سچ خبریں:صہیونی حکومت کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شام میں پیدا ہونے والی صورتحال قابض حکومت کے لیے سنگین اور تشویشناک حالات پیدا کریں گے۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، اسرائیلی تجزیہ کاروں کے مطابق شام کے مستقبل کی صورتحال غیر واضح اور پیچیدہ ہے، جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت نے اپنی فوج کو شام کی سرحدی علاقے میں تعینات کر لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر روسی حملہ
اسرائیلی حکومت ، اگرچہ شام میں حکومت کے خاتمے کو ایک تاریخی واقعہ سمجھتی ہے جس کے خطے میں کئی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ علاقائی کھیل کے قواعد کو بدل سکتا ہے، لیکن وہ اس بات سے بھی پریشان ہے کہ شام میں ہونے والی تبدیلیاں دوسرے عب ممالک میں بھی منتقل ہو سکتی ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل اور فوجی امور کے ماہر عمیرام لیوین نے شام میں جبل الشیخ کی بلندیوں پر اسرائیلی قبضے کو اس بات کا عکاس قرار دیا کہ اسرائیلی حکومت شام میں پیدا ہونے والی صورتحال اور مشرق وسطیٰ میں ممکنہ بے چینی سے بہت زیادہ پریشان ہے۔
لیوین، جو اس سے قبل شمالی محاذ کے کمانڈر اور موساد کے نائب سربراہ کے طور پر کام کر چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اس وقت حساس حالات میں ہے۔
غزہ میں جنگ جاری ہے، لبنان کے ساتھ جنگ بندی نام نہاد ہے اور مغربی کنارے پر بھی اسرائیلی فوج کے لیے ایک اور محاذ کھل چکا ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے فلسطین اسٹڈیز کے صدر اور اسٹریٹجک تجزیہ کار مائیکل میلشٹائن نے یدیعوت آحارونوت اخبار میں اپنے ایک کالم میں اسرائیلی حکومت کے شام کے حوالے سے خدشات پر گفتگو کی۔
انہوں نے 7 اکتوبر کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسرائیلیوں کو دوبارہ غافل نہیں ہونا چاہیے۔
میلشٹائن نے کہا کہ شام میں بشار الاسد کے بعد کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی جو اسرائیلی حکومت کو نئے مشرق وسطیٰ کے لیے پُر امید کر سکے، جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے منصوبے میں توقع کی جا رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ تل ابیب کو شمالی محاذ اور لبنان میں فوجی کامیابیوں پر خوشی منانے اور جھوٹے فخر کو چھوڑ دینا چاہیے۔
مزید پڑھیں: مغربی ممالک اب بھی شام میں دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں:روس
میلشٹائن نے مزید کہا کہ تل ابیب کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ شام میں متضاد مفادات رکھنے والی کئی مختلف تحریکیں موجود ہیں، ان میں سے کچھ جہادی اسلام پسند ہیں، اور یہ فرض کرنا غلط نہیں ہوگا کہ شام مختلف حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔