(سچ خبریں) عجیب صورت حال ہے ایک طرف گرمی بڑھ رہی ہے، دوسری طرف کورونا وائرس پھیل رہا ہے، پچھلے سال جنوری میں جب کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تو کہا گیا تھا کہ یہ وبا صرف سردیوں تک ہے، گرمی آئے گی تو یہ وبا خودبخود دم توڑ جائے گی کہ پاکستان کی گرمی برداشت کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے لیکن گرمی آئی اور دھوپ کی شدت سے چہرے جھلسنے لگے تو بھی کورونا کی اجارہ داری برقرار رہی۔
ہمیں یاد ہے کہ اپریل کے آخر میں رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو مساجد میں 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ اجتماعی افطاری پر پابندی لگادی گئی تھی۔
رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کا عشرہ کہلاتا ہے اور مسجدیں معتکفین سے بھر جاتی ہیں لیکن پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ یہ روایت بھی برقرار نہ رہی اور مسجدیں اعتکاف میں بیٹھنے والوں سے خالی رہیں۔
بڑی بڑی مسجدوں میں ایس او پیز کا یہ اہتمام کیا گیا کہ صفیں اُٹھا دی گئیں اور نمازیوں سے کہا گیا کہ وہ گھروں سے جا نماز لے کر آئیں اور دو نمازیوں کے درمیان کم از کم تین فٹ کا فاصلہ رکھ کر نماز پڑھیں۔
جو لوگ برس ہا برس کے اعتکاف بیٹھنے اور باجماعت تراویح پڑھنے کے عادی تھے وہ بزرگ شہریوں کے زمرے میں آکر اس سعادت سے محروم رہے۔ اس سال بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نے اعلان کیا ہے کہ رمضان المبارک میں مساجد کھلی رہیں لیکن ان میں ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے گا، یعنی اس سال بھی مسجدوں کی وہ رونق بحال نہ ہوسکے گی جو ہوا کرتی تھی۔
کہا جارہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر جو برطانیہ سے آئی ہے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہے۔ ہلاکتوں کی یومیہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اس وبا کا زیادہ زور پایا جاتا ہے۔
سندھ حکومت نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر وزیراعظم نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ملک مکمل لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس سے معیشت کا پہیہ رُک جائے گا، البتہ تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔
ایک ممکنہ احتیاطی تدبیر حکومت نے یہ اختیار کی ہے کہ بازاروں کے کھلنے اور بند ہونے کے اوقات مقرر کردیے ہیں، ہفتے میں دو دن (ہفتہ اور اتوار) دکانیں مکمل طور پر بند رہیں گی، یہ پابندی بھی لگائی گئی ہے کہ دکاندار خود بھی ماسک پہنیں گے اور گاہکوں کو بھی ماسک کے ساتھ دکان میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے۔
کاروباری طبقہ ہفتے میں دو چھٹی اور شام چھ بجے دکان بند کرنے کو تیار نہیں ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہی تو وقت خریداری کا ہوتا ہے ہم اس وقت اپنا کاروبار کیسے بند کرسکتے ہیں، تاجروں کی انجمنیں اس پر احتجاج کررہی ہیں لیکن فی الحال ان کی سنی نہیں گئی اور انتظامیہ اس پر سختی سے عملدرآمد کروارہی ہے، جرمانے ہورہے ہیں، دکانیں سیل کی جارہی ہیں لیکن عوام اس صورت حال سے بے نیاز آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔
وہ بازار میں ماسک پہن کر جانے کا تکلف بھی بہت کم کرتے ہیں، اگرچہ دکانداروں نے دکانوں کے باہر یہ لکھ کر لگا رکھا ہے کہ ماسک کے بغیر دکان میں داخلہ منع ہے لیکن ان کی بلا سے، وہ ماسک کے بغیر بے دھڑک دکان میں داخل ہوجاتے ہیں، دکاندار کے نزدیک گاہک تو خدا کی رحمت ہوتا ہے وہ اپنے گھر آئی ہوئی رحمت کو کیسے دُھتکار سکتا ہے، چناں چہ وہ ماسک کے بغیر بھی اسے خوش آمدید کہتا ہے، اگر اس کے سر پر بدقسمتی منڈ لارہی ہو تو بازار کی چیکنگ کرنے والی سرکاری ٹیم اچانک آدھمکتی ہے اور گاہک کے بجائے دکاندار سے 5 سو روپے جرمانہ وصول کرلیا جاتا ہے۔
ایک دکاندار بتارہا تھا کہ ہم تو بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں، کاروبار کریں یا جرمانے ادا کرتے پھریں، البتہ بڑے اسٹورز یا شاپنگ مالز میں داخلہ ماسک کے بغیر ممکن نہیں ہے کیوں کہ انٹرنس پر موجود سیکورٹی گارڈ ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہیں جانے دیتا۔ ان سپر اسٹورز پر گاہکوں کو ماسک مفت فراہم کرنے کا اہتمام بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ بینکوں اور سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں بھی ماسک کے بغیر داخلہ ممکن نہیں ہے، پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ ماسک کے بغیر مسافروں کو نہیں بٹھائیں گی لیکن بہت کم اس پر عمل ہورہا ہے۔
کورونا کی وبا سے سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا ہے، گزشتہ ایک سال بلکہ سال سے بھی زیادہ عرصہ سے بچے تعلیمی بحران سے گزر رہے ہیں، ان کا تعلیمی ٹیمپو بالکل ٹوٹ گیا ہے اور ان کے اندر تعلیم حاصل کرنے کی لگن بُری طرح مجروح ہوئی ہے۔ پچھلے سال تو انہیں امتحان کے بغیر اگلی کلاس میں ترقی دے دی گئی تھی لیکن اس سال کہا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور باقاعدہ امتحانات لیے جائیں گے۔
طالب علموں کا کہنا ہے کہ ہمیں تو پڑھایا ہی نہیں گیا پھر امتحان کس چیز کا؟ آن لائن کلاسز ضرور ہوئیں لیکن ان سے تعلیم کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، طالب علم جو کلاس روم میں بیٹھ کر سیکھتا ہے وہ آن لائن تدریس سے ممکن نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی ملکوں میں تعلیمی اداروں کو زیادہ عرصہ معطل نہیں رہنے دیا گیا، وہاں تھوڑے سے وقفے کے بعد یونیورسٹیاں اور کالج و اسکول کھل گئے تھے اور تعلیمی نظام پوری طرح کام کررہا ہے لیکن ہم بدستور کنفیوژن کا شکار ہیں، تعلیم یوں بھی ہمارے ہاں کبھی ترجیح نہیں رہی۔
موجودہ حکومت نے بڑے طمطراق سے یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی یہی ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے اور کوئی ڈھنگ کا فیصلہ نہیں کرسکی، کورونا نے ویسے ہی اس کی مت مار رکھی ہے۔