سچ خبریں: غزہ میں نسل کشی کے آغاز کو تقریباً ایک سال گزرنے کے باوجود، نیتن یاہو مختلف بہانوں سے جنگ بندی کے معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں، جبکہ مزاحمتی محاذ میدان جنگ اور میدانوں کے اتحادکو نتیجہ حاصل کرنے کا واحد راستہ سمجھتی ہے۔
اس وقت جبکہ غزہ میں اسرائیلی جرائم اپنے بارہویں مہینے کے آخری دنوں میں ہیں، جنگ بندی کے مذاکرات اسرائیلی حکام کی جانب سے مختلف غیر معقول بہانوں کے باعث ہر روز پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزراء کی حزب اللہ کے ساتھ عارضی جنگ بندی کی شدید مخالفت
اسرائیلی ریاست اور حماس تحریک نے قطر اور مصر کی ثالثی میں، امریکہ کی موجودگی میں کئی ماہ قبل غیر مستقیم اور اتار چڑھاؤ والے مذاکرات کا آغاز کیا تھا، لیکن ابھی بھی کئی اختلافات باقی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم مسئلہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا غزہ اور مصر کے سرحدی علاقے فیلادلفیا محور پر قبضے کا اصرار ہےجبکہ حماس اس علاقے سے مکمل اسرائیلی فوجی انخلا پر زور دے رہی ہے۔
حال ہی میں صیہونی اخبار ہاآرتص نے ایک غیر ملکی سفارتی ذریعے کے حوالے سے، جو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور اسرائیلی-فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات سے واقف ہے، رپورٹ دی کہ نیتن یاہو کا فیلادلفیا محور پر قبضے کا اصرار قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔
اس دوران نیتن یاہو کی حقیقت دنیا کے سامنے آ چکی ہے اور سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے اور اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
نیتن یاہو، مقبوضہ علاقوں کے باشندوں کے وسیع پیمانے پر احتجاجات اور جنگ ختم کرنے نیز اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے اندرونی و بین الاقوامی مطالبات کے باوجود، جنگ جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں، کیونکہ وہ جنگ بندی کے بعد مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہیں۔
اس صورتحال میں، دوحہ-قاہرہ مذاکرات کے نئے دور کی ناکامی اور غزہ کی پٹی میں جنگ بندی نہ ہونے کے باعث، مزاحمتی محور کے ارکان نے اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کیا اور اسرائیل کے خلاف اپنے حملوں کی سطح کو مزید بڑھا دیا؛ یہ تبدیلی لبنان سے حزب اللہ ، یمن سے انصاراللہ اور عراق سے کتائب حزب اللہ کی میدانی کارروائیوں میں واضح ہے۔
حزب اللہ کے مشترکہ حملے، مذاکرات سے مایوسی کا نتیجہ
جنگ بندی کے مذاکرات کی ناکامی کے ساتھ ہی، مزاحمتی محور کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے خاص طور پر حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مشترکہ راکٹ، میزائل اور ڈرون حملے۔
ستمبر کے اوائل میں، حزب اللہ نے اپنے رہنما فواد شکر کی شہادت کے ردعمل میں اپنے پہلے آپریشن کا آغاز کیا، جس میں لبنان کی مزاحمتی تحریک نے مقبوضہ شمالی فلسطین کی جانب 300 سے زائد راکٹ اور ڈرون فائر کیے۔
اس وقت حزب اللہ نے اپنے حملوں کے اہداف کی فہرست جاری کی تھی، جن میں میرون،نافی زیف،زعتون،الزاعورة،السهل،عین زی تیم،راموت نفتالیاور مقبوضہ جولان میں کئی فوجی اڈے اور بیسیں شامل تھیں، جن میں کیلع،یو ایف،نفحاور یردن شامل ہیں۔
حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں شدت
حالیہ ہفتوں میں حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے، اسرائیلی ریاست نے منگل اور بدھ (28 اور 29 ستمبر) کو لبنان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے دوران ہزاروں پیجر، وائرلیس اور مواصلاتی نظام کو دھماکے سے اڑا کر کم از کم 37 لبنانی شہریوں کو شہید اور 4000 سے زائد افراد کو زخمی کیا، اس کے بعد واکی ٹاکی آلات کے دھماکے بھی دیکھنے میں آئے۔
گزشتہ دنوں صیہونی ریاست کی بربریت میں مزید اضافہ ہوا اور حزب اللہ ؤ کے سکریٹری جنرل اور مزاحمتی تحریک کے کئی کمانڈرز کو نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج نے لبنان کی سرزمین پر زمینی جارحیت کا آغاز کیا لیکن حزب اللہ کے مجاہدین نے ان حملوں کا سخت جواب دیا، جس سے اسرائیل کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے لبنان میں حالیہ دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اگرچہ حالیہ تنازعات کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کے لبنان کے مشرقی علاقے بقاع اور جنوبی علاقوں پر حملوں کے باعث 500000 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں لیکن حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کامیابی کا راستہ مذاکرات کی میز پر نہیں بلکہ میدان جنگ میں مزاحمت جاری رکھنے میں ہے۔
یمن کے ہائپرسونک میزائل سے لے کر عراق اور شام کی مزاحمتی تیاریاں
اگرچہ حزب اللہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی ریاست کے لیے ایک خوفناک خواب بن چکا ہے لیکن یمن اور عراق جیسے ممالک میں مزاحمتی گروہ بھی طوفان الاقصی کے بعد سے اپنی جنگی سرگرمیوں میں تیزی لا چکے ہیں اور ہر مذاکراتی ناکامی کے بعد اپنے حملوں میں شدت پیدا کی ہے۔
ستمبر کے آخر میں انصار اللہ یمن نے اپنی ایک اور حیران کن کارروائی کی اور دوسری بار اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب جسے صیہونی ریاست یافا کہتی ہے ،کو انتہائی درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا، اس بار یہ حملہ ڈرون کی بجائے ہائپرسونک (مافوق صوت) بیلسٹک میزائل سے کیا گیا۔
یہ میزائل امریکی بحری بیڑوں کے تمام دفاعی نظاموں کو ناکام بناتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچا، جو امریکہ کے فوجی وقار پر ایک سنگین ضرب تھا۔
فلسطین 2 نامی اس میزائل نے تقریباً 2040 کلومیٹر کا فاصلہ 11 منٹ 30 سیکنڈ میں طے کیا اور اسرائیلی حلقوں میں شدید خوف و ہراس پھیلایا، یہاں تک کہ تاریخ میں پہلی بار 20 لاکھ سے زیادہ اسرائیلی شہری پناہ گاہوں میں چلے گئے۔
یہ کارروائی یمن کے مزاحمتی میزائل یونٹ کے ہیروز کی جانب سے پانچویں مرحلے کی ایک اہم کامیابی تھی۔
انصار اللہ کا حملہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے محاذ پر نیا دباؤ
انصار اللہ یمن کے حالیہ حملے کا ایک واضح اشارہ یہ ہے کہ اگر نیتن یاہو لبنان کے جنوبی علاقوں میں کسی نئی مہم جوئی کی کوشش کریں، تو انہیں جنوبی محاذ پر مزاحمت کی میزائل اور ڈرون حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
انصار اللہ یمن کی حالیہ کارروائیوں نے نہ صرف بندر ایلات کی سرگرمیوں کو روک دیا اور سویز-باب المندب کی بحری تجارت میں کمی کا باعث بنی، بلکہ یہ حملے مقبوضہ فلسطین کے مرکز کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ انصاراللہ کے نئے میزائلوں کی رینج کو دیکھتے ہوئے، یہ گروپ مشرقی بحیرہ روم میں فعال بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے اور حیفا، اشدود اور عسقلان کی بندرگاہوں کو غیر فعال کر سکتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ صیہونی حکومت صنعا کے حوالے سے احتیاط برتنے کی پالیسی اختیار کر رہی ہے اور براہ راست تصادم سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جیسے جیسے اسرائیلی حکومت مذاکرات کی میز سے دور ہو رہی ہے، حزب اللہ اور انصار اللہ یمن کے علاوہ عراق اور شام میں بھی مزاحمت کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔
چند روز قبل بغداد میں عراقی مزاحمتی گروہوں کے ایک اجلاس میں، کمانڈرز اور نمائندوں نے لبنان کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف جنگ میں فوجی، اسلحہ اور انسانی مدد فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ عراق اور شام سے مقبوضہ فلسطین میں اہداف پر اپنے میزائل اور ڈرون حملے مزید شدت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔
مزید پڑھیں: کیا بائیڈن کے دور میں غزہ میں جنگ بندی ہو سکے گی؟وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ
اس صورتحال میں، چاہے نیتن یاہو دوحہ اور قاہرہ مذاکرات کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر اپنے سیاسی فائدے، قانونی مقدمات سے فرار اور اقتدار میں رہنے کی کوشش کر رہے ہوں، لیکن ان کے اس رویے کے نتائج اسرائیلی خاندانوں اور تل ابیب کے مغربی اتحادیوں کو بھگتنا پڑیں گے، یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو پر داخلی اور خارجی دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔