سچ خبریں:اگر خطے کے ممالک شام میں مستقر دہشت گردوں کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی نہیں کرتے، تو عدم استحکام اور بے چینی ایک وبا کی طرح پورے خطے میں پھیل سکتی ہے۔
لبنان میں جنگ بندی کے مذاکرات اور امریکہ و فرانس کے صدور کی جانب سے اس اعلان پر تمام تر توجہ مرکوز تھی، اس دوران شام میں دہشت گرد اسرائیل کی حمایت سے دوبارہ امت مسلمہ میں اختلافات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں ،انہوں نے شام کے اقتصادی مرکز حلب پر حملہ کر دیا ۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر روسی حملہ
یہ حملہ بغیر کسی مزاحمت کے جاری ہے اور حلب کے گردو نواح جیسے حماہ، نبل اور الزہرا تک پھیل رہا ہے، تاہم، پچھلے 24 گھنٹوں میں، شامی فوج اور اس کے اتحادی ایران، روس اور مزاحمتی گروپوں نے تحریر الشام کی دفاعی پوزیشنوں کو شدید نقصان پہنچایا۔
اگر ان اطلاعات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اس وقت مزاحمت کا سب سے بڑا شکار تحریر الشام کے رہنما ابومحمد الجولانی اور اس کے ماتحت دہشت گرد ہیں۔
کئی تجزیہ کار شمال اور شمال مغربی شام میں پیدا ہونے والی تازہ ترین صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کا خدشہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر داخلی جنگ کی تلخ یادیں زندہ ہو سکتی ہیں اور اس عرب ملک کا باقی ماندہ انفراسٹرکچر دہشت گردی کے ہاتھوں قربانی بن سکتا ہے۔
اس کالم میں ہم سلفی-تکفیری دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کی ضرورت اور مزاحمتی محور کے ہر رکن کی ذمہ داریوں کا جائزہ لیں گے۔
شام کے فتنے کو خاموش کرنا، مزاحمتی محور کا فرض
جہاں دنیا بھر کی نظریں غزہ اور لبنان میں اسرائیلی حکومت کی دہشت گردی پر ہیں، وہاں شام میں مقیم دہشت گرد اسرائیل کی حمایت سے نفاق کا پرچم بلند کر رہے ہیں اور سرزمین فلسطین پر ایک گولی بھی چلائے بغیر، لبنان اور مغربی کنارے میں مزاحمت کی مسلح کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دہشت گردوں کی یہ کوششیں، جیسے کہ ٹی-5 سڑک پر قابو پانے کی کوشش یا عراق-شام سرحد کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش، اسرائیلی حکومت اور تحریر الشام کے درمیان ہم آہنگی کو ظاہر کرتی ہیں۔
اس دوران اسرائیلی فضائیہ مزاحمتی یونٹوں، ہتھیاروں کے ذخیرے اور مواصلاتی راستوں کو بمباری کر کے لبنان میں ہتھیاروں کی منتقلی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے، دہشت گرد صیہونی پیادہ فوج کے طور پر مزاحمت کے ساتھ براہ راست لڑنے کے لئے میدان میں آ رہے ہیں۔
فتح المبین کے حملے کی حقیقت
فتح المبین اتحاد کے حملے کے دوران، دہشت گردوں نے حلب میں ایرانی قونصلیٹ پر غیر قانونی قبضے کے علاوہ، شام کے کفربل اور خان شیخان میں ایرانی مشاورتی اڈوں پر بھی حملہ کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی موساد نے شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی برسوں میں دہشت گردوں کے کمانڈروں میں دراندازی کرکے ایران اور مزاحمتی محور کو اسلام کے دشمن کے طور پر متعارف کرایا۔
حالیہ دنوں میں ادلب میں مقیم دہشت گردوں کی سرگرمیاں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مزاحمتی محور نے ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو کچل دیا ہے۔
کیا یوکرین میں کامیابی کے لیے شام میں کامیاب ہونا ضروری ہے؟
کریملن حکام حکومتی نیاوراسیائی حکمت عملی کے تحت، شام کی جغرافیائی سیاسی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں، سابقہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ابتدائی برسوں میں، شمالی اوقیانوس کے معاہدے (نیٹو) نے امریکہ کی قیادت میں روس کے قریبی بیرونی علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
یوکرین کی جنگ اور جارجیا میں جاری بدامنی نے مغربی سیاستدانوں میں اس پالیسی کو جاری رکھنے کی خواہش کو ظاہر کیا ہے۔ تاہم، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکہ کے خلاف جغرافیائی سیاسی مقابلے میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
میکسو-نیٹو کے جغرافیائی سیاسی مقابلے میں شدت؛ شام میں روسی افواج کی کمزوری کا دہشت گردوں نے فائدہ اٹھایا
میکسو اور نیٹو کے درمیان کریمہ اور ڈونباس کے محور پر جغرافیائی سیاسی مقابلہ شدت اختیار کر گیا، جس کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا،انھوں نے اپنے اتحادیوں سے حاصل کردہ انٹیلیجنس کی مدد سے شام میں روسی فوج کی کمزوری کو ایک نئی مہم شروع کرنے کے طور پر دیکھا۔
جب تحریر الشام کے دہشت گرد حلب میں اپنی موجودگی سے خوش تھے، تو اس دوران روسی لڑاکا طیارے سوخوی-34 نے ان کے سربراہ ابومحمد الجولانی کی ممکنہ ہلاکت سے یہ ثابت کیا کہ ماسکو دمشق کی سیکیورٹی کے حوالے سے اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔
روسی حکام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ترکی اور اسرائیل نے بڑی طاقتوں کے درمیان اس مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے اور طویل مدت میں ماسکو کے مفادات کی کوئی اہمیت نہیں رکھی، شام میں اپنی پوزیشن کی مضبوطی سے روس یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ بحیرہ روم کے خطے میں نیٹو کے حق میں پوزیشن نہیں چھوڑے گا۔
دہشت گردی؛ نہ دوست جانتی ہے نہ دشمن
ترکی اور بعض اسلام پسند گروپوں کے درمیان تعلقات نے شروع میں ہی شام میں داخلی فتنے کی ابتدا کی اور انقرہ کو شام کے ادلب میں دہشت گردوں کا ایک اہم حامی قرار دیا۔
2016 تک ترکی کا مقصد بشار الاسد کے حکومت کو گرانا تھا، لیکن بعد ازاں، وائٹ ہاؤس میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد، انہوں نے دہشت گردوں کو کرد گروپوں کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
ترکی نے شمالی اور شمال مغربی شام میں چار فوجی آپریشن کیے جس کا مقصد ترکی کے جنوبی سرحدوں میں کرد ریاست کی تشکیل کو ایک سیکیورٹی خطرہ سمجھنا تھا۔
آج ترکی نے اقوام متحدہ کی قرارداد 2254، شام میں پناہ گزینوں کی واپسی اور آزاد انتخابات کے انعقاد کو جواز بنا کر شام میں دوبارہ مداخلت کی۔
اسیر دہشت گردوں کی اعترافات کے مطابق، ترکی نے براہ راست اور غیر براہ راست شام کے مخالفین کو مالی، فوجی اور انٹیلیجنس امداد فراہم کی۔ مارچ 2020 میں انقرہ نے ماسکو اور تہران کو ضمانت دی تھی کہ اگر دمشق کی ضد دہشت گردی آپریشنز روکے تو ترکی ادلب میں انتہا پسند گروپوں کو قابو کرے گا اور اعتدال پسند گروپوں کی حمایت کرے گا۔
تاہم، نومبر 2024 کی حالیہ پیشرفت نے اس دعوے کی نفی کی ہے،سوال یہ ہے کہ آیا ترکی اپنے فوجی وسائل کو لبنان کی سرحد یا مقبوضہ جولان کے لیے بھیج کر فلسطین کی آزادی کے مجاہدوں کی مدد نہیں کر سکتا تھا؟ اسرائیل کے خلاف لڑائی صرف کیمرے کے سامنے یا سیاسی میٹنگز میں نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے حقیقی ارادے اور میدان جنگ میں قیمت چکانی پڑتی ہے۔
خلاصہ
ادلب کی سرحدوں پر مناسب فوجی موجودگی کی کمی اور غزہ، لبنان اور یوکرین میں جاری جنگوں کی وجہ سے دمشق کے اتحادیوں کی صف بندی میں تبدیلی نے تحریر الشام کو اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی اجازت دی اور حلب کے صنعتی صوبے پر حملہ کر دیا۔
اگرچہ عالمی سطح پر پرانی اور نئی طاقتوں کے درمیان جغرافیائی سیاسی مقابلے میں شام کی جنگ میں فتح یا شکست کی بہت اہمیت ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ شام کی شکست پورے خطے کی امن اور استحکام کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اس بحران کو حل کرنے کی اہمیت یہ ہے کہ مغربی ایشیا مصنوعی سرحدوں اور بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے فتنہ و فساد کا شکار ہے۔
اسرائیلی رژیم کی مسلسل فتنہ انگیزی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اگر خطے کے ممالک نے شام میں مستقر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سستی دکھائی، تو پورے خطے میں عدم استحکام اور بے چینی پھیل سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: مغربی ممالک اب بھی شام میں دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں:روس
ترکی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سکیورٹی ایک ناقابل تقسیم معاملہ ہے اور شمالی شام میں مزید عدم استحکام سے اس کے اپنے سرحدی علاقے بھی متاثر ہو سکتے ہیں، اس پالیسی کا کم از کم اثر یہ ہو گا کہ ترکی میں شامی پناہ گزینوں کا مزید داخلہ ہو گا۔