(سچ خبریں) دنیا بھر میں ایک بار پھر کورونا وائرس کی تیسری لہر شروع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اب ایک بار پھر لاک ڈائون اور پابندیوں کا امکان پایا جارہا ہے جس کی وجہ سے عوامی مشکلات میں شدید اضافہ ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
وطن عزیز میں کورونا وائرس کی تیسری لہر جاری ہے اور یومیہ کیسز اور اموات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اس وقت ملک میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 8 فی صد ہوگئی ہے۔
صورتحال پہلے سے زیادہ خراب ہے، جس کے باعث حکومت نے ایک مرتبہ پھر سخت پابندیوں کا انتباہ دیا ہے جس کا فیصلہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سینٹر کے پیر کے اجلاس میں ہوگا، کئی شہروں میں پہلے ہی دوبارہ لاک ڈائون اور اسمارٹ لاک ڈائون لگائے بھی جاچکے ہیں، بعض شہروں کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات پہلے دے دی گئی تھیں۔
کورونا کے بعد سے عوام پہلے سے زیادہ معاشی مشکلات اور بے یقینی کی صورت حال میں زندگی بسر کررہے ہیں اس آزمائش میں جہاں تعلیم وصحت کے ڈھانچے متاثر ہوئے ہیں وہاں سماجی شکست وریخت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
پہلی لہر کے بعد سے پیدا ہونے والی بے روزگاری اور حکومت کی بے سمت معاشی پالیسی کے اثرات ہی سے ہم باہر نہیں آئے تھے کہ اب تیسری لہر کے اثرات کا خوف پھیل رہا ہے، دکاندار اور روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے پریشانی میں مبتلا ہیں۔
ہمارے ملک میں کورونا سے بچائو کے لیے حکومتی اعلان اور مہم میڈیا کی حد تک ہی خوب نظر آئی، پہلی لہر میں سب کچھ بند کرنے کی پالیسی نے وقتی طور پر صورت حال کو سنبھلا دیا لیکن ظاہر ہے پوری دنیا کی طرح مستقل سب کچھ بند کرنا ہمارے یہاں بھی ممکن نہیں تھا، ہماری معیشت پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی اس دلیل کے ساتھ ہم نے سب کچھ کھولنا تو پوری دنیا کی طرح ساتھ شروع کردیا لیکن کورونا میں زندگی کس طرح گزارنی ہے وہ دنیا سے نہیں سیکھا، اس کے لیے نہ قوم خود مثبت قدم اٹھا سکی اور نہ ہی ریاست نے اپنے اقدامات کے ذریعے اس کو ممکن بنایا اور عملاً کورونا کو پھیلنے کے لیے ساز گار ماحول ہم نے خود فراہم کیا، اب اگر یہ بات درست ہے کہ اسکولوں اور بازاروں کو بند کرکے ہم اس مسئلے سے نہیں نکل سکتے تو یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں غیر ضروری بھیڑ کی وجہ بننے والے اسباب کو ختم کرنا ہوگا۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک طبقہ اس وبا کو مانتا ہی نہیں ہے اور آج تک محدود طبقے کے علاوہ اس بیماری سے بچنے کو کوئی تیار ہی نہیں تھا اور نہ اب ہے، جبکہ اس بیماری سے صرف احتیاط اور دعا کے ساتھ ہی بچا جاسکتا ہے اور دعا سے پہلے تدبیر ضروری ہے۔
ہم صرف کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے پابندیاں لگانے اور پابندیاں ختم کرنے کی مشق سے اس وبا سے نہیں بچ سکتے اس کے لیے انتظامیہ کو فعال ہونا ہوگا اور اپنی رٹ قائم کرتے ہوئے کم از کم بازاروں اور رش والی جگہوں پر ایس او پیز پر عمل درآمد کرانا ہوگا کیونکہ یہ جہاں یہ حکومتی ناکامی ہے کہ لوگ پورے ملک میں ایس اوپیز پر عمل نہیں کررہے ہیں وہاں ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا جب تک وہ رضا کارانہ ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گے صورتحال پہلے سے زیادہ خراب ہوتی جائے گی۔
اس کے لیے ماہرین بار بار بتا رہے ہیں کہ کھلی فضا بند کمروں کی نسبت محفوظ ہے، بیمار شخص کو آئیسولیشن میں رکھیں، سماجی فاصلے کے طور پر کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ رکھا جائے، آنکھوں، ناک اور منہ کو بغیر ہاتھ دھوئے یا سینیٹائزر کے استعمال کے ہرگز نہ چھوئیں۔
کھانسی یا چھینک کے وقت ہاتھ کے بجائے بازو سے ناک اور منہ کو ڈھانپیں، بزرگوں کی فوری طور پر ویکسی نیشن لازمی کروائی جائے ان چند تجاویز پر عمل کرنے میں آخر کیا مضائقہ ہے، ہمیں افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے اپنے ارد گرد ہونے والی اموات سے سبق سیکھتے ہوئے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، کیونکہ ماہرین بار بار خبردار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں کورونا وبا کے دنیا سے مکمل خاتمے کے امکانات کم ہیں۔
دنیا کو کورونا وائرس کے مکمل خاتمے کے بجائے وائرس نقصانات کو کم سے کم کرنے کو کامیابی تصور کرنا ہوگا، اس طرح کم از کم ہلاکتوں کی تعداد، اسپتالوں پر بوجھ اور معاشی تباہی اور معاشرتی زندگی کو ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکے گا۔
دوسرا طریقہ حفاظتی ٹیکہ ہے جس سے ابھی تک بہت کم لوگ مستفید ہو پائے ہیں، حکومت کو چاہیے ویکسین کی جلد فراہمی کو ممکن بنائے اور ویکسین لگانے کے نظام کو سہل بنائے۔