سچ خبریں: لاہور ہائیکورٹ نے جمعرات کو عمران خان کے نو مئی کے 12 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کو تو کالعدم قرار دے دیا ہے تاہم فوجی عدالتوں کے حوالے نہ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔
عمران خان نے لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ریمانڈ کے فیصلے کے خلاف درخواست دی تھی، جس میں کہا گیا کہ عدالت نے ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل، زیر حراست 103 افراد کی تفصیلات طلب
دوسری درخواست میں عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں فوجی عدالت کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔
فوجی عدالت کے حوالے سے عمران خان نے اپنے وکیل عزیر کرامات بنڈاری کے توسط سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے سماعت کی۔
اس درخواست میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے پولیس سربراہان کو فریق بنایا گیا تھا۔
عمران خان نے درخواست میں کہا کہ نو مئی کے مقدمات میں انہیں فوج کے حوالے کیا جا سکتا ہے اور عدالت سے استدعا کی کہ ان کے مقدمات عام عدالتوں میں رہنے کا حکم دے۔
عمران خان کے وکیل اشتیاق اے خان نے بی بی سی کو بتایا کہ درخواست تکنیکی بنیادوں پر خارج ہوئی کیونکہ وکالت نامے پر سیاہی لگ گئی تھی، لیکن یہ درخواست دوبارہ دائر کی جائے گی۔
اشتیاق اے خان کے مطابق 13 جولائی کو عمران خان کی عدت کیس میں بریت کے بعد انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے فوج کی حراست میں منتقل کرنے کا خدشہ ہے۔
عمران خان کو نو مئی کے 12 مقدمات، توشہ خانہ کیس، عدت کیس اور القادر ٹرسٹ کیس سمیت تمام بڑے مقدمات میں ریلیف مل چکا ہے۔
عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ نیب کی طرف سے قائم کردہ نیا توشہ خانہ ریفرنس بھی خلاف قانون ہے اور زیادہ دیر تک عدالتوں میں زیر التوا نہیں رہے گا۔
وکیل رہنما صباحت رضوی نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمات ایک سال بعد قائم کیے جا رہے ہیں، جس سے ان کے خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
ان کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن ٹریبونلز اور خصوصی عدالتوں میں تعینات کیے گئے ججز کو فوجی عدالتوں میں مقدمات منتقل کرنے کا اختیار دیا ہے۔
صباحت رضوی کے مطابق فوجی عدالتوں کی قانونی حیثیت پر کئی سوالیہ نشانات ہیں، جہاں فیصلے سنے اور سمجھے بغیر کیے جاتے ہیں۔
گذشتہ سال نو مئی کے بعد آرمی چیف کی زیر قیادت کور کمانڈرز کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوجی تنصیبات اور اہلکاروں پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوجی قوانین بشمول آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
گذشتہ اکتوبر میں سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دینے والی آرمی ایکٹ کی شق کو کالعدم قرار دیا اور حکم دیا کہ تمام مقدمات عام فوجداری عدالتوں میں چلائے جائیں۔
یاد رہے کہ دسمبر میں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بنچ نے اس حکم کو معطل کر دیا تھا، تاہم کہا تھا کہ فوجی عدالتیں شہریوں کے مقدمات پر فیصلہ نہیں کر سکتیں جب تک ان کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ نہیں آتا۔
نو مئی کے واقعات میں جن 103 افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوائے گئے تھے، ان میں سے 20 افراد کو سزا مکمل ہونے کے بعد رہا کیا جا چکا ہے۔
نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد واقعات ہوئے تھے، جن میں راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے باہر احتجاج اور لاہور میں جناح ہاؤس پر حملہ شامل ہیں۔
رواں ماہ 22 جولائی کو اڈیالہ جیل میں عمران خان نے 190 ملین پاؤنڈ کے کیس کی سماعت کے دوران نو مئی کے واقعات پر جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے کارکنان سے پُرامن احتجاج کی اپیل کی تھی، لیکن حکومتی ترجمانوں نے اسے ان کا اعتراف قرار دیا۔
سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق عمران خان کے خدشات میں فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد اضافہ ہوا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے بنوں میں احتجاج کے دوران فائرنگ کے واقعے کو نو مئی کے واقعات سے جوڑا۔
فوجی ترجمان نے کہا کہ بنوں کے امن مارچ میں کچھ مسلح افراد شامل ہو گئے تھے، جن کی فائرنگ سے لوگ زخمی ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر نو مئی کے سہولت کاروں کو سزا نہ دی گئی تو ملک میں انتشار پھیلے گا۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس: فوجی عدالتوں کے حق میں قرارداد کے خلاف سینیٹرز کا احتجاج
اشتیاق اے خان کے مطابق عمران خان کے خلاف نو مئی کے مقدمات میں ججز کے ریمارکس کے بعد مقتدر حلقوں کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ ان مقدمات میں عمران خان کو زیادہ عرصے قید میں نہیں رکھ سکتے۔
زاہد حسین کے مطابق عمران خان کو فوج کی حراست کا خطرہ اس لیے بھی ہے کہ فوجی عدالتیں ابھی تک موجود ہیں اور انہیں ختم نہیں کیا گیا۔