سچ خبریں:فلسطینی قیدیوں کی آزادی وہ مسئلہ ہے جس پر تمام فلسطینی دھڑے متفق ہیں، یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ حقوق کی بحالی کا واحد راستہ مسلح مزاحمت اور مضبوط سفارت کاری ہے۔
اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہمیشہ سے فلسطینی عوام کی جدوجہد کی اہم ترین کامیابیوں میں شمار ہوتی رہی ہے، یہ نہ صرف قانونی اور سیاسی فتح ہے بلکہ اس کا فلسطینی عوام کے اجتماعی شعور اور حتیٰ کہ اسرائیلی قابض معاشرے پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کا تبادلہ؛ حماس کا اقدام اور مزاحمتی قوت کا میدانی مظاہرہ
مزاحمت کے محاذ کے نزدیک، ہر آزاد شدہ قیدی ثابت قدمی کی علامت اور فلسطینی نصب العین کی ناقابل شکست طاقت کا مظہر ہوتا ہے۔
قیدی؛ مزاحمت اور قربانی کی علامت
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی، خواہ وہ دہائیوں سے قید تنہائی کی اذیت برداشت کر رہے ہوں یا وہ نو عمر لڑکے جو صرف پتھر پھینکنے کے جرم میں گرفتار کر لیے گئے، فلسطینی عوام اور عالم اسلام کی نظر میں عزت، غیرت اور استقامت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
ان کی آزادی محض گھر واپسی نہیں، بلکہ یہ اس حقیقت کی تصدیق ہے کہ مزاحمت، چاہے جتنی بھی سخت ہو، بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، ہر رہائی فلسطینی نوجوان نسل کو یہ پیغام دیتی ہے کہ مزاحمت ہی کامیابی کی کنجی ہے۔
اسرائیل کی بے بسی اور فلسطینی اتحاد
اسرائیلی حکومت فلسطینی عوام کی مزاحمتی روح کو توڑنے کے لیے ہزاروں افراد کو بغیر کسی شفاف عدالتی کارروائی کے قید کرتی ہے لیکن جب بھی کوئی فلسطینی قیدی رہا ہوتا ہے، یہ آزادی نئی امید، ہمت اور استقامت کو جنم دیتی ہے۔
مغربی کنارے، غزہ اور جنین میں آزاد شدہ قیدیوں کا جوش و خروش سے استقبال نہ صرف قومی فخر کو مضبوط کرتا ہے بلکہ فلسطینی نوجوانوں کو یہ سکھاتا ہے کہ سر جھکانے کے بجائے، مزاحمت جاری رکھنی چاہیے۔
2011 میں شیخ احمد یاسین معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے بعد، ہزاروں فلسطینیوں نے "قدس کا راستہ قابض کی جیلوں سے ہو کر گزرتا ہے” کے نعرے لگائے۔
یہ حقیقت ہے کہ قیدیوں کی رہائی پر فلسطینیوں میں اتحاد پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ گروہ جو پہلے لڑائی کے طریقوں پر اختلاف رکھتے تھے، قیدیوں کی رہائی کے وقت ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔
اسرائیل کی دفاعی کمزوری اور بین الاقوامی سطح پر رسوائی
اسرائیل کئی دہائیوں سے خود کو "ناقابل تسخیر قلعہ” کے طور پر پیش کرتا آیا ہے، لیکن جب بھی اسے اپنے فوجیوں یا جاسوسوں کی رہائی کے لیے فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرنا پڑتا ہے، تو اس کی بناوٹی طاقت کا پردہ فاش ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، جب اسرائیل نے اپنے فوجی گیلعاد شالیت کی رہائی کے بدلے 1027 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا، تو یہ اسرائیلی دفاعی نظام کے لیے ایک کاری ضرب ثابت ہوئی۔
قیدیوں کی رہائی؛ اسرائیلی معاشرے میں خوف کی لہر
فلسطینی قیدیوں کی رہائی خاص طور پر وہ افراد جو فلسطینی مزاحمت کے عسکری شعبے سے وابستہ رہے، اسرائیلی معاشرے میں شدید خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا اکثر رپورٹ دیتا ہے کہ ہر قیدیوں کے تبادلے کے بعد، صیہونی بستیوں میں خوف بڑھ جاتا ہے اور بعض صیہونی آباد کار اسرائیل چھوڑ کر یورپ اور امریکہ منتقل ہونے لگتے ہیں۔
اسرائیلی سیاسی بحران اور اختلافات
ہر قیدیوں کی رہائی اسرائیلی سیاست میں بھی تنازعات کو جنم دیتی ہے،دائیں بازو کے شدت پسند جیسے بنیامین نیتن یاہو اور اتمار بن گویر اس اقدام کو "دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈالنا” قرار دیتے ہیں، جبکہ اسرائیل کے بعض حلقے، بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہ تضاد اسرائیلی عوام میں اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد میں اضافہ کرتا ہے اور احتجاجی مظاہروں کو جنم دیتا ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس میں دیکھنے کو ملا۔
بین الاقوامی حمایت اور صیہونی پروپیگنڈے کی ناکامی
اسرائیل کا پروپیگنڈہ قیدیوں کی شیطانی تصویر کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن جب خواتین اور بچوں کی رہائی کے بعد ان کی قید کے دوران مظالم کی تصاویر منظر عام پر آتی ہیں، تو عالمی رائے عامہ شدید متاثر ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ بعض اسرائیلی انسانی حقوق کے گروہ جیسے "بتسلیم” بھی اسرائیلی جیلوں کی غیر انسانی صورتحال پر رپورٹ جاری کرتے ہیں، جو اسرائیلی حکومت کی اخلاقی رسوائی میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔
فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مزاحمت کا تسلسل
چاہے قیدیوں کی رہائی سفارتی معاہدوں کے ذریعے ہو یا مزاحمتی کارروائیوں کے ذریعے، یہ فلسطینی جدوجہد کے ماضی اور مستقبل کو جوڑنے والی ایک کڑی ہے۔
اس سے نہ صرف مزاحمتی تحریک کو نیا حوصلہ ملتا ہے، بلکہ اسرائیلی قابض معاشرے میں سیکورٹی خدشات، اخلاقی سوالات اور سیاسی بحران کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: قیدیوں کا تبادلہ صیہونیوں کو کتنا مہنگا پڑے گا؟صیہونی جنگی کابینہ کے رکن کی زبانی
تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی سیکورٹی دیوار یا جدید ہتھیار، اس ارادے کے آگے نہیں ٹھہر سکتے جو آزادی کے لیے لڑنے پر آمادہ ہو۔ فلسطین زندہ ہے اور ہر آزاد ہونے والا قیدی، اس دن کی نوید ہے جب مسجد اقصیٰ پر مزاحمت کا پرچم لہرائے گا۔