سچ خبریں: مشرق وسطیٰ کے ایک سینئر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ یمنی فوجی طاقت، جو کہ ایک سالہ طوفان الاقصی جنگ کی خاصیت بن چکی ہے، عوامی حمایت اور صنعاء میں موجود حکومت کی پشت پناہی سے مضبوط ہے۔
یمنی عوام فلسطین اور فلسطینیوں کے دفاع کی طویل تاریخ رکھتے ہیں اور مزاحمتی محور کے اہم ستونوں میں شامل ہیں، جب مزاحمتی گروہ اقوام متحدہ، مغربی دنیا اور عرب حکومتوں کی خاموشی کے باعث صیہونی حکومت کی فلسطینی قوم کے خلاف نسل کشی اور غزہ میں جنگ کو روکنے میں ناکام رہے تو انہوں نے خود غزہ کے عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر اسرائیل کے خلاف براہِ راست حملے شروع کر دیے۔
یہ بھی پڑھیں: یمنی میزائل کیسے تل ابیب پہنچا؟صیہونی میڈیا کا اعتراف
یمنی فوج نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے، جب صیہونی حکومت نے غزہ پر نسل کشی کی جنگ مسلط کی، یہ عہد کیا کہ وہ اس جنگ کے خاتمے تک صیہونی حکومت کے بحری جہازوں اور بحری سرزمینوں کو سرخ اور عرب سمندر میں نشانہ بنائیں گے، یمنی فوج کا مقصد ان حملوں کے ذریعے اسرائیل کی معاشی لاگت میں اضافہ اور مقبوضہ علاقوں کے اندر جنگ کے خلاف عدم اطمینان کو بڑھانا تھا۔
یمنی فوج کی جانب سے یافا کے مقبوضہ علاقے کو ڈرون حملے کے ذریعے نشانہ بنانا فلسطین کے دفاع میں ایک اور قدم تھا، اتوار کی صبح 25 ستمبر کو، یمنیوں نے ایک اور بہادرانہ کارروائی کی، جب انہوں نے فلسطینی قوم کے دفاع اور غزہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ تل ابیب شہر پر ہائپرسونک بیلسٹک میزائل داغا۔
عبدالملک بدرالدین الحوثی کے مطابق، یہ میزائل جدید ٹیکنالوجی کے حامل تھے اور اسرائیل کی دفاعی نظام نے انہیں روکنے کے لیے 20 میزائل داغے جو ناکام ثابت ہوئے۔
یمن کے میزائل حملے کے نتائج اور مقبوضہ علاقوں کی گہرائی تک حملے کے بعد اسرائیل کو پہنچنے والے اقتصادی نقصانات کے پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے ہم نے مشرق وسطیٰ کے سینئر تجزیہ کار، سید رضی عمادی سے بات کی۔
نامہ نگار: جناب سید رضی عمادی! یمن سے جو میزائل مقبوضہ تل ابیب کی طرف داغا گیا، اس کی خصوصیات کیا تھیں اور انصار اللہ کس طرح اس سطح کی عسکری طاقت تک پہنچی؟
تجزیہ کار: 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی تقریباً ایک سالہ جنگ میں، جب صیہونی حکومت نے فلسطینی قوم کے خلاف جارحانہ کارروائی کی، یمن فوج واحد عرب ملک تھا جسں نے براہ راست غزہ کے عوام کی عسکری حمایت کی، انصاراللہ کے رہنما عبدالملک بدرالدین حوثی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے خلاف 700 سے زیادہ میزائل حملے کیےلیکن وہ ہمارے ان حملوں اور کارروائیوں کو نہیں روک سکے جو ہم نے صیہونی حکومت کے بحری جہازوں اور مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے جہازوں کے خلاف کیے۔
امریکہ اور برطانیہ کے حملوں سے یمن کے محفوظ رہنے کا یہ مطلب ہے کہ یمنی عوام فلسطین کے کاز اور فلسطینیوں کی حمایت میں ایک مضبوط ارادہ رکھتے ہیں۔
حزب اللہ بھی 7 اکتوبر کے بعد غزہ کے عوام کے دفاع میں میدان میں اتری اور عسکری سطح پر دفاع کر رہی ہے لیکن حزب اللہ ایک مزاحمتی گروپ ہے، اسے لبنان کی قومی فوج نہیں کہا جا سکتا جبکہ یمن میں انصاراللہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں کی جانے والی کارروائیاں صنعاء میں قائم حکومت اور یمنی فوج کی جانب سے کی جا رہی ہیں۔
صیہونی حکومت کی فوجی طاقت کو امریکہ اور برطانیہ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن یمنی عوام نے نہ صرف امریکہ اور برطانیہ کے خلاف مزاحمت کی ہے بلکہ صیہونی حکومت کے خلاف بھی مزاحمت کی ہے، جسے اس جنگ کے دوران شدید نقصان اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس جعلی ریاست نے اس ایک سالہ جنگ میں کئی مشکلات جھیلی ہیں اور زخم کھائے ہیں۔
یمنی فوج کا تل ابیب میں میزائل حملہ بے مثال اور بے نظیر کارنامہ تھا، یمن نے پہلے ڈرون حملے کیے تھے، لیکن میزائل حملے کا یہ پہلا واقعہ تھا، یہ میزائل ایک فراصوت ہائپرسونک بیلسٹک میزائل تھا، جس نے 2040 کلومیٹر کا فاصلہ صرف 11 منٹ اور 30 سیکنڈ میں طے کیا اور اپنے ہدف تک پہنچا۔ یہ میزائل ریڈار سے بچ نکلنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اور نہ صیہونی دفاعی نظام بلکہ امریکہ اور برطانیہ کے بحری دفاعی نظام بھی اسے روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
یہ میزائل تل ابیب کے قریب گرا، اگرچہ اس کی نشانہ بندی میں شاید معمولی سی کمی رہی ہو کیونکہ یہ ایک سیمنٹ فیکٹری کے قریب گرا اور فیکٹری کو براہِ راست نشانہ نہیں بنا سکا لیکن اس کے باوجود اس حملے میں 9 صیہونی زخمی ہوئے۔
اس میزائل کی خصوصیات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یمنی فوجی صلاحیت اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اس قسم کا حملہ کرنے کے قابل ہیں، اگر اس کا موازنہ کریں 2015 کے حالات سے کریں تو معلوم ہوگا کہ جب سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا اس کے بعد یمن کی فوجی صلاحیتیں ایک تقریباً 9 سالہ غیر متوازن جنگ کے دوران پروان چڑھی ہیں اور اب وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے پاس ایسے ڈرون ہیں جو مقبوضہ علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں نیزہائپرسونک ریڈار گریز میزائل ہیں۔
یمنی مزاحمت غزہ کی جنگ کے دوران ایک اہم عنصر کے طور پر ابھری ہے، انہوں نے براہِ راست جنگ میں شرکت کی، اپنی مرضی اور قوت کا مظاہرہ کیا اور کسی ڈر اور خوف کا مظاہرہ نہیں کیا، انہوں نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ وہ خود 9 سال سے جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، بارہا یمن نے عرب ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ فلسطینی قوم کے دفاع میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہے اور نہ ہی اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں۔
یمنی مزاحمت اس جنگ میں ایک منفرد کردار ادا کر رہی ہےاور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اس کی خصوصیات اور اقدامات مزید نمایاں ہو رہے ہیں۔
نامہ نگار: یمنی فوج کی اس کارروائی کا صیہونی حکومت اور مزاحمتی محور کے لیے کیا پیغام ہے؟
تجزیہ کار: یمنی فوج کی کارروائیاں یمن کے عوام کی وسیع حمایت کے ساتھ ہوتی ہیں، حالیہ دنوں میں رسولِ اکرمؐ کی ولادت کے جشن کے موقع پر یمن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی، یمن کے عوام حیرت انگیز طور پر مزاحمت کے ساتھ کھڑے ہیں باوجود اس کے کہ وہ 9 سال سے جنگ کا شکار ہیں، پھر بھی وہ اپنی فوج کی جانب سے فلسطین کے دفاع میں کی جانے والی کارروائیوں کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں، یمن کی فوجی طاقت عوامی حمایت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جو صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے ۔
یمنی فوج کے میزائل حملے نے صیہونی حکومت کو یہ پیغام دیا کہ وہ اندرونی طور پر کس قدر کمزور ہے، صرف ایک میزائل فائر کیا گیا، تو 20 لاکھ صیہونی باشندے پناہ گاہوں میں چلے گئے، مقبوضہ علاقوں میں خوف، عدم تحفظ اور بدامنی کی ایک بڑی لہر دوڑ گئی جو ظاہر کرتی ہے کہ صیہونی حکومت انتہائی خطرات کی زد میں ہے، اگر یہ کارروائیاں جاری رہیں تو نتن یاہو کی کمزور حکومت پر دباؤ بڑھے گا، دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ صیہونی ریاست کے اندر بے مثال احتجاجات ہو رہے ہیں، جن میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
صیہونی حکومت نے مزاحمت کے محور پر جو دباؤ ڈالا ہے — فلسطین میں جہاد اسلامی اور حماس پر، لبنان میں حزب اللہ پر، عراق میں عراقی گروپوں پر، شام میں شامی گروپوں پر اور یمن میں انصار اللہ پر — اس سے یہ محور کمزور نہیں ہوا بلکہ اور مضبوط اور متحد ہوا ہے۔ حزب اللہ، انصار اللہ اور الحشد الشعبی جہاد اسلامی اور حماس کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں، اس اتحاد نے مزاحمت کے محور کی طاقت اور انسجام کو مزید نمایاں کیا ہے۔
یہ جنگ نہ صرف اس محور کو کمزور کرنے میں ناکام رہی، بلکہ اس نے انہیں ایک حقیقت پسندانہ فہم دیا ہے کہ انہیں اپنی فوجی صلاحیتوں، خود اعتمادی اور خود دفاعی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانا ہوگا، کسی اور کی مدد کا انتظار کرنے کے بجائے، انہیں خود اپنے دفاع کے لیے تیار ہونا ہوگا، یمنی عوام کے اس اقدام نے ثابت کیا کہ وہ اسی سمت میں بڑھ رہے ہیں، اور یہ صیہونی حکومت کے لیے ایک سنگین خطرہ اور مزاحمتی محور کے لیے ایک طاقتور پیغام ہے۔
نامہ نگار: عبرانی ذرائع ابلاغ نے اعتراف کیا کہ یمنی میزائل حملے نے پورے اسرائیل کو چونکا دیا، صیہونی دفاعی نظام نے یمن سے داغے گئے میزائل کو روکنے کے لیے 20 میزائل داغے، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اگر ہم اس یمنی حملے کا موازنہ ان کے پچھلے حملوں سے کریں تو اہم فرق کیا ہے؟
تجزیہ کار: عبرانی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے پر بڑے پیمانے پر ردعمل ظاہر کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ آئرن ڈوم نظام ناکام ہوا اور 20 میزائلوں کے باوجود یمنی میزائل کو نشانہ نہیں بنایا جا سکا۔
اس کارروائی کی پہلی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ماضی میں یمنی حملے جغرافیائی لحاظ سے قریبی مقامات پر ہوتے تھے، جیسے کہ صیہونی بحری جہازوں یا ان جہازوں پر جو مقبوضہ علاقوں کی طرف جا رہے تھے۔ لیکن اس حملے کا فاصلہ 2,040 کلومیٹر تھا، جو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔
اسرائیل نے اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لیے میڈیا میں دعویٰ کیا کہ یہ میزائل ایران نے یمن کو فراہم کیا تھا، اسرائیلی میڈیا کا کہنا تھا کہ یمنی میزائل دراصل ایران کی طرف سے دیا گیا تھا اور یمنیوں نے اسے داغا۔ یہ بیانات اسرائیل کی اس رسوائی کو کم کرنے کی کوشش ہیں۔
دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ آئرن ڈوم سسٹم اس میزائل کو روکنے میں ناکام رہا، اگرچہ میرا ماننا ہے کہ یہ میزائل اپنے ہدف پر بالکل درست نہیں لگا، لیکن مستقبل کی کارروائیاں زیادہ درست اور نشانہ شکن ہوں گی، جس سے یقینی طور پر مطلوبہ نقصان پہنچے گا۔
صیہونی حکومت کا یہ گمان تھا کہ یمنیوں کے پاس صرف ڈرونز ہیں، لیکن اس میزائل حملے نے ثابت کر دیا کہ یمنی نہ صرف ڈرون بلکہ ہائپرسونک میزائل جیسی جدید ٹیکنالوجی بھی رکھتے ہیں، جو اسرائیل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
نامہ نگار: یمن کی فوج اور انصاراللہ تحریک نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں مسلسل صیہونی بحری جہازوں اور مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے دیگر بحری جہازوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔ ان حملوں نے اسرائیلی معیشت پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حملوں سے اسرائیل کو کیا اقتصادی نقصان پہنچا ہے؟
تجزیہ کار: میرا خیال ہے کہ یمنی ان حملوں میں بہت ہوشیاری سے کام کر رہے ہیں، ان کے حملے بے مقصد نہیں، بلکہ وہ مکمل طور پر منصوبہ بندی شدہ اور ہدف پر مبنی ہیں، انصاراللہ نے اسرائیلی معیشت کو نشانہ بنایا ہے اور ان کے اقدامات صیہونی حکومت کو روزانہ اقتصادی نقصانات سے دوچار کر رہے ہیں، وہ بحری جہاز جو مقبوضہ علاقوں کی طرف جاتے ہیں، زیادہ تر تجارتی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں، وہ اشیاء درآمد اور برآمد کر رہے ہیں۔
اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ انصاراللہ کے محاصرے کی وجہ سے اسرائیل کو روزانہ 10 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے، اس کے علاوہ، بحری جہازوں کو افریقہ کے گرد چکر لگانا پڑ رہا ہے، جس سے اسرائیل کے ساتھ تجارت غیر منافع بخش بن گئی ہے۔
یمنیوں کی بحیرہ احمر میں کارروائیوں نے حیفا کی بندرگاہ کے اسٹریٹیجک مینجمنٹ کو درہم برہم کر دیا ہے، اور بحری جہازوں کو اس بندرگاہ تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک جہاز جسے پہلے ایک ہفتہ لگتا تھا، اب تین ہفتے کا وقت لے رہا ہے۔ اس کے علاوہ، ایلات کی بندرگاہ، جو اسرائیل کی مشرق کے ساتھ واحد رابطہ بندرگاہ ہے، کی شپنگ آمدنی میں بھی 85 فیصد کمی آئی ہے۔
نامہ نگار:یمن کے میزائل حملوں نے صیہونی حکومت کو اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر بحرانوں سے دوچار کر دیا ہے، اور تل ابیب کا مستقبل شدید خطرات میں ہے، اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر صیہونی حکومت کو کن بحرانوں کا سامنا ہے؟
تجزیہ کار: بین الاقوامی سطح پر صیہونیوں کو مندرجہ ذیل بحرانوں کا سامنا ہے:
1. صیہونی حکومت کی اصل حقیقت عیاں
یہ سب سے بڑا بحران ہے جو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو درپیش ہے، 7 اکتوبر 2023 سے پہلے، عبری اور مغربی میڈیا اسرائیلی فوج کی ایک امن پسند شبیہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور یہ تاثر دے رہے تھے کہ اسرائیل امن کا حامی ہے جبکہ فلسطینی مزاحمت اس کی مخالف ہے، لیکن غزہ میں 7 اکتوبر سے جاری نسل کشی نے اس تصویر کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ اب، صیہونی حکومت کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ نہ صرف بچوں کا قاتل ہے بلکہ نسل کش بھی ہے۔
2. مغربی میڈیا کی سنسر شپ بے اثر ہو رہی ہے
اگرچہ عبری اور مغربی میڈیا ابھی بھی صیہونی حکومت کے مظالم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے کہ معصوم فلسطینیوں پر حملے، پناہ گزینوں کے حالات، دوا کی کمی، اور اسکولوں پر حملے، لیکن اس سنسر شپ کے باوجود صیہونی ریاست کی وحشیانہ کارروائیاں عوام کے سامنے عیاں ہو چکی ہیں۔ اب دنیا کے لوگ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے، اور مزاحمت کا محور بیانیہ جنگ میں غالب آ چکا ہے۔
3. اخلاقی اور انسانی اقدار کی تباہی
صیہونی حکومت کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف کیے جانے والے مظالم کو بین الاقوامی سطح پر نسل کشی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، جو مغربی حمایت یافتہ ہیں، بھی صیہونی حکومت کی نسل کشی پر خاموش نہیں رہ سکے۔ یہ عالمی سطح پر صیہونی ریاست کے لیے ایک بڑا بحران ہے، کیونکہ اس کے اخلاقی اور انسانی اصولوں کی مکمل تباہی دنیا کے سامنے ظاہر ہو رہی ہے۔
4. عالمی رائے عامہ کا اتحاد
آج دنیا بھر میں رائے عامہ صیہونی ریاست کے خلاف یکجا ہو چکی ہے۔ پہلے مظاہرے مخصوص ممالک میں ہوتے تھے، لیکن اب امریکہ، یورپ، اور برطانیہ میں صیہونی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے نہ صرف فلسطینیوں کی حمایت میں ہیں، بلکہ وہ اسرائیلی حکومت اور ان کے حامیوں، جیسے کہ امریکی حکومت، کے خلاف بھی ہو رہے ہیں۔ عوام اعلان کر رہے ہیں کہ وہ بائیڈن حکومت کی پالیسیوں کو قبول نہیں کرتے کیونکہ یہ پالیسیاں نسل کشی اور جنگی جرائم کی حمایت میں ہیں۔
5. فلسطینیوں کی مظلومیت کا عالمی سطح پر پیغام پہنچنا
آج فلسطینیوں کی مظلومیت کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکا ہے، عالمی برادری سمجھ چکی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کی زمینوں پر برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے قبضہ کیا ہےاور یہ قبضہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا ہے،سنچری ڈیل کے تحت فلسطین کو صرف 15 فیصد زمین دی گئی اور اب اسی زمین کا بھی ایک بڑا حصہ اس جنگ کے دوران چھینا جا رہا ہے۔
6. رائے عامہ کی عالمی طاقتوں کی مخالفت
دنیا بھر کی عوام مغربی طاقتوں، خاص طور پر اسرائیل کی حمایت اور انہیں ہتھیاروں کی فروخت کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی مخالفت کے باعث اسرائیل کو عالمی سطح پر سفارتی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔
خوش قسمتی سے، آج صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد عالمی اور وسیع پیمانے پر پھیلنے والی ایک تحریک بن چکی ہے، خاص طور پر مغربی ممالک میں۔
آج دنیا کے بہت کم ایسے ممالک ہیں جہاں صیہونی حکومت کے غاصبانہ جھنڈے کو نذر آتش نہیں کیا گیا ہو یا جہاں اس جعلی ریاست کے خلاف عوامی احتجاج اور مزاحمت نہ ہو رہی ہو۔ فلسطین کے لیے حالات اب بہتری کی طرف جا رہے ہیں، جبکہ صیہونی حکومت دنیا کی سب سے منفور ریاست بن چکی ہے۔
یمنیوں کا ڈرون حملہ، جس نے تل ابیب کو نشانہ بنایا، مغربی ایشیا اور عرب دنیا میں ایک نئے کردار کے ابھرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ نیا کردار وہ ہے جو صیہونی حکومت کے جرائم پر خاموش نہیں رہتا اور تل ابیب جیسے اہم مقامات کو براہِ راست نشانہ بناتا ہے۔ انصار اللہ یمن کے رہنما نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر غزہ پر حملے اور فلسطینی قوم کے خلاف نسل کشی جاری رہی تو دشمن کو مزید سنگین خطرات اور بے مثال مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں: وہ سپرسونک میزائل جس نے خطے کی مساوات کو بگاڑ دیا
یہ کارروائیاں نہ صرف یمنی عوام کی مزاحمت اور فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا مظہر ہیں، بلکہ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہیں کہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف مزاحمتی محور مضبوط اور متحد ہو رہا ہے۔