(سچ خبریں) 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور ٹھیک 7 سال 4 ماہ اور 20 دن کے بعد آزاد وطن پاکستان معرضِ وجود میں آگیا، یہ دنیا کی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقع تھا، کیونکہ انسانی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک قوم علٰیحدہ ملک لینے کا فیصلہ کرے اور پھر اتنے کم وقت میں کامیاب بھی ہو۔
یوم پاکستان کو منانے کے لیے ہر سال 23 مارچ کو خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پاکستان مسلح افواج پریڈ بھی کرتے ہیں، اس کے علاوہ مختلف ریاستی اثاثوں اور مختلف اشیاء کا نمائش کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ملک بھر سے لوگ فوجی پریڈ کو دیکھنے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔
اس سے پہلے علامہ اقبال نے 1930ء میں اپنے مشہورِ زمانہ خطبہ الہٰ آباد میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک نئی ریاست کا تصور پیش کیا، یہ مستقبل کے ہندوستان کا تصوراتی خاکہ تھا جو علامہ اقبال جیسے جید فلسفی نے کامل یقین کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا۔
اقبال کا یہ نظریہ اتنا پُر کشش تھا کہ ہندوستان کے مسلمان پورے یقین کے ساتھ نہ صرف اس کی طرف مائل ہوگئے بلکہ جب مسلم لیگ نے اس کو اپنا نصب العین بنا کر باقائدہ جدوجہد شروع کی تو مسلمانانِ ہند پوری قوت کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، ان لوگوں کو اپنے نظریے اور اپنے نصب العین پر اتنا یقین تھا جتنا ان کو سورج کے مشرق سے نکلنے پر تھا، یہ ان کا یقین ہی تھا جس کی بدولت اتنے کم وقت میں یہ معجزہ ممکن ہوا۔
اگر ہم اس معجزے کا جائزہ لیں تو ہمیں صرف ایک ہی چیز اس کے پیچھے نظر آتی ہے اور وہ تھی ہماری مضبوط قوتِ فیصلہ۔ جی ہاں یہ مسلمانانِ برصغیر کی زبردست قوتِ فیصلہ تھی جس کی بدولت پاکستان کا وجود ممکن ہوا، لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ہم لوگ اپنی اس متاع عزیز سے محروم ہوچکے ہیں۔
جی ہاں۔ ہم من حیثیت القوم قوت فیصلہ کی کمی کا شکار ہوچکے ہیں، پاکستان کا وجود ہی ہماری قوت فیصلہ کا عکاس ہے، یقین کریں اگر ہم کو اپنے مقصد پر ذرا سا بھی شک ہوتا یا ہم اپنی حکمت عملی اور اپنے نصب العین کے بارے میں ذرا سا بھی تذبذب کا شکار ہوتے تو ہم آج 23 مارچ کا دن نہ منا رہے ہوتے۔
آج دنیا میں پاکستان کوئی وجود نہ ہوتا اور ہماری داستان تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں، ہم ایک اقلیت کی زندگی جی رہے ہوتے اور دنیا بھرکے فلن تھراپسٹ ہماری اکثریت کو ہم پر ہاتھ ہولا رکھنے کا بھاشن دے رہے ہوتے، ہم کو بروقت اللہ اور ہماری قوت فیصلہ نے بچا لیا، لیکن مقصد حاصل کرنے کے بعد کیا ہوا۔ ہم دنیا میں سب سے زیادہ کنفیوز قوم بن گئے، اور دنیا کے کئی ممالک ہم سے ترقی کی دوڑ میں آگے بہت آگے نکل گئے۔
ہم لوگ کبھی ایک سسٹم کو پکڑتے ہیں اور ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں اس سے بیزار ہوکر دوسرے نظام کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، ہم 1947ء سے 1958ء تک جمہوریت، 1958ء سے 1971ء سے آمریت، 77-1971ء تک پھر جمہوریت، 88-1977ء تک پھر آمریت، 99-1988ء تک جمہوریت، 2008-1999ء تک آمریت اور پھر 2008ء سے جمہوریت کا آزما رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت ہے لیکن ہم آئے روز صدارتی نظام کی بازگشت سنتے ہیں، جب ایک حکومت معرضِ وجود میں آجاتی ہے تو اپوزیشن روزِ اول سے ہی پورے تن من دھن سے منتخب حکومت کو گرانے میں لگ جاتی ہے، اس کھینچا تانی میں حکومت پورے پانچ سال سمجھوتوں، معاہدوں اور کئی دوسرے طریقوں سے خود کو بچانے میں لگی رہتی ہے۔
ہماری قوت فیصلہ کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے نظامِ تعلیم کا تعین نہیں کرسکے، ہماری قومی زبان اردو ہو یا ہم انگلش میں اپنے فیصلے اور قانون سازی کریں کچھ پتا نہیں، طالبان ہمارے اثاثہ ہیں یا دہشت گرد ہم نہیں طے کر سکے۔
ہمارے صوبے چار رہیں یا تیرہ ہوں ہم اس کا فیصلہ نہیں کر پارہے، ہم کو سعودی عرب سے دوستی نبھانی ہے یا ایران جو ایک اچھا پڑوسی ہے اس کے ساتھ رابطہ رکھنا ہے ہماری وزارت ِ خارجہ کلیئر نہیں ہے۔
امریکا افغانستان میں غاصب ہے یا ہمارا تحادی، ہم اس بارے میں بھی ابہام کا شکار ہیں، ہماری مقتدرہ نگران وزیراعظم کے لیے چار ناموں پر اتفاق نہیں کرسکتی اور معاملہ الیکشن کمیشن میں چلا جاتا ہے، ہماری 36 کلیدی پوسٹیں خالی پڑی ہیں اور ہم کئی سال سے فیصلہ نہیں کر پارہے کہ کس کو ہیڈ لگانا ہے، ہمارے کئی ادارے ہماری کمزور قوت فیصلہ کی بھینٹ چڑھ کر زوال کا شکار ہوچکے ہیں۔
امریکی جہاز 40 منٹ تک ایبٹ آباد کی فضاؤں میں رہتے ہیں، اسامہ بن لادن کو ہلاک کرتے ہیں، نعش ساتھ لیجاتے ہیں اور ہم فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ہم کو کیا کرنا ہے۔
ہم آج تک اپنے بلدیاتی نظام کا فیصلہ بھی نہیں کرسکے، ہر فوجی حکمران اور ہر جمہوری حکومت اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام لاتی ہے، جو اس کے جانے کے ساتھ رخصت ہوجاتا ہے، ہمارا بلدیاتی نظام کیسا ہو ہم فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں، ملک میں ہرسال دو عیدیں منائی جاتی ہیں، مجھے یاد نہیں پڑتا ہم کبھی عید کے دن کا فیصلہ کر سکے ہوں۔
ہم ملک میں روشن خیالی چاہتے ہیں یا ہم کو طالبان جیسا رجعت پسند اسلام چاہیے، ہم کو شریعت چاہیے یا مغربی جمہوریت، ہم کو خلیفہ حکمران چاہیے یا فوجی، وزیراعظم ہو یا صدارتی نظام، ان سب بنیادی سوالات کے جواب میں ہم کنفیوز ہیں۔
ہماری یہ کنفیوژن ہم کو اس مقام پر لے آئی ہے کہ ہمارے دوست اور دشمن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہیں ملک میں کس سے بات کرنی ہے، کون حکومت وقت کا صحیح نمائندہ ہے، کس کے پاس اصل طاقت ہے، فیصلہ ساز کون ہے، خارجہ پالیسی کی سمت کس کو طے کرنی ہے، اور سی پیک کی چابی کس کے پاس ہے، سامنے کون ہے اور اس کے پیچھے کون کھڑا ہے، دھرنا کو ن دے رہا ہے اور مقصد کس کا حل ہورہا ہے، یقین کیجیے اس کیفیت نے قوم کو ذہنی مریض جیسا بنا دیا ہے۔
اگر ہم دنیا میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ہم کو گومگو کی کیفیت سے نکلنا ہوگا، ہم کو اپنی قوت فیصلہ کا وصف دوبارہ سے اجاگر کرنا ہوگا، ہم کو دنیا کو ایک بار پھر سے بتانا ہوگا کہ ہم جو کہہ دیں وہ کرچکتے ہیں، ہم ایک بار جو فیصلہ کرلیں پھر دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے فیصلہ واپس نہیں لیتے، صرف اسی صفت کے اجاگر کرنے سے نہ صرف ہم مزید تباہی سے بچ سکتے ہیں بلکہ بہت جلد ہم تاریخ کو دہرا کر ایک بار پھر معجزہ دیکھا سکتے ہیں، ایک بار صرف ایک بار ہم کو اپنی قوتِ فیصلہ کو واپس لانا ہوگا، آئیے اس 23 مارچ کو ہم قوت فیصلہ کے یوم تجدید کے طور پر منائیں۔