سچ خبریں:دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ ترک صدر اور اس ملک کی حکومت کے دعووں کے برعکس، انقرہ مختلف طریقوں سے صہیونی حکومت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اسرائیل کے خلاف دیوانِ لاهہ میں شکایت کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن تاحال ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارت، تیسرے ممالک کے ذریعے اب بھی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ترکی اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات ختم ہو گئے ہیں؟
ہم اچانک آئیں گے — یہ وہ عبارت ہے جو اردغان نے گزشتہ سال ایک میٹنگ کے موقع پر غزہ کی حمایت اور صہیونی حکومت کے خلاف کہی تھی، اس طرح انہوں نے ترکی کی عوام کے سامنے اسرائیل کے ساتھ اپنی مخالفت اور فلسطین کی حمایت ظاہر کی۔
ہم سب اردغان کو ایک ایسے سیاسی رہنما کے طور پر جانتے ہیں جو ہمیشہ اسرائیل پر سخت تنقید کرتے ہیں، لیکن یہ تنقید صرف الفاظ تک محدود رہی ہے اور اس کے پیچھے عملی اقدامات بہت کم دیکھے گئے ہیں۔
اگرچہ انقرہ حکومت کے عہدیداروں نے گزشتہ ایک سال میں تمام سیاسی محافل میں صہیونی حکومت کے اقدامات کی مذمت کرنے اور فلسطین کی بھرپور حمایت کرنے کی کوشش کی، لیکن سوال یہ ہے کہ ترکی کی حکمران جماعت، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) کی پالیسی میں تل ابیب کے خلاف دیے جانے والے بیانات میں کس حد تک سچائی ہے؟
اس رپورٹ میں ہم گزشتہ ایک سال کے دوران مسئلہ فلسطین پر ترکی کی پالیسی کا جائزہ لیں گے۔
تحمل کی دعوت سے نیتن یاہو پر ذاتی تنقید تک
طوفان الاقصی آپریشن کے ابتدائی دنوں میں اور اس کے بعد جب صہیونی حکومت نے اس کے رد عمل میں غزہ کے عوام پر حملے کیے، انقرہ کے حکام نے صرف حماس اور اسرائیل کو صرح تحمل سے کام لینے کی دعوت دینا بہتر سمجھا۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جب غزہ میں صہیونی فورسز کی جانب سے قتل عام جاری رہا، اردغان نے حماس کی حمایت کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ گروپ دہشت گرد نہیں ہے، اور طویل عرصے تک صرف صہیونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر تنقید تک محدود رہے۔
سب سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ مسائل کو ذاتی بنانا انقرہ حکومت کے سیاسی حربوں میں سے ایک ہے، مثال کے طور پر، ہم نے متعدد بار دیکھا ہے کہ اردغان نے پیرس کی حکومت پر تنقید کرنے کے بجائے صرف فرانس کے صدر، ایمانوئل میکرون، کو نشانہ بنایا۔
اسرائیل کے معاملے میں بھی یہی پالیسی نظر آئی، جہاں اردوغان نے اسرائیل کے حملوں کے ذمہ دار صرف نیتن یاہو کو قرار دیا اور انہیں پر تنقید کرنا پسند کیا۔
حالانکہ نیتن یاہو کی سوچ صہیونی حکومت کی عمومی آئیڈیالوجی کے مطابق ہے اور اس پر کون حکمرانی کرتا ہے اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
درحقیقت، آپارتھائیڈ کی آئیڈیالوجی قابلِ تبدیل نہیں ہے۔ اردغان نے 2009 میں ڈاووس کے اجلاس میں شیمون پیریز، اُس وقت کے صہیونی حکومت کے صدر کو براہِ راست مخاطب کیا اور اُن پر بچوں کے قتل کا الزام عائد کیا، جس سے وہ ایک عرصے تک عوامی نگاہ میں قومی ہیرو بن گئے تھے۔
اس بار بھی اردغان نے وہی پرانی ہوشیارانہ حکمت عملی اپنانا چاہی، لیکن انقرہ-تل ابیب کے تجارتی تعلقات کے تسلسل کی وجہ سے ترکی کے عوام کے لیے ان کا موقف قابل یقین نہیں رہا۔
غزہ کی حمایت میں مظاہرے اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کا تسلسل
7 اکتوبر کے حملے کے ردعمل میں صہیونی حکومت کے ابتدائی حملوں کے تقریباً 21 دن بعد، انقرہ کے حکام نے فلسطینی عوام کی حمایت میں بڑے بڑے عوامی جلسے منعقد کر کے اپنی مؤثر سیاسی پالیسی کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ان جلسوں پر بھی شدید تنقید ہوئی۔
ترکی کی عوام یہاں تک کہ ملک کے سیاسی حلقوں کا ماننا تھا کہ محض جلسے منعقد کرنا کافی نہیں، بلکہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی ختم کیے جانے چاہییں۔
لیکن جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے تنقیدوں پر کان دھرے بغیر یہ مؤقف اپنایا کہ تجارتی اور سیاسی تعلقات دو الگ موضوعات ہیں اور انہوں نے اسی شدت کے ساتھ تجارتی روابط جاری رکھے۔
حالانکہ، گزشتہ سال (2023) کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، انقرہ اور تل ابیب کے درمیان تجارتی حجم 6.8 بلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا، جس میں سے ایک بڑا حصہ ترکی کی برآمدات پر مشتمل تھا، ان ہی اعداد و شمار کے مطابق روزانہ 7 تجارتی جہاز ترکی سے مقبوضہ علاقوں کی طرف روانہ ہوتے تھے۔
ایسی صورتحال میں، 2023 کے میونسپل الیکشن میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی شکست، اسلامی اور قدامت پسند طبقے کا اس پارٹی سے دور ہو کر نیو ویلفیئر پارٹی کے قریب ہونا اور اس پارٹی کے رہنما فاتح اربکان کی فلسطین کے مسئلے پر اردغان کی پالیسی پر تنقید نے اردوغان کو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کا سنجیدہ فیصلہ لینے پر مجبور کر دیا۔
اس کے بعد ترکی کی حکومت نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ رواں سال 2 مئی سے ترکی اور صہیونی حکومت کے درمیان تجارتی تعلقات بند ہو گئے ہیں۔
تجارتی تعلقات بظاہر معطل، مگر پس پردہ جاری: ترکی اور تل ابیب کے درمیان غیر مستقیم تجارت کا انکشاف
اگرچہ ظاہری طور پر ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات منقطع ہو چکے ہیں، مگر یہ تعلقات غیر مستقیم طریقوں سے، تیسرے ممالک کے ذریعے جاری ہیں۔
تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکیہ اور فلسطین کے درمیان تجارت میں اچانک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، جو اشارہ کرتا ہے کہ انقرہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تجارت کے ذریعے تل ابیب کو برآمدات جاری رکھے ہوئے ہے۔
مثال کے طور پر، جون 2024 میں ترکی-فلسطین کے درمیان ماہانہ تجارت 61 ملین 281 ہزار ڈالر تھی، جبکہ جولائی 2024 میں یہ بڑھ کر 128 ملین 895 ہزار ڈالر ہوگئی۔
اگست میں تجارت کی مالیت 138 ملین 336 ہزار ڈالر تک پہنچ گئی، کہا جا رہا ہے کہ وہ کمپنیاں جو اب بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت کر رہی ہیں، ترکی سے نکلتے وقت اپنی منزل فلسطین ظاہر کرتی ہیں، لیکن روانگی کے بعد جہاز کا راستہ تل ابیب کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
اسی طرح، آذربائیجان کی جانب سے ترکی کی بندرگاہ جیہان کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کو تیل کی برآمدات بھی جاری ہیں حالانکہ ترکی کی عوام نے بارہا احتجاجی مظاہرے کیے اور اس طرح کی برآمدات کو روکنے کا مطالبہ کیا، مگر ترکی کی حکومت نے اس معاملے میں کسی بھی قسم کی جوابدہی سے گریز کیا ہے، اس حوالے سے یہ بھی یاد دہانی ضروری ہے کہ 20 جولائی کو ایک تجارتی جہاز آلتای امان جانے کے بہانے حیفا بندرگاہ پر پہنچا۔
غزہ جنگ میں کورجیک اور انجرلیک کا کردار
بہتر ہے کہ غزہ جنگ کے دوران اردغان کی پالیسی کو صرف تجارتی تعلقات تک محدود نہ سمجھا جائے ،ترکی میں واقع کورجیک اور انجرلیک کے دو ریڈار بیسز اسرائیل کے لیے غزہ اور خطے میں جنگ کو وسعت دینے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
چونکہ اسرائیل کی دفاعی ضروریات زیادہ تر امریکہ پوری کرتا ہے، اور ان ہتھیاروں کی نقل و حمل کے اہم مراکز میں سے ایک انجرلیک بیس ہے، جہاں سے امریکی طیارے مقبوضہ علاقوں تک ہتھیار پہنچاتے ہیں۔
یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات اب بھی برقرار ہیں جسے عوامی احتجاج کے باوجود پوری طرح توڑا نہیں جا سکا۔
ترکی میں انجرلیک بیس اور کورجیک رڈار: عوامی مطالبات کے باوجود حکومت کی خاموشی
ترکی کی حکومت نہ صرف انجرلیک بیس کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی بلکہ ان ہتھیار بردار طیاروں کو ترکی کی سرزمین سے اڑنے سے بھی نہیں روکتی۔
اس کے ساتھ ساتھ کورجیک کے رڈارز بھی بالواسطہ طور پر امریکہ کے ذریعے اسرائیل کو فوجی معلومات فراہم کر رہے ہیں، حیران کن طور پر، اردوغان نے اس سلسلے میں بھی کوئی کارروائی نہیں کی، جبکہ یہ ترکی کے عوام کا ایک بڑا مطالبہ رہا ہے اور اس حوالے سے کئی بار عوام نے اس فوجی اڈے کے سامنے احتجاج بھی کیا ہے۔
اردوغان کی ٹرمپ جیسی بیان بازی
سیاسی اور میڈیا کے کئی کارکنان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو آنے والے انتخابات کے امیدوار بھی ہیں، کو ایک ایسا سیاستدان سمجھتے ہیں جو اکثر جھوٹ بولتے ہیں؛ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں 30 ہزار بار جھوٹ بولا تھا۔
تاہم، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غزہ کے مسئلے پر اردغان بھی اسی طرح کی جھوٹ بیانیوں میں مصروف ہیں مثال کے طور پر اردغان اور دیگر ترک حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف دیوانِ لاهہ میں شکایت کریں گے، اسی طرح نیٹو کے اجلاس سے پہلے انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس میں فلسطین کے مسئلے کو اٹھائیں گے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اجلاس کے کسی بیان میں فلسطین کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
مزید برآں، اردغان نے نیٹو کے اسی اجلاس میں کہا کہ ترکی کی حکومت جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف لاهہ میں شکایت کرے گی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی افریقہ نے یہ قانونی معاملہ خود اکیلے ہی آگے بڑھایا۔
اسرائیل پر نسل کشی کے جرم کی شکایت جنوبی افریقہ کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں جنوری میں کی گئی، جبکہ ترک حکام نے مارچ میں کہا کہ وہ اس قانونی معاملے میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا ترکی اور اسرئیل کے درمیان تجارت بند ہو گئی ہے؟
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اردغان کا یہ دعویٰ کہ وہ جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف شکایت میں شریک تھے، جھوٹ ہے، اور ترکی نے ابھی تک اسرائیل کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی ہے۔