(سچ خبریں) پاکستان کو 20 سال بعد امریکا کے ساتھ تعلقات میں آزمائش کا سامنا ہے، 2001ء میں جب نائن الیون برپا ہوا تو اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی، انہوں نے میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، انہیں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے امریکی حمایت درکار تھی۔
چناں چہ جب امریکا نے نائن الیون کا الزام افغانستان میں مقیم اسامہ بن لادن پر لگاتے ہوئے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے پاکستان کی زمینی، فضائی اور بحری حدود استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی تو اس نے پاکستان کے فوجی حکمران سے پوچھا کہ کیا وہ اس کے ساتھ ہے یا اس کے دشمن کے ساتھ؟
اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے کسی توقف کے بغیر امریکا کو اپنی وفاداری کا یقین دلادیا، پھر اس نے امریکا کے تمام مطالبات بلاچوں و چرا تسلیم کرلیے اور امریکا کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنی سرزمین غیر مشروط طور پر استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ جنرل پرویز اس وقت پاکستان کا مختارِ کُل بنا ہوا تھا، وہ کسی منتخب ادارے یا قوم کو جوابدہ نہ تھا۔
امریکا کی غیر مشروط وفاداری سے اس کا واحد مفاد یہ تھا کہ امریکا پاکستان میں اس کے اقتدار کا محافظ بن جائے اور کوئی اس کی طرف اُنگلی اُٹھانے والا نہ ہو، چناں چہ وہ پاکستان کی خود مختاری کو امریکا کے پاس گروی رکھ کر بڑی حد تک اپنا یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
امریکا نے پاکستان کے فضائی اڈوں، زمینی راستوں اور بندرگاہ کو افغانستان کے خلاف نہایت بیدردی سے استعمال کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کو کم و بیش ایک سو ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا، جب کہ امریکا نے اس کے عوض کولیشن سپورٹ پروگرام کے تحت پاکستانی فوج کو سالانہ صرف ساڑھے 3 ارب ڈالر کی امداد دی اور اس کے بدلے میں پاک فوج کو اپنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف مہم میں کرایے کی فوج کے طور پر استعمال کرتا رہا۔
اب جب کہ امریکا افغانستان کو کھنڈر بنانے، لاکھوں افغانوں کی جان لینے اور اس مہم جوئی میں کھربوں ڈالر ڈبونے کے باوجود بے نیل ومرام واپس جارہا ہے اور افغان طالبان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت وہ افغانستان سے اپنا آخری فوجی بھی نکالنے کا پابند ہے تو اس بات کے لیے فکر مند ہے کہ وہ خطے میں اپنی موجودگی کیسے برقرار رکھے۔
اسے معلوم ہے کہ وہ افغانستان سے رخصت ہوگیا تو چین اس کی جگہ لے لے گا، چین جو اِس خطے کی سب سے بڑی طاقت اور عالمی سطح پر امریکا کے بعد دوسری بڑی قوت ہے، امریکا کے لیے سب سے اہم چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
امریکا نہیں چاہتا کہ وہ اس خطے سے بے دخل ہو کر اپنا وزن کھو بیٹھے، چناں چہ اس کی ساری توجہ پاکستان پر مرکوز ہے، پاکستان ہی وہ ملک ہے جس نے اسے افغانستان پر حملہ آور ہونے اور اسے 20 سال تک ادھیڑنے میں مدد دی تھی۔
امریکا نے پاکستان کی گردن پر پائوں رکھ کر اس سے اپنے تمام مطالبات منوائے تھے اور اپنی مرضی کے فوجی معاہدے کیے تھے۔ اُس وقت پاکستان فوجی آمریت کی گرفت میں تھا اور فوجی حکمران کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا لیکن جب فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد منتخب سول حکومتیں آئیں تو انہوں نے بھی پاک امریکا تعلقات کی نوعیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اس موضوع کو زیر بحث لایا گیا، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں میمو اسکینڈل منظر عام پر آیا، جس کا پس منظر یہ تھا کہ آصف زرداری امریکا کی مدد سے پاک فوج کے پر کترنا چاہتے تھے لیکن ناکام رہے اور فوجی قیادت نے بروقت کارروائی کرکے انہیں خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔
پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو اس نے بھی امریکا کے ساتھ تعلقات میں کوئی رخنہ اندازی نہ کی اور امریکا کے ساتھ تمام معاملات عسکری قیادت ہی طے کرتی رہی۔
اس وقت پاکستان میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی حکومت ہے جو افغان طالبان کے حامی اور امریکا کو پاکستان کی
جانب سے دی گئی اسٹرٹیجک سہولتوں کے شدید مخالف رہے ہیں۔ انہوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے بعد امریکی سپلائی روکنے میں بھی سرگرم کردار ادا کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب امریکا کو فوجی سہولتیں دینے کا مطالبہ اُٹھا اور امریکا کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے اسے فوجی سہولتیں دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان کے ہوتے ہوئے امریکا کو پاکستان میں کوئی فوجی اڈا نہیں دیا جاسکتا۔ دفتر خارجہ نے بھی کچھ اسی نوعیت کی گول مول سی وضاحت کی اور کہا کہ امریکا سے کوئی نیا فوجی معاہدہ نہیں کیا جارہا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا کے ساتھ جو پہلے سے فوجی معاہدے موجود ہیں اور جن کے تحت امریکا فوجی مقاصد کے لیے پاکستان کی سرزمین نہایت بے دردی سے استعمال کرتا رہا ہے کیا وہ اب بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جیسے پہلے تھے تو امریکا کو نئی سہولتوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت ہی کو امریکا کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں فیصلہ کن قوت کی حیثیت حاصل ہے اور اس کی طرف سے امریکا کو سہولتیں دینے کے معاملے میں کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔
پچھلے دنوں عمران خان نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا تو انہیں ایک تفصیلی بریفنگ میں بتایا گیا کہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کس مرحلے میں ہیں اور امریکا پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔ اس بریفنگ میں سول حکومت کا کردار ایک خاموش تماشائی سے زیادہ نہ تھا۔
عسکری قیادت ہی امریکا سے تمام معاملات طے کررہی ہے۔ ایک حالیہ خبر کے مطابق امریکا نے پاک فوج کے لیے متعدد مراعات کا اعلان کیا ہے جس میں پاکستانی فوجی افسروں کے لیے امریکا میں تربیتی پروگرام کی سہولت اور فوج کے لیے مالی گرانٹ بھی شامل ہے۔
ظاہر ہے کہ امریکا ان ترغیبات کے عوض اپنے لیے بھی سہولتوں کا خواہاں ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیے گئے معاہدوں کو بروئے کار لانا چاہتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں ایک خبر ایجنسی کو جو انٹرویو دیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افغانستان اور امریکا کے معاملے میں بھی اپنے سابقہ موقف سے یوٹرن لے چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ امریکا افغانستان سے رخصت ہونے کے بعد بھی خطے میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنا ان کے لیے آسان نہ ہوگا۔ دیکھا جائے تو افغانستان سے امریکا کے رخصت ہونے کے بعد وہاں جو کچھ بھی ہوگا اس میں پاکستان کی سول قیادت کے بجائے عسکری قیادت ہی کو اہمیت حاصل ہوگی اور وہی یہ طے کرے گی کہ اسے کیا کرنا ہے۔
یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ گزشتہ 20 سال کے دوران حالات بہت بدل چکے ہیں، امریکا نے 2001ء میں جب افغانستان میں قدم رکھا تو اس وقت چین کو اس خطے میں زیادہ اہمیت حاصل نہ تھی لیکن اب چین خطے کی سب سے بڑی طاقت بن چکا ہے, اس کا سی پیک کا منصوبہ عالمی اہمیت کا حامل ہے جس میں اس نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور پاکستان براہِ راست اس منصوبے سے وابستہ ہے، جبکہ امریکا اس منصوبے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔
اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھ پائے گی اور خطے میں دو بڑی طاقتوں کے درمیان مفادات کا ٹکرائو پاکستان کے لیے کسی آزمائش کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان دو کشتیوں کا مسافر نہیں بن سکتا، اسے بہرکیف امریکا اور چین میں سے کسی ایک کشتی کا انتخاب کرنا ہے اور یہ کشتی وہی ہوسکتی ہے جو گہرے پانیوں میں بھی اس کی حفاظت کرسکے۔
امریکا ایک عالمی طاقت ضرور ہے لیکن جنوبی ایشیا کے اس خطے میں اس کا کردار بتدریج کم ہورہا ہے اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ رہا چین کا معاملہ تو اس کے ساتھ تعلقات میں بھی پاکستان کو بہت دور اندیشی سے کام لینا چاہیے۔
کیا پاکستان کی عسکری قیادت ملک میں ایک مضبوط جمہوری نظام کے بغیر حالات کے تقاضوں پر پورا اُتر سکتی ہے؟