سچ خبریں:غزہ میں فیلادلفیا اور نتساریم کے علاقوں سے صیہونی فوج کی پسپائی کو اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے تحت ان کی ایک بڑی شکست قرار دیا جا رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ جنگ، تقریباً 15 ماہ کے بعد ایک جنگ بندی معاہدے پر ختم ہوئی، اس معاہدے کے اہم نکات میں ایک بڑا فیصلہ صیہونی فوج کی غزہ اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان واقع فیلادلفیا اور نتساریم کے راستوں سے پسپائی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 1948 کی جنگ کے بعد سے صیہونیوں کے لیے سب سے خطرناک شکست
فیلادلفیا کوریڈور
فیلادلفیا کوریڈور غزہ اور مصر کے درمیان رفح گزرگاہ پر تقریباً 14 کلومیٹر لمبائی اور 100 میٹر چوڑائی کا ایک خطہ ہے، 2005 میں غزہ سے صیہونی پسپائی کے بعد یہ علاقہ ایک غیر عسکری زون کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، اس کا مقصد مصر کے ذریعے غزہ میں اسلحے کی منتقلی کو روکنا تھا۔ تاہم، حماس کے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد، یہ مشترکہ انتظام ختم ہو گیا۔
جنوری 2024 میں نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اسرائیل دوبارہ فیلادلفیا کوریڈور پر قبضہ کرے گا تاکہ مزاحمتی تحریک کو غیر مسلح کیا جا سکے،تاہم حالیہ جنگ بندی معاہدے کے تحت، صیہونی فوج کو اس علاقے سے مکمل طور پر پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا۔
نتساریم کوریڈور
نتساریم کوریڈور 6 کلومیٹر طویل ایک راستہ ہے جو غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے،یہ راستہ جنگ کے دوران صیہونی فوج نے بنایا تھا، جس کا مقصد غزہ کے شمال اور جنوب کے درمیان نقل و حرکت کو کنٹرول کرنا تھا،اس راستے کے ارد گرد کئی فوجی اڈے قائم کیے گئے جنہیں اب حالیہ معاہدے کے تحت ختم کیا جا رہا ہے۔
صیہونی پسپائی کی وجوہات اور اثرات
نیتن یاہو نے ماضی میں کہا تھا کہ اسرائیل فیلادلفیا اور نتساریم کوریڈورز کا کنٹرول کسی صورت نہیں چھوڑے گا، تاہم، معاہدے کے تحت صیہونی فوج 22 دنوں کے اندر غزہ کے مرکزی علاقوں سے پیچھے ہٹنا شروع کرے گی اور 50 دنوں کے اندر فیلادلفیا سے مکمل انخلا مکمل کرے گی،اس پسپائی کو غزہ میں اسرائیل کی بڑی عسکری ناکامی سمجھا جا رہا ہے، جو حماس کی مزاحمتی طاقت کا ایک اور ثبوت ہے۔
نتائج اور عالمی ردعمل
یہ پسپائی نہ صرف صیہونی حکومت کی عسکری ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس نے غزہ کے معاملے میں اسرائیل کی پالیسیوں کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ حماس کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نتنیاہو کی سیاسی ساکھ کے لیے ایک بڑا دھچکہ۔
جنگ بندی معاہدے میں صیہونیوں کو ہونے والی بڑی شکستیں
جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کو متعدد بڑی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، جو نہ صرف اس کی عسکری حکمت عملی کی ناکامی کی نشاندہی کرتی ہیں بلکہ وزیراعظم نیتن یاہو کی سیاسی ساکھ کے لیے بھی ایک بڑی ضرب ثابت ہوئیں۔
1- غزہ پر قبضے میں ناکامی
استنبول میں اسلام اور عالمی امور کے مرکز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سامی العریان کے مطابق، صیہونی حکومت طویل عرصے سے غزہ پر مکمل قبضے کے بغیر اس کے کنٹرول کی کوشش کرتی رہی ہے، لیکن اس میں ناکام رہی۔
حالیہ معاہدے کے تحت صیہونیوں کو فیلادلفیا اور نتساریم کے گزرگاہوں سے پیچھے ہٹنا پڑا، جو نتنیاہو کے لیے ایک بڑی رسوائی ہے کیونکہ اس نے پہلے ان علاقوں سے دستبردار ہونے سے انکار کیا تھا۔
2- مسلسل عسکری دباؤ کی حکمت عملی میں ناکامی
اسرائیلی حکومت نے جنگ کے آغاز سے ہی، خاص طور پر اکتوبر 2024 کے بعد، مسلسل عسکری دباؤ کے ذریعے مکمل فتح کی حکمت عملی اپنائی، تاہم اس حکمت عملی کے باوجود، اسرائیل حماس پر قابو پانے یا اسے شکست دینے میں ناکام رہا۔
3- غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں کو الگ کرنے کی ناکامی
صیہونی حکومت نے غزہ کے شمالی اور جنوبی حصوں کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر شمالی غزہ کو محاصرے میں رکھ کر اور وہاں کے عوام کو بھوک کا شکار بنا کر حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا چاہا۔
اسرائیلی فوج نے جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ، بیت لاهیہ اور بیت حانون جیسے علاقوں پر شدید بمباری کی، لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود، یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔
نتیجہ
حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے اہم نکات میں فیلادلفیا کوریڈور (رفح کے قریب) اور نتساریم محور سے صیہونی فوج کا انخلا شامل ہے۔
یہ علاقے غزہ کو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ نیتن یاہو ، جو اس سے پہلے غزہ سے انخلا کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کر چکا تھا، اس معاہدے کے تحت انخلا پر مجبور ہوا۔
مزید پڑھیں: صیہونیوں کی شکست کا ذمہ دار کون؟
یہ معاہدہ اسرائیل کی اہم ناکامیوں کی نشاندہی کرتا ہے، جن میں غزہ کی مکمل اشغال میں ناکامی، حماس پر مکمل فتح حاصل کرنے میں ناکامی، اور غزہ کے شمالی و جنوبی حصوں کو الگ کرنے کی کوششوں میں ناکامی شامل ہیں۔