ کے نام سے عوامی بغاوتیں سامنے آئیں، جن کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان ممالک میں دہائیوں سے ایک ہی حکمران بغیر کسی انتخابی عمل کے اقتدار میں تھے۔
آمروں کا انجام
‘عرب سپرنگ’ کے دوران سب سے پہلے تبدیلی تیونس میں آئی جہاں زین العابدین بن علی تقریباً 23 سال تک حکمران رہے۔
عوامی غصے کے نتیجے میں انہیں سعودی عرب فرار ہونا پڑا، جہاں بعد میں ان کا انتقال ہوا۔
مصر کے صدر حسنی مبارک کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تین دہائیوں تک اقتدار میں رہے، لیکن عوامی احتجاج کے آغاز کے صرف 18 دن بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
مبارک نے اقتدار فوج کے حوالے کر دیا، مگر انہیں ملک سے فرار ہونے کا موقع نہ مل سکا اور 2012 میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم، صرف چھ ماہ بعد ان کی سزا معطل کر دی گئی اور ان کے مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی۔
2017 تک انہیں قاہرہ کے ایک عسکری ہسپتال میں قید رکھا گیا، لیکن بعد میں مصر کی سپریم کورٹ نے انہیں بری کر دیا اور وہ رہا ہو گئے۔ حسنی مبارک 91 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
لیبیا میں معمر قذافی، جو کہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہے، بھی ‘عرب سپرنگ’ کے دوران اقتدار سے محروم ہوئے۔
قذافی نے احتجاجی مظاہروں کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں ملک میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔
جب قذافی فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے تو انہیں باغیوں نے پکڑ لیا اور تشدد کے باعث ان کی موت واقع ہوئی۔
اس کے علاوہ، 1979 میں ایران میں انقلاب کے نتیجے میں رضا شاہ پہلوی کو بھی اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اگرچہ ان کے مغربی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، لیکن پھر بھی انہیں مصر میں جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔
ایران میں عوامی غم و غصے کو دیکھتے ہوئے مغربی ممالک نے رضا شاہ پہلوی سے دوری اختیار کر لی۔
مزید پڑھیں: حسینہ واجد کا قدم، امیر جماعت اسلامی کی زبانی
پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف بھی ان سویلین رہنماؤں میں شامل ہیں جو انتخابات جیت کر وزیراعظم بنے تھے، لیکن 1999 میں فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
نواز شریف کو ملک میں پھانسی دیے جانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، لیکن امریکی صدر بل کلنٹن اور سعودی عرب کے بادشاہ کے دباؤ کے سبب نواز شریف نے سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی اختیار کر لی۔