کورونا وائرس، لاک ڈاؤن، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی

کورونا وائرس، لاک ڈاؤن، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی

(سچ خبریں) دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی کورونا کی تیسری لہر کی لپیٹ میں ہے، اس وقت دو ملک میں رائے پائی جاتی ہیں، ایک کہتی ہے کہ ملک بھر میں کورونا کی شدید ترین لہر کی وجہ سے مکمل لاک ڈاؤن کر دیا جائے، دوسری رائے یہ ہے کہ بیشک کرونا کی یہ لہر شدید ترین یے، اگر لاک ڈاؤن کریں گے، تو ملک کا آدھے سے زیادہ حصہ بیروزگار ہو جائے، ہم مہنگائی کے اس دور میں اس چیز کے متحمل نہیں ہو سکتے! یہ دونوں رائے ٹھیک ہیں!

اب آتے ہیں زمینی حقائق پر، جو کہ تشویشناک حد تک خراب ہیں، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، ہسپتالوں میں کرونا وارڈ بھر جانے کے بعد دھڑا دھڑ دوسرے وارڈز کو خالی کروا کر مریض وہاں ایڈجسٹ کروائے جا رہے ہیں، پرائیویٹ ہسپتال کرونا کے علاج کے منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں اس کے باوجود بھی ان کے ہاں بھی مزید مریضوں کے علاج کے لیے مزید بیڈز میسر نہیں۔

ان حالات میں اگر لاک ڈاؤن اگر نا لگایا گیا تو عید کی آمد پر، جیسے عوام نے شاپنگ کے لیے ٹوٹنا ہے، تو کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہی ہونا ہے (جیسا کہ پچھلے سال عید پر ہوا تھا).، اب اگر لاک ڈاؤن حکومت لگاتی ہے، تو دیہاڑی دار طبقے نے متاثر تو ہونا ہے ہی، ساتھ مڈل کلاس کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا (جس کا عملی مظاہرہ ہم پچھلے لاک ڈاؤن میں دیکھ چکے)!
تو حکومت لاک ڈاؤن لگانے سے رہی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ میرے اپنے گاؤں کے کافی لوگ اس وبا کا شکار ہو رہے اور روز بروز ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، شہروں میں اس کی شرع ہماری سوچ سے کہیں زیادہ ہے! کیونکہ لوگ ڈر یا ضد کی وجہ سے ،علامات آنے کے باوجود بھی ٹیسٹ نہیں کروا رہے، جس کی وجہ سے نئے کیسیز کم رپورٹ ہو رہے، ہاں اگر ٹیسٹنگ کا عمل تیز کر دیا جائے تو ان کیسز میں غیر معمولی طور پر اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، زخیرہ اندوزی کا خدشہ بھی اپنی جگہ موجود ہے، جسکی وجہ سے لاک ڈاؤن عملاً ناممکن ہے، یہ بات روشن دن کی طرح عیاں ہے کہ دوائیوں کی قلت دوبارہ ہونے والی ہے (اسکا عملی مظاہرہ میں دیکھ چکا)، تو حالات مزید خراب ہونے کی قوی امید ہے!

اب مشکل یہ ہے کہ لاک ڈاؤن لگاتے ہیں تو پھر بھی مرتے ہیں، لاک ڈاؤن نا لگنے کی وجہ سے لوگ مر تو پہلے ہی رہے ہیں، افسوناک بات یہ ہے کہ عوام پھر بھی اس وبا کو سریس لینے کو تیار نہیں ۔ لاک ڈاؤن لگانا یا نا لگانا تو دور کی بات، اس حکومت میں قوت فیصلہ کا سخت فقدان ہے، جو کہ صورتحال کو مزید سنگین تر کر رہا ہے۔

اس معاملے کا حل تھا کہ ہم مہذب شہری ہونے کا حق ادا کرتے، sops پر عمل کرتے، کم از کم ماسک ہی لگا لیتے، تو ثابت ہوا کہ ہم مہذب شہری نہیں ہیں، ہم قوم تو ہرگز نہیں! اب تو کوئی معجزہ ہی ہمیں اس آفت سے بچا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس معجزے کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔

کورونا کی تیسری لہر کے باعث جنوبی ایشیا کی معیشتوں پر اثرات کے سلسلے میں ورلڈ بینک نے حال ہی میں جنوبی ایشیا اکنامک فوکس 2021ء کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں سال 2020ء کا جائزہ اور آنے والے برسوں کے بارے میں توقعات و خدشات ظاہر کیے ہیں۔

معاشی نمو (GDP grouth) کے بارے میں جو امکانات بتائے گئے ہیں اس کے مطابق سال 2021ء میں بنگلادیش 8.6 فی صد، سری لنکا 3.4 فی صد، نیپال 2.7 فی صد اور پاکستان 1.3 فی صد کے حساب سے معاشی نمو متوقع ہے جب کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 1.5 فی صد کا امکان پیش کیا ہے۔

اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حکومت 2.1 فی صد کا ہدف طے کیا گیا۔ ملک میں بیروزگاری اور غربت میں کمی، کاروبار اور سرمایہ کاری میں اضافے اور معاشی خوش حالی کے لیے معاشی نمو کی بڑی اہمیت ہے۔

اگر معاشی نمو کی شرح بہت کم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے وقت میں معاشی حالات میں بہتری کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ 8 ماہ میں ملکی برآمدات اور ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کا مثبت اثر لوگوں پر ضرور آئے گا لیکن ورلڈ بینک کا کہنا یہ ہے کہ ملکی معیشت میں عدم استحکام، غیر یقینی اور اداروں میں بدانتظامی موجود ہے جس کے باعث مضبوط بنیادوں پر معاشی استحکام کے لیے دو سے تین سال لگ جائیں گے، حال ہی میں کیے گئے گیلپ سروے کے مطابق 54 فی صد پاکستانیوں کی آمدنی یا روز گار متاثر ہوا۔

ان سب حالات سے بالکل واضح ہے کہ جتنا زیادہ لاک ڈاؤن ہوتا جائے گا اتنی ہی زیادہ بے روزگاری بڑھے گی اور اس سے عام انسان کی مشکلات میں شدید اضافہ ہوجائے گا جس کے بارے میں حکومت کو سوچنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے