ٹرمپ کا غزہ کے بارے میں خواب؛ جسے اتحادیوں میں بھی پذیرائی نہیں مل رہی  

ٹرمپ کا غزہ کے بارے میں خواب؛ جسے اتحادیوں میں بھی پذیرائی نہیں مل رہی  

سچ خبریں:حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطین کے معاملے پر موقف، خاص طور پر غزہ پٹی کے حوالے سے، واضح طور پر فلسطین کے لیے ایک سنگین خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں، اگر اس معاملے پر ہوشیاری نہ برتی گئی تو ناقابل تلافی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔  

مزاحمتی تحریک کا شدید ردعمل اور نیتن یاہو کابینہ کی خوشی  
ڈونلڈ ٹرمپ کے ان متنازعہ بیانات سے پہلے، جو بنیامین نیتن یاہو اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کی طرف سے وسیع پیمانے پر پذیرائی کا باعث بنے،  القسام بریگیڈز (حماس کی فوجی شاخ) کے ترجمان ابوعبیدہ نے واضح کیا تھا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد فلسطینی فریق قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو معطل کر دے گا۔
انہوں نے صہیونی ریاست کی طرف سے غزہ کے شمالی علاقوں میں فلسطینی مہاجرین کی واپسی میں تاخیر، فلسطینی مہاجرین کو نشانہ بنانے اور غزہ پٹی میں امدادی سامان کی رسائی کو روکنے کو صہیونی ریاست کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کے تین اہم نکات کے طور پر بیان کیا۔
 انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات کے بعد، قیدیوں کے تبادلے کے اگلے مرحلے کو معطل کر دیا گیا ہے، جس میں 15 فروری کو کچھ صہیونی قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔
فلسطینی گروپوں نے بھی اپنے بیانات میں زور دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبہ درحقیقت ایک کھلی جنگ کا اعلان اور فلسطینی قوم کو ان کی سرزمین سے نکالنے کا منصوبہ ہے۔
دوسری جانب، امریکی ذرائع نے نیتن یاہو اور ان کی انتہائی دائیں بازو کی کابینہ کی ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ موقف پر شدید خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات نیتن یاہو کے فیصلوں پر اثر انداز ہوں گے، خاص طور پر قیدیوں کے تبادلے کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے، جس پر وہ صہیونی ریاست کی سیکیورٹی کابینہ کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔
صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کی حالیہ میٹنگ کے آغاز میں اپنے امریکہ کے حالیہ دورے کو صہیونی ریاست کے لیے ایک تاریخی موڑ قرار دیا، انہوں نے امریکی صدر کے خیالات پر اپنی شدید خوشی کا اظہار کرتے ہوئے غزہ کے حوالے سے ان کے منصوبے کو ایک انقلابی اقدام قرار دیا۔
عرب اور اسلامی ممالک کی شدید مخالفت  
ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات، جن میں انہوں نے غزہ پٹی کو خریداری اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کی شرکت سے اس کی تعمیر نو کے عمل کا اعلان کیا، عرب اور اسلامی ممالک کی طرف سے یکجہتی کے ساتھ ردعمل اور مذمت کا باعث بنے ہیں۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے ٹرمپ حالیہ بیانات کو خطے کی موجودہ حقیقتوں سے مکمل طور پر دور قرار دیا، انہوں نے اس سے قبل غزہ کے باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کرنے کے منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی قوم کے مطالبات پر سنجیدہ توجہ دینے کی اپیل کی تھی۔
اسی تناظر میں، مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی، جو واشنگٹن کے دورے پر ہیں، نے اپنے امریکی ہم منصب مارکو روبیو کے ساتھ ملاقات میں عرب ممالک کی طرف سے ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت کا اظہار کیا اور فلسطینیوں کو غزہ پٹی سے منتقل کرنے اور امریکہ کے اس پٹی پر تسلط کے منصوبے کی مذمت کی ۔
مصر کی وزارت خارجہ کے مطابق، عبدالعاطی نے واشنگٹن میں روبیو کے ساتھ ملاقات میں غزہ پٹی کی تعمیر نو میں تیزی لانے پر زور دیا، جس میں غزہ کے باشندوں کی شرکت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
اس بیان کے مطابق، مصر کے وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ امن قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جس میں فلسطینی قوم کے جائز حقوق کا تحقق، خاص طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا حق، شامل ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں مصر اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ٹرمپ کے غزہ کے حوالے سے تجویز پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
تاہم، بیان میں کہا گیا کہ واشنگٹن غزہ میں جنگ کے بعد حکمرانی اور سلامتی کے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے قریبی تعاون کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
امریکہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ حماس کو کبھی بھی غزہ کے معاملات کی باگ ڈور نہیں سنبھالنی چاہیے اور نہ ہی اسرائیل کو دوبارہ خطرے میں ڈالنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے اپنے دورے کے دوران امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے مشرق وسطی اسٹیو وائٹیکوف سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں فریقوں کی طرف سے پہلی ملاقات کی طرح ہی بیانات جاری کیے گئے۔
ٹرمپ کا متنازعہ منصوبہ اتحادیوں میں بھی مقبول نہیں  
اسلامی اور عرب ممالک کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے مستقبل کے حوالے سے جنجالی اور غیر اخلاقی منصوبے کی واضح مخالفت کے علاوہ، یہ منصوبہ خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک میں بھی پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
علاقائی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی تجاویز نہ صرف سعودی عرب اور صہیونی ریاست کے درمیان تعلقات کی معمول سازی کی کوششوں کو سست کر دیں گی، بلکہ یہ محمد بن سلمان اور ٹرمپ کے درمیان ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچائیں گی، جو ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں واضح تھی۔
ٹرمپ کے غزہ کے مستقبل کے حوالے سے موقف پر عرب دنیا میں، خاص طور پر سعودی عرب کی طرف سے، شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ہے، سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک اور مشرق وسطی کی سب سے بڑی معیشت ہے۔
ٹرمپ کے غزہ پٹی پر امریکی ملکیت اور اسے مشرق وسطی کا ریویرا (اٹلی کا ایک خوبصورت سیاحتی علاقہ) بنانے کے تجویز کے بعد، سعودی حکام نے اپنے موقف کو مزید سخت کر دیا ہے،ان جنجالی بیانات کے تقریباً ایک گھنٹے بعد، سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کی سختی سے مذمت کی۔
اسی بیان میں، ریاض نے نیتن یاہو کے حالیہ بیانات کو مسترد کر دیا، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی معمول سازی یقینی ہے۔
 سعودی عرب نے اپنے سابقہ موقف پر زور دیا کہ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام سے پہلے دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کی معمول سازی نہیں ہوگی۔
علاقائی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ اپنی تجاویز پر اصرار کرتے ہیں تو سعودی عرب اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی معمول سازی پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی امریکی صدر ٹرمپ کے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے اور اس پٹی پر امریکی کنٹرول کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی غزہ کے لوگوں کو ان کی سرزمین سے باہر نہیں نکال سکتا، جہاں وہ ہزاروں سالوں سے آباد ہیں، اردگان نے زور دے کر کہا کہ غزہ اور مغربی کنارہ فلسطینیوں کا حق ہے۔
ٹرمپ کا یہ غیر اخلاقی منصوبہ اتنا جنجالی ثابت ہوا ہے کہ اس نے ابومحمد الجولانی کو بھی ردعمل دینے پر مجبور کر دیا۔ شام میں باغی گروپوں کے سربراہ احمد الشرع نے غزہ کے باشندوں کو جبری طور پر بے دخل کرنے کے ٹرمپ کے منصوبے پر ردعمل ظاہر کیا۔
الجولانی نے ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں کہا کہ فلسطینی قوم کا ہر نسل جو سبق سیکھتی ہے، وہ اپنی سرزمین سے وابستگی کی اہمیت ہے۔
 انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی طرف سے فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کرنے کی کوشش نہ تو عقلمندانہ ہے اور نہ ہی اخلاقی یا سیاسی طور پر درست۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی طاقت فلسطینیوں کو ان کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتی، اور اس سلسلے میں تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، خاص طور پر غزہ کے خلاف گزشتہ جنگ میں، جو ڈیڑھ سال تک جاری رہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے