سچ خبریں:لبنانی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا کی جنگوں کا خاتمہ چاہتی ہے، اور اس مقصد کے لیے اسرائیل کو لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے 8 ہفتے کی مہلت دی گئی ہے۔
لبنانی اخبار الاخبار نے امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آئندہ حکومت کی خارجہ پالیسی پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے، جس میں ایران اور چین سے متعلق پالیسیوں کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ اور لبنان کی صورتحال کے بارے میں آئندہ امریکی حکومت کا رویہ کیا ہوگا؟
رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ کا ارادہ ہے کہ صیہونی ریاست کی بھرپور حمایت کی جائے جبکہ علاقائی جنگوں سے نمٹنے کے لیے مخصوص اقدامات کیے جائیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ منتخب صدر ٹرمپ شاید جنوبی ایشیا کی جنگوں کے دوران اپنی ذمہ داریوں کو مزید جاری نہیں رکھنا چاہتے، جس کے تحت انہوں نے صیہونی حکومت کو محدود طور پر جنگ بندی کا موقع فراہم کیا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اس بارے میں باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے رپورٹ دی ہے کہ ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی تیل کی فروخت پر سختی کے لیے تیار ہیں۔ ۔
صیہونی میڈیا نے ٹرمپ کی علاقائی جنگوں سے متعلق حکمت عملی پر تبصرہ کیا، جس میں یدیعوت احرونٹ نے ٹرمپ کے سینئر مشیر مائیک ایوانز کے حوالے سے کہا کہ ٹرمپ اسرائیل کو حتمی فیصلہ کرنے کے لیے مختصر وقت دیں گے تاکہ وہ جنگی صورتحال پر قابو پا سکے۔
ایوانز کے مطابق، ٹرمپ کی خواہش ہے کہ اگلے 8 ہفتوں میں جنگ ختم ہو اور اسرائیل کو جنوبی و شمالی محاذ پر قابو پانا ہو گا۔
یدیعوت احرونٹ نے یہ بھی لکھا کہ اگر اسرائیل جنگ بندی کا فیصلہ کرتا ہے تو بنیامین نیتن یاہو کو امریکی حکومت سے انعامات ملیں گے، جن میں عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی شامل ہے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہو سکتا ہے۔
فارین افیئرز میگزین نے چین پر ٹرمپ کی دباؤ پالیسی کا تجزیہ کیا، جس میں کہا گیا کہ امریکہ کو چین سے درآمدات پر انحصار کم کرنا چاہیے۔
پیش گوئی کی گئی ہے کہ ٹرمپ اپنی دوسری مدت میں چین سے درآمدی اشیاء پر 60 فیصد ٹیرف عائد کریں گے، جس سے دو بڑی اقتصادی طاقتیں مکمل علیحدگی کے قریب پہنچ جائیں گی۔
مزید پڑھیں: نیتن یاہو کی لبنان میں جنگ طول دینے کی سازش
ماہرین کا خیال ہے کہ اس اقدام سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ بڑھے گا اور امریکی گھریلو اخراجات کو سالانہ ہزاروں ڈالر تک بڑھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں امریکی برآمد کنندگان کے لیے چین کی بڑی صارف مارکیٹ تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔