غزہ اور حماس کا مستقبل

غزہ اور حماس کا مستبقل

?️

سچ خبریں:غزہ کی جنگ بندی کے بعد، حماس کا بنیادی مطالبہ غیر مسلح ہونا نہیں بلکہ فلسطینی گروپوں کے ساتھ شراکت اور غزہ کی خود انتظامی حکومت کو برقرار رکھنا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کے بعد، میڈیا اور تجزیہ کار معاہدے کی پابندی، صیہونی وفاداری اور بالخصوص مستقبل میں حماس کے اسلحے پر غور و فکر میں مصروف ہیں،کچھ تجزیہ کار تصور کرتے ہیں کہ حماس کا معاہدے کے تحت اسلحے کو ترک کرنا اور مستقبل میں مزاحمت کا کردار ختم کرنا مقصود ہے، مگر دوسرا طبقہ اس خدشے کا اظہار کرتا ہے کہ اسرائیل و امریکہ معاہدے کی کاغذی شکل کے زیرِ غبار وہ پروجیکٹ نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو وہ میدان جنگ میں نہیں کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا غزہ منصوبہ, عرب دنیا کے لیے ایک نیا امتحان

سب سے اہم بات یہ ہے کہ حماس کے اسلحے کا معاملہ متعدد جہتوں پر مشتمل ہے، اور اس کا ایک حصہ معاہدے کے دائرے سے باہر ہے۔ واضح ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے اسلحے کی سطح کو کم کرنا ایک بنیادی ہدف ہے تاکہ وہ غزہ کو کمزور اور کنٹرول شدہ بنائیں۔

نیتن یاہو نے معاہدے کی تفسیر میں یہ موقف پیش کیا کہ اگر حماس اسلحے کو ترک نہ کرے تو جنگ پھر سے شروع ہو جائے گی، اور اس نے اعلان کیا کہ پہلے مرحلے پر معاہدہ منظور ہوا اور دوسرے مرحلے پر قیام امن کا موقع دیا جائے گا۔

لیکن یہ دعوے، اسرائیل کی ماضی کی ناکامیوں اور بدعہدیوں کے پیش نظر، حماس کو اسلحہ ترک نہ کرنے کا جواز فراہم کرتے ہیں، حماس کی قیادت کا کہنا ہے کہ اسلحے کی چال انہیں کامیابی یا ناکامی دونوں میں لے جا سکتا ہے؛ اور وہ جانتی ہے کہ اسرائیل کو اگر موقع ملا تو معاہدہ توڑ دے گا۔

مزاحمتی تحریک نے اعلان کیا ہے کہ اسے کسی بھی طرح کی تحریری ضمانت نہیں دی گئی، بلکہ اسے صرف امریکی اور ثالث ریاستوں (مصر، قطر، ترکی) کی زبانی یقین دہانیوں پر انحصار کرنا ہے۔

حماس کے سینئر رکن موسی ابومرزوق نے کہا کہ نیتن یاہو کا بیانیہ صرف عوام کو دکھانے کے لیے ہے اور کہ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ فلسطینی عوام سے اسلۂ کو چھین لے، کیونکہ یہ ان کا قانونی حق ہے

بہت سے صہیونی تجزیہ کار بھی اِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ حماس کی مکمل شکست نہیں ہے، مثال کے طور پر، ریٹائرڈ جنرل اسحاق بریک نے کہا کہ اسرائیل حماس کو میدانِ جنگ میں شکست نہیں دے سکا، اور معاہدے نے اس کی ناکامی کی تصدیق کی ہے۔

معاہدے میں کچھ شقیں اسلحے کی واپسی اور غیر مسلح ہونے کی بات کرتی ہیں، مگر اُس کی تعریفیں، وقت کا فریم اور نگرانی کے میکانزم واضح نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے اسرائیل کو سیاسی اور فوجی راہِ عمل میں کافی لچک مل سکتی ہے کہ وہ معاہدہ شکنی کرے۔

مثال کے طور پر، اگر حماس معاہدے پر پورا نہ اتری، تو اسرائیل دوبارہ بمباری شروع کر سکتا ہے یا امداد کو محدود کر سکتا ہے۔ اگرچہ معاہدے کی شق 12 کہتی ہے کہ کسی کو غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا مگر اگر حالات انتہائی کٹھن ہوں تو لوگ فرار پر مجبور ہوں گے۔

مزید یہ کہ معاہدے کی شقیں 15 اور 16 کہتی ہیں کہ امریکہ اور دیگر بین الاقوامی شراکاء ایک عارضی بین الاقوامی فورس قائم کریں گے اور اسرائیلی فوج اس طے شدہ معیارات کے تحت پسپائی کرے گی۔ مگر یہ معیارات، سنگ میل اور زمانی فریم واضح نہیں ہیں، اور امکان ہے کہ نیتن یاہو حکومت کا ایک حصہ انہیں اپنے مفاد کے مطابق استعمال کرے۔

در حقیقت، اگلے روزوں اور مہینوں میں حکومت پاکستان کی کابینہ، خاص طور پر جنگ حامی وزراء، اس معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں — مثال کے طور پر وزیرِ داخلہ ایتامار بن گویر نے اس جنگ بندی کو ہٹلر سے تشبیہ دی تھی۔

اگرچہ جنگ بندی ممکنہ طور پر جنگ کو روکے گی، مگر کسی کو یقین نہیں کہ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ مرحلہ وار عملی ہو سکے گا۔
ایک بار قیدیوں کی رہائی کے بعد، حماس اپنی واحد بڑی ڈپلومیٹک رکنیت کھو دے گی، اور اگر اسلحہ واپس دیا جائے تو غزہ پھر سے اسرائیل کی مٹھی میں چلا جائے گا۔

یہ خوف کئی رہنماؤں نے کھل کر بیان کیا ہے،حماس کے ایک عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا کھیل ریورس بھی ہو سکتا ہے، اور اگر اسرائیل چاہے، وہ ایک بار پھر کارروائی شروع کر دے گا، جیسا کہ پچھلی جنگ بندی کے بعد ہوا۔

حماس کے دوسرے دو عہدیداروں نے بتایا کہ انہیں کوئی تحریری ضمانت نہیں ملی، اور وہ صرف زبانی یقین دہانیوں پر انحصار کرتے ہیں۔

یہ واضح کرتا ہے کہ حماس نے سب سے حساس فیصلہ یعنی اسلحے کے مستقبل پر شاخت گیری کی ہے، اور مسلسل محتاط انداز سے کام کر رہی ہے۔
موسی ابومرزوق کے مطابق، فلسطینی عوام کو حمایت واقعی چاہیے، نہ زبان کی تایٔید،انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کا بیان صرف داخلی استعمال کے لیے ہے، اور کوئی نہیں جرأت کرے گا کہ فلسطینیوں سے ان کا حقِ دفاع چھین لے۔

اس کے علاوہ، بہت سے صہیونی رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ بندی معاہدہ مکمل غیر مسلح ہونے کا باعث نہیں بنے گا۔ مثال کے طور پر، بریک کا کہنا ہے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے اور حماس کبھی مکمل طوف پر غیر مسلح نہیں ہو گی۔
یہی صورت حال لبنان میں حزب اللہ کے حوالے سے بھی دہرائی گئی تھی، جہاں معاہدے کے باوجود حزب اللہ نے اپنا اسلحہ برقرار رکھا،ایک اہم نقطہ حکومتِ غزہ کا مستقبل ہے۔

مزید پڑھیں:ٹرمپ کا غزہ منصوبہ ایک تباہی ہے:برطانوی اخبار

ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ کی انتظامیہ کو ایک غیر ملکی نگران کمیٹی سپرد کرنے کی تجویز تھی، لیکن حماس، جهاد اسلامی اور PFLP نے مشترکہ بیانیے میں اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے،انہوں نے اعلان کیا کہ غزہ کی حکمرانی اور اس کے ادارے فلسطینی خود طے کریں گے، بغیر کسی بیرونی قیمومت کے۔

چونکہ اس وقت حماس کے لیے اسلحے کے بغیر بقا ممکن نہیں، ان کی ترجیح دیگر فلسطینی گروہوں کے ساتھ شراکت پر منحصر ہے خصوصاً فتح اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تاکہ غزہ کی تعمیرنو اور حکمرانی کا اختیار فلسطینی ہاتھوں میں رہے۔

اس نقطہ نظر کو عوامی مقبولیت اور مزاحمتی قوتوں کا عوام میں اثر تقویت دیتا ہے، اگر حماس توازن برقرار رکھے، تو غزہ کی مستقبل کی سیاست ان کے مضبوط موقف سے جڑی رہے گی۔

مشہور خبریں۔

مغرب اپنے مقاصد کے لیے اسلام اور عیسائیت کو بدل رہا ہے: میدویدیف

?️ 14 جون 2024سچ خبریں:روسی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ دیمتری میدویدیف نے ایک مضمون

اسماء اسد کی موت کی کہانی کیا ہے؟

?️ 5 جون 2024سچ خبریں: کچھ عرصہ قبل کچھ میڈیا نے شام کے صدر بشار الاسد

قومی مفاد میں آئینی ترمیم پراتحاد ضروری ہے:محمود قریشی

?️ 19 جنوری 2022اسلام آباد (سچ خبریں) حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء وزیرخارجہ

فیض آباد دھرنا کمیشن کو شہباز شریف کا دیا گیا بیان سامنے آگیا

?️ 19 اپریل 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) فیض آباد دھرنا کمیشن کواس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز

عراقی قبائل کا سعودی سرمایہ کاری کے خلاف مظاہرہ

?️ 27 مارچ 2022سچ خبریں:عراق کے صوبہ المثنی میں اس ملک کے قبائل نے السماوا

خطہ میں امریکی موجودگی کی وجہ،سینٹکام کمانڈر کی زبانی

?️ 24 مئی 2021سچ خبریں:سینٹکام دہشت گردوں کے کمانڈر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب

طالبان نے کابل ایئرپورٹ کا انتظام متحدہ عرب امارات کے حوالے کیا

?️ 8 جولائی 2022سچ خبریں:   باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے وِدرز نے اطلاع دی

آل سعود کی سعودی جیلوں کی خوفناک صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش

?️ 7 جنوری 2023سچ خبریں:ایک سعودی سماجی کارکن نے آل سعود کی طرف سے سعودی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے