(سچ خبریں) روس اور امریکا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طر ف دھکیل رہی ہے، 1952ء کے بعد پہلی مرتبہ امریکا روس کشیدگی کی وجہ دونوں ممالک درمیان عملی طور پر سفارتی تعلقات میں جمود طاری ہوگیا ہے اور دونوں ممالک کے سفیر ایک دوسرے ملک میں موجود نہیں ہیں۔
امریکا میں روس کے سفیر اپنے سفارت کاروں کے نکالے جانے پر احتجاجاً روس واپس آگئے اور اس کے بعد امریکا کے سفیر واپس امریکا چلے گئے۔ کہا یہی جارہا ہے کہ یہ عارضی ہے، حقیقت یہی ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات عارضی طور پر ختم ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا کا کہنا ہے کہ روس یوکرین میں بڑھتی ہوئی فوجی طاقت میں کمی کرے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ روسی دستے یوکرین میں مداخلت کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے پیمانے پر مداخلت کا امکان کم ہے۔ دراندازی روس کا آزمایا ہوا اور پرانا طریقہ ہے۔
روس کے خصوصی دستے 2014 میں بھی کریمیا پر قابض ہوئے تھے۔ ان میں نقاب پوش فوجی شامل تھے جنہوں نے سبز رنگ کے یونیفارم پہن رکھے تھے، اسی لیے انہیں لٹل گرین مین بھی کہا جاتا ہے۔ برطانوی تھنک ٹینک دا ہنری جیکسن سوسائٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قطب شمالی میں روس نے فوجی تربیت اور مشقوں میں اضافہ کیا ہے، نئی بریگیڈز بنائی ہیں اور قدرتی وسائل کا استحصال کر رہا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ماسکو نئے برف توڑ بحری جہاز بنا رہا ہے، سوویت دور کے فوجی اڈے دوبارہ کھول دیے گئے ہیں اور قطب شمالی میں میزائل وارننگ نظام بھی نصب کر دیا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں اور غیر جانبدار ذرائع بتانے ہیں کہ یہ جنگ بہت قریب ہے، متنازع علاقوں میں فورسز کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی ہیں، لیکن روس نے دسمبر 2019ء کو بین البراعظمی ہائپر سونک میزائل تیار کر لیا تھا، جو آواز کی رفتار سے بھی ستائیس گنا تیز رفتاری سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
صدر پیوٹن کی جانب سے اس میزائل کو لوڈ کرنے کا اعلان کیا ہے اس کے علاوہ روس نے مار چ 2018ء میں نئے ہائپر سونک میزائل کا بھی کامیاب تجربہ کیا تھا۔ روسی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں اس میزائل کو ایک لڑاکا طیارے سے لانچ ہوتے دکھایا گیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر ناٹو کی فضاؤں میں بین البراعظمی ہائپر سونک روسی میزائل سے لیس لڑاکا طیاروں کی پرواز بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ نہ تو کوئی باقاعدہ جنگ ہے اور نہ ہی سرد جنگ۔ لیکن روس کی تیاری بہت زیادہ نظر آرہی ہے روس جی آر یو اسپیشل فورسز، سائبر وار فیئر اور پروپیگنڈا استعمال کرتا ہے جسے ہائبرڈ وار فیئر بھی کہتے ہیں۔
گزشتہ سال امریکی کانگریس میں پیش ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں جی آر یو کے کردار کو تفصیلی طور پر پیش کیا گیا تھا۔ امریکا بھی اسی پیمانے کے جنگی تیاری بہت پہلے مکمل کر چکا ہے۔
روس دوبارہ یوکرین کو دھمکی کیوں دے رہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان تعلقات میں متعدد عوامل تناؤ میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے فروری میں صدر پیوٹن کے دوست اور یوکرین کی طاقتور کاروباری شخصیت وکٹر میدویڈچک پر پابندیاں عائد کیں۔ یوکرین نے روس کی حمایت کرنے والے تین ٹی وی اسٹیشنوں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ 2015 کے امن معاہدے میں کئی شرائط پر عملدرآمد ابھی باقی ہے۔ مثلاً علیحدگی پسندوں کے علاقے میں تاحال آزادانہ انتخابات کی نگرانی کے لیے انتظامات نہیں کیے جا سکے ہیں۔ کچھ افواہیں یہ بھی ہیں کہ صدر پیوٹن امریکا کے صدر جو بائیڈن کو آزمانا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو ٹرمپ کے مقابلے میں روس سے متعلق سخت موقف اختیار کیا ہے۔
صدر جو بائیڈن پیوٹن کے خلاف جیل میں قید اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کے حق میں بیان دے کر اس جنگ کو بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یوکرین ناٹو اتحاد کا رکن نہیں مگر ناٹو کے یوکرین سے قریبی تعلقات ہیں، اور انہیں تعلقات کی وجہ سے یوکرین کو مغربی ہتھیار دیے گئے ہیں جن میں امریکی جیولن انٹی ٹینک میزائل بھی شامل ہیں۔ جس کے جواب میں روس نے ایک ہفتے قبل ہائبرڈ وار ٹینک کا تجربہ کیا اور اس کو میدانِ جنگ میں بھی اُتار دیا گیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے ناٹو پر زور دیا ہے کہ یوکرین کو اس اتحاد کا رکن بنایا جائے۔ لیکن لڑائی جاری ہونے کی وجہ سے ناٹو کے لیے فی الحال یہ ایک مشکل کام ہے کہ یوکرین کو اس 30 ملکی اتحاد میں شامل کیا جائے۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل ینز اسٹولنبرگ نے عالمی میڈیا سے کہا ہے کہ ناٹو یوکرین کی فوج کی تربیت اور مشترکہ فوجی مشقوں سے مدد کر رہا ہے۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی جانب سے ایک سرکاری ویب سائٹ پر جاری کردہ حکم نامے کے مطابق روسی مسلح افواج کی تعداد بڑھا کر 19 لاکھ کر دی جائے گی۔ جاری کردہ دستاویز کے مطابق یکم جولائی 2017 سے روسی مسلح افواج کی تعداد 19 لاکھ تین ہزار 51 ہو گئی تھی اُدھر دوسری جانب ناٹونے روس کی سرحدوں کے قریب 40ہزار فوج، اور 15ہزار ہتھیار اور فوجی سامان بحیرہ اسود اور بالٹک علاقوں میں پہنچا دیا ہے جن میں اسٹرٹیجک طیارے بھی شامل ہیں۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ روس امریکا کشیدگی تیسری عالمی جنگ کی تیاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں امن اور جمہوریت کی پکار کرنے والوں کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا جنگ و جدل کا میدان بنی رہی اور عالمی اقوام کا یہ پلیٹ فارم خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا۔ ویت نام کی خوفناک جنگ، پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی تین جنگیں، چین اور بھارت کی جنگ، ایران عراق جنگ، گلف وار سمیت مختلف جنگوں میں اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہا اور اس کی اسی کمزوری کے باعث اب دنیا جنگ و جدل کا کھلا میدان بن چکی ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقتور کمزور کو زیر نگیں کرنے میں مصروف ہے۔ فلسطین، افغانستان، عراق، لیبیا، شام، برما (روہنگیائی مسلمان) اور یمن میں انسانی خون اتنا کم قیمت ہوگیا ہے کہ ان کے لیے کوئی دو آنسو بہانے کو بھی تیار نہیں۔ ناانصافیوں، ظلم اور اپنی طاقت منوانے کی بے لگام خواہشات نے دنیا میں جنگ کا ایندھن پھر سے گرم کردیا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، آخر کوئی کب تک اور کتنا ظلم سہے گا؟ امریکا کب تک اپنی عالمی بالادستی قائم رکھے سکے گا؟ چین، روس، پاکستان، ترکی اور ایران جیسے ممالک پر مشتمل بلاک جلد امریکا کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عالمی جنگوں نے سپر پاورز کی حیثیت کو تبدیل کیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم اس کی واضح مثال ہے۔ وہ برطانیہ جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور پوری دنیا میں اس کی کالونیاں تھیں، وہ خود بتدریج امریکی کالونی کی شکل اختیار کرگیا۔
ان تمام معروضی حالات میں امریکا کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ وہ دنیا کو ایک اور جنگ کی طرف نہ دھکیلے وگرنہ طاقت کا توازن اس کے ہاتھ سے نکل کر کہیں اور جاسکتا ہے اور یقینا امریکا کے باشعور عوام مستقبل میں کسی کی کالونی بننا پسند نہیں کریں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کو اپنے تسلط میں رکھنے والا ملک خود کسی اور کے تسلط میں آجائے۔