(سچ خبریں) ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی نمایاں کامیابی نے اسکتباری اور استعماری منصوبوں اور سازشوں پر پانی پھیر دیا، استعمار نے مغرب زدہ میڈیا کے ذریعہ آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی شخصیت کشی کی ہر ممکن کوشش کی مگر ان کی کوئی بھی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوئی، ایرانی عوام نےکورونا کے وبائی عہد میں بھی اپنے حق رائے دہی کا بھر پور استعمال کیا اور کسی بھی پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوئے، ان کا یہی جذبۂ استقامت اور صبرو حوصلہ انہیں دوسری اقوام سے ممتاز کرتاہے۔
اس الیکشن میں ایرانی عوام نے یہ ثابت کردیا کہ استعمار کی زیادہ سے زیادہ دبائو کی پالیسی اور اقتصادی مشکلات انہیں نظریۂ انقلاب اسلامی سے بیزار نہیں کرسکتی۔
انہوں نے خارجی و داخلی مصائب و آلام کے باجود اپنے حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا اور استعماری چالوں کو شکست دی، یہ الیکشن اس لیے بھی اہمیت کا حامل رہا کہ ایران پر سہ طرفہ یلغار تھی، ایک طرف استعماری و استکباری طاقتیں ایرانی انتخابات کو متاثر کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہی تھیں۔
سیکڑوں سیٹلائٹ چینلوں کے ذریعہ آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے نظریات پر تنقید کی جارہی تھی، ایرانی فوج کے اقدامات اور فیصلوں کے خلاف پروگرام منتشر کیے جارہے تھے، ایران کی اعلیٰ قیادت کے فیصلوں کو عوام کے حق میں مضر ثابت کیا جارہا تھا۔
آیت اللہ رئیسی کو سخت گیر اور قدامت پسند رہنما بتلاکر ایرانی عوام کو ان سے بدظن کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، دوسرا گروہ منافقین پر مشتمل تھا جو انقلاب اسلامی کے حامی نہیں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی شاہ کی حکومت کو پسند کرتے ہیں اور امریکی بلاک کے نظریات کا شکار ہیں، تیسرا گروہ استعماری آلۂ کاروں پر مشتمل تھا جو انتخاب کو متاثر کرنے کے لیے مخفی طورپر سازشیں کررہا تھا، مگر یہ تینوں گروہ اپنے اہداف میں مکمل طورپر ناکام ہوئے اور ایرانی عوام کے عزم و حوصلے نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک بیدار قوم ہے جس نے انقلاب کی عظمت اور اہمیت کو بارآور کیاہے۔
عالمی میڈیا کے ذریعہ آیت اللہ رئیسی کو سخت گیر اور قدامت پسند رہنما مشہور کیا گیا، مغربی میڈیا ہر اس شخص کو سخت گیر اور قدامت پسند تسلیم کرتاہے جو اپنے مذہب اور عقیدے پر سختی کے ساتھ گامزن ہو۔
آیت اللہ رئیسی نے چیف جسٹس کے عہدے پر رہتے ہوئے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اہم اقدامات کیے اور بعض اہم بدعنوان شخصیات کے خلاف سخت فیصلے صادر کیے۔
انہوں نے ایران کے بعض علاقوں میں نظم و ضبط کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھائی اور ہر شعبے میں شفافیت کو رواج دینے کے لیے جدوجہد کی۔
انہوں نے عدلیہ کے شعبے میں انتظام و انصرام کی ذمہ داری سنبھالی تو قانون کی آڑ میں لاقانونیت کو رواج دینے والی متعدد شخصیات کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا، ایسے بدعنوان اور بلیک مارکیٹ کرنے والے افراد جنہیں سرکاری پشت پناہی حاصل تھی، ان کی گردنوں کو بلا خوف و تردد دبوچ لیا۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے کہنے پر ہزاروں قابل عفو قیدیوں کی سزائیں معاف کیں تاکہ وہ دوبارہ ایک بہتر زندگی کا آغاز کرسکیں، مختصر یہ کہ ان کی عدالت، قوت فیصلہ، بدعنوانیوں کے خلاف جدوجہد اور اہم شخصیات کے خلاف ان کے مؤقف نے انہیں مغربی میڈیا کی نظر میں سخت گیر ثابت کردیا، جبکہ مغربی میڈیا کو ان کے ایسے مؤثر اور مصلح اقدامات کو سراہنا چاہیے تھا مگر جس معاشرے میں بدعنوانی اور بدکاری کردار کا حصہ ہو، اس معاشرے سے آیت اللہ رئیسی کے اقدامات کو سراہنے کی توقع کرنا خلاف عقل ہے۔
مغربی میڈیا ہر اس شخص کو سخت گیر اور قدامت پسند ظاہر کرتاہے جو مغرب زدہ نظریات کا تابع نہ ہو، سر پر ٹوپی، عمامہ، عبا، قبا ،جبہ، دستار، کرتا پاجامہ اور ہاتھ میں تسبیح کا ہونا مغرب کی نظر میں سخت گیری اور قدامت پسندی کی علامتیں ہیں جبکہ ان کے سیاسی رہنما اپنے مذہب پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں لیکن انہیں سخت گیر اور قدامت پسند نہیں کہا جاتا۔
یہ اصطلاحیں فقط اسلامی معاشرے کے لیے رائج کی گئی ہیں تاکہ مسلم سماج کو مذہب پسند رہنمائوں سے باز رکھا جائے، مگر ایران میں مغرب کی یہ کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوسکیں اور ایرانی عوام نے یہ دکھا دیاکہ وہ دشمن کے تمام تر حربوں اور حیلوں سے واقف ہے اور انہیں ناکام بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔
ایرانی انتخابات کو متاثر کرنے کے لیے دشمن نے مختلف منصوبے تشکیل دیے تھے، اس نے ایک طرف ایرانی عوام کو داخلی مشکلات کی بنیاد پر الیکشن سے بدظن کرنے کی تیاری کی، سماجی اور معاشی مسائل کو زیادہ سے زیادہ ابھارا گیا اور ایک ایسا منظر نامہ تیار کیا گیا جس سے ایرانی عوام دوچار تھی۔
ایرانی عوام کو بہتر اقتصاد اور مہنگائی سے عاری بہتر زندگی کے سبز باغ دکھلائے گئے، جبکہ دشمن بہتر طور پر جانتا تھا کہ ایران میں موجود اقتصادی و معاشی مشکلات کی اصل وجہ اس کی عائد کردہ یک طرفہ پابندیاں ہیں، دشمن نے اصلاح پسند اور اصول پسند دونوں گروہوں کے خلاف محاذ آرائی کی تاکہ ایک نیا بلاک تیار کیا جاسکے۔
عوام کو نظام ولایت فقیہ سے بدظن کرنے کی پلاننگ کی گئی تاکہ اگر الیکشن ان کی مرضی کے مطابق انجام پذیر نہیں ہوا تو وہ نظام ولایت فقیہ کو زیر سوال لا سکیں، اس کا نقصان یہ ہوتاکہ عوام سپریم لیڈر کے خلاف سڑکوں پر اتر آتی اور ان کے انتخاب پر سوال کھڑے کرتی، اس طرح نئے سپریم لیڈر کے لیے مطالبہ کیا جاتا جس کے بعد استعمار مزید متحرک ہوجاتا اور ایران کے داخلی نظام کی بنیادوں پر حملہ کردیتا۔
مختصر یہ کہ جب دشمن کا ہر حربہ ناکام ثابت ہوا تو اس نے یہ پروپیگنڈہ شروع کردیاکہ ایرانی عوام نے الیکشن کا بائیکاٹ کیاہے، جبکہ کورونا کے وبائی عہد میں بھی 59,310,307 ووٹروں میں سے 28,933,004 افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا، ایسا نہیں ہے کہ ایران میں پہلی بار ووٹنگ کا فیصد کم رہاہے بلکہ 1993 میں بھی بہت کم لوگوں نے انتخابات میں حصہ لیا تھا جبکہ اس وقت دنیا وبائی امراض کی زد میں نہیں تھی۔
میڈیا رپوٹس کے مطابق ایران میں 30 لاکھ 80 ہزار افرادکورونا کا شکار ہوئے جن میں سے 82 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان گئی، اس کے باوجود ڈھائی کروڑ سے زیادہ افراد کا الیکشن میں حق رائے دہی کااستعمال کرنا مغربی میڈیا کے لیے تسلی بخش نہیں رہا ،یہ خود بڑا سوال ہے۔
بہرحال، دشمن کے ہزاروں پروپیگنڈوں اور سازشوں کے باوجود ایران میں کامیابی کے ساتھ الیکشن ہوا، ایرانی عوام نے استعمار کے تمام تر حیلوں کو مسترد کرتے ہوئے آیت اللہ رئیسی کو اپنا نیا صدر منتخب کردیا، مغربی دنیا کو ایرانی عوام کے جمہوری حق رائے دہی کے نتائج کا احترام کرنا چاہیے۔
آخر کب تک وہ یمن، شام، عراق اور افغانستان کی طرح ایران کو برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہیں گے، انہیں ہر محاذ پر شکست کا سامناہے اس کے باوجود کسی ملک کے جمہوری حقوق کا احترام نہ کرنا، دنیا کو عالمی جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
ہم امید کرتے ہیں امریکہ ایرانی عوام کے جمہوری حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے بلا شرط مذاکرات کو ترجیح دے گا، جو بائیڈین سے دنیا کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، اپنی شکست مسلسل سے بچنے کے لیے امریکہ کو مذاکرات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔