سچ خبریں: فلسطین کے مسئلے پر امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کے نظریے کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ "تاریخ کی صحیح سمت” اور "مقاومت کے محور کا حصہ” جیسے جملے صرف میڈیا کی اصطلاحات نہیں ہیں بلکہ یہ انتہائی منتخب اور باریک الفاظ ہیں۔
امریکہ کی یونیورسٹیوں میں حالیہ مہینوں سے غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کے خلاف احتجاجات جاری ہیں، جو ناظرین کی نظر میں 1960 کی دہائی میں ویتنام کی جنگ کے خلاف اس ملک کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاجات کی مثال ہیں۔
یہ احتجاجات امریکہ کی 50 سے زیادہ یونیورسٹیوں میں صیہونیوں کی نسل کشی کے خلاف اتنے آگے بڑھ گئے کہ اس کی گونج دیگر مغربی ممالک مثلاً آسٹریلیا (ملبورن اور سڈنی یونیورسٹیوں)، کینیڈا (میک گل اور کنکورڈیا یونیورسٹیوں)، فرانس (پیرس انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اسٹڈیز اور سوربن یونیورسٹی)، اٹلی (ساپینزا یونیورسٹی)، انگلینڈ (لیڈز یونیورسٹی، کالج لندن اور وارویک یونیورسٹی) وغیرہ تک پہنچ گئی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی طلباء کے نام آیت اللہ خامنہ ای کے خط پر عبری اور عربی میڈیا کا ردعمل
آیت اللہ خامنهای نے گزشتہ جمعرات کو امریکہ میں فلسطین کے حامی طلباء کے نام ایک اہم خط شائع کیا جو انتخابی ماحول کی وجہ سے اتنی توجہ کا مرکز نہیں بن سکا جتنا بننا چاہیے تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خط کے آغاز میں فرمایا:
یہ خط میں ان نوجوانوں کو لکھ رہا ہوں جن کا بیدار ضمیر انہیں غزہ کے مظلوم بچوں اور عورتوں کے دفاع پر مجبور کر رہا ہے، امریکی عزیز طلباء! یہ ہماری آپ کے ساتھ ہم آہنگی اور یکجہتی کا پیغام ہے، آپ اس تاریخ کے درست حصے میں کھڑے ہیں جو ورق پلٹ رہی ہے، آپ اس وقت مقاومتی محاذ کا حصہ ہیں اور اپنی حکومت کے بے رحم دباؤ کے تحت، جو کھل کر صیہونی غاصب اور بے رحم حکومت کی حمایت کرتی ہے، باوقار جدوجہد کر رہے ہیں۔
عالمی میڈیا میں اس خط کا ردعمل
تاریخ کے درست حصے میں ہونے اور امریکی طلباءکو مزاحمتی محاذ کا حصہ قرار دینا، بین الاقوامی میڈیا میں خط کے دو کلیدی نکات تھے۔ مثال کے طور پر لبنانی خبر رساں ایجنسی العہد نے اس بارے میں سرخی لگائی: امام خامنہ ای کا امریکی طلباء سے خطاب: آپ اس وقت مقاومتی محاذ کا حصہ ہیں، اسی طرح "نیویارک پوسٹ” اور "فاکس نیوز” نے بھی خط کے اس حصے کو نمایاں کیا۔
"آپ تاریخ کے درست حصے میں کھڑے ہیں” آیت اللہ خامنہ ای کے خط کا مرکزی نکتہ تھا، جو تقریباً تمام مغربی میڈیا کی رپورٹوں میں نظر آیا اور بعض اوقات رپورٹوں کے عنوان میں بھی نمایاں ہوا، مثال کے طور پر "نیویارک پوسٹ” اور "فاکس نیوز” نے اس حصے کو نمایاں کیا جس میں آپ نے امریکی طلباءسے کہا کہ آپ اس وقت تاریخ کے درست حصے میں کھڑے ہیں اور آپ اب مقاومتی محاذ کا حصہ ہیں۔
امریکی نیوز چینل فاکس نیوز کی ویب سائٹ نے اس کا خط مکمل متن کے ساتھ اس سرخی کے تحت شائع کیا کہ ایران کے رہبر نے امریکی طلبہ کی تاریخ کے درست حصے میں کھڑے ہونے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
محور مقاومت کا مطلب کیا ہے؟
ابتدائی طور پر، کچھ لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ امریکی طلباء کو، جو صیہونی حکومت کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، تاریخ کے درست حصے میں کھڑا اور مقاومتی محاذ کا حصہ قرار دینا محض ایک میڈیا تعارف یا سیاسی اقدام ہے تاکہ ان واقعات کو نمایاں کیا جا سکے۔ لیکن امام خمینی اور آیت اللہ خامنهای کی فلسطین کے مسئلے پر جامع نظر اور بین الاقوامی تعلقات کی تنظیم پر ایک دقیق نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ الفاظ درست اور پرانے یقین پر مبنی ہیں۔
استضعاف اور استکبار؛ صف بندی کا معیار
ایران کے انقلاب اسلامی کی ادبیات میں صف بندی کا معیار شیعہ گری، اسلامی دنیا، یا ایرانی مفادات نہیں رہا ہے، امام خمینی نے استکبار اور استضعاف کے دو کلیدی الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ صف بندی کی بنیاد کو سمجھا جا سکے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے 2019 میں کہا کہ مستضعفان، برخلاف اس کے جو آج غلطی سے کمزور اور نادار افراد کو کہا جاتا ہے، ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بشریت کے ممکنہ پیشوا اور زمین پر خدا کے نائب ہیں؛ لہذا مقاومت کے لیے ایک روحانی بنیاد کی ضرورت ہے اور یہ روحانی بنیاد خاص طور پر نوجوانوں کی حرکت کے اثرات میں اہم کردار ادا کرے گی۔
استکبار اور استضعاف کی تعریف
یہ دو دینی اور قرآنی الفاظ امام خمینی کی اختراعات ہیں جو سیاسی ادبیات میں شامل ہوئے، مستضعف اسے کہتے ہیں جو کمزور سمجھا جاتا ہے نہ کہ لازمی طور پر کمزور ہو اور طاقت نہ رکھتا ہو، مستکبران وہ ہیں جو خود کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں۔
استکبار اور استضعاف؛صف بندی کا معیار
امام خمینی کی ادبیات کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے استکبار اور استضعاف کے دو محاذوں کی پیدائش کی بنیادی وجہ اخلاقی عوامل کو قرار دیا ہے، استکباری روح خود برتری اور انسان محوری (اومانیسم) سے پیدا ہوتی ہے، جبکہ مستضعفین کی جہالت اور خود پر یقین کی کمی اور نوآبادیاتی پروپیگنڈے کے اثرات نے کچھ لوگوں کو دوسرے اقوام اور حکومتوں سے کمزور سمجھنے پر مجبور کیا۔
امام خمینی کا کہنا ہے کہ تمام فساد، چاہے افراد سے ہو، حکومتوں سے ہو یا معاشرتی طور پر ہو، اس کا سبب شیطان کی وراثت ہے اور تمام فساد، جو دنیا میں پایا جاتا ہے، یہ خودبینی کی بیماری کی وجہ سے ہے چاہے کوئی گھر میں بیٹھا ہو اور عبادت میں مشغول ہو، اگر وہ خودبینی کرے تو وہ شیطان کی وراثت ہے، اب چاہے وہ معاشرے میں ہو یا لوگوں سے ملے، اگر اس سے کوئی فساد پیدا ہوتا ہے تو وہ خودخواهی اور خودبینی سے ہے، اور جو حکومتیں دنیا میں حکومت کرتی ہیں؛ جب سے دنیا میں حکومتیں قائم ہوئی ہیں تب سے لے کر اب تک، ہر فساد اسی خصوصیت سے واقع ہوا ہے
امریکہ؛ محروم اور مستضعف عوام کا دشمن
امام خمینی کہتے ہیں:
امریکہ دنیا کے محروم اور مستضعف لوگوں کا دشمن نمبر ایک ہے، وہ دنیا پر اپنے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور عسکری تسلط کے لیے کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کرتا، وہ جو بین الاقوامی صیہونیت کے ذریعے منظم کیے جانے والے پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کے مظلوم لوگوں کا استحصال کرتا ہے،اپنے خفیہ اور غدار ایجنٹوں کے ساتھ مظلوم لوگوں کا خون اس طرح چوستا ہے گویا دنیا میں اس کے سوا کوئی بھی حق حیات نہیں رکھتا۔
امام خمینی کے نزدیک ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی میں بنیادی اصول اور عملی اصول کا ایک ہونا ہے،امام خمینی ان دو عبارتوں کے ذریعے ایک ایسا بنیادی اصول وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں عملی اطلاق اور جامع صف بندی شامل ہو، آپ کا کہنا ہے کہ اگر میں اپنے ماتحت لوگوں پر، چاہے وہ چار ہی کیوں نہ ہوں، ظلم و زیادتی کروں اور انہیں حقیر سمجھوں، تو میں خدا کے بندوں کو حقیر سمجھتا ہوں، میں مستکبر ہوں اور وہ مستضعف ہیں،یہی وہ مفہوم ہے جو مستکبرین اور مستضعفین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
فلسطین؛ استکبار یا مستضعفین کا معیار
فلسطین حق اور باطل کے دو محاذوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری نبرد کا ایک اہم اور سرنوشت ساز معیار ہے جو علاقے اور دنیا کے مستقبل کا تعین کرے گا لہذا جو بھی اس مقصد میں مزاحمتی محاذ یعنی صیہونی نامی دہشتگرد اور بے رحم چینل کے ظلم کو روکنے کا حصہ ہو، وہ اس اہم اور سرنوشت ساز مزاحمتی محاذ کا حصہ ہے؛ یہ محاذ ایران اور غیر ایران،شیعہ اور سنی، مشرق اور مغرب سے ماورا عمل کرتا ہے۔
فلسطین: مزاحمت، حق طلبی اور ایستادگی کا مظہر
آج، فلسطین ظلم، استکبار اور استحصال کے خلاف استقامت، حق طلبی، ایستادگی اور مردانگی کے دو محاذوں کا مکمل اور عینی مظہر ہے، مزاحمتی محاذ آج فلسطین میں کفر اور استکبار کے محاذ کے خلاف، ملت کی خواست اور ارادہ کی تبدیلی اور علاقے اور دنیا کے نظم کی تبدیلی کے لیے فرنٹ لائن ہے، جو سیاسی، ثقافتی اور شناختی استحصال کے لیے ہے۔
خلاصہ
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خط کے ایک اور حصے میں امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینی عوام کے حامی طلباء سے کہا کہ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آج حالات بدل رہے ہیں، مغربی ایشیا کے حساس علاقے کے لیے ایک اور تقدیر کا انتظار ہے، عالمی سطح پر بہت سے ضمیر بیدار ہو چکے ہیں اور حقیقت واضح ہو رہی ہے،مزاحمتی محاذ مضبوط ہو چکا ہے اور مزید مضبوط ہو گا، تاریخ بدل رہی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے سابق وزیر اطلاعات کا آیت اللہ خامنہ ای کے امریکی طلباء نے نام خط پر ردعمل
قوموں کی بیداری، ایستادگی اور ان کی جدوجہد کا براہ راست مقابلہ استکبار کے خلاف ہے، جو دنیا کے فیصلوں میں قوموں کی نمائشی موجودگی کے خواہاں ہیں، یورپ اور امریکہ کے جوانوں کا صیہونی نسل کشی کے خلاف بیداری اور احتجاج ایک خوش آئند واقعہ ہے، جو انہیں بڑے مزاحمتی محاذ کا حصہ بناتا ہے۔