سچ خبریں:بین الاقوامی امور کے ماہرین نے 2022 کے اہم ترین واقعات اور 2023 میں ہونے والے ان واقعات کے اثرات کا تجزیہ کیا۔
سال 2022 ختم ہو چکا ہے لیکن یہ سال دنیا کے ہر انسان کو یاد رہے گا، اس سال ہم نے یوکرین جنگ کا آغاز دیکھا، ایسی جنگ جس نے تمام ممالک کو متاثر کیا ہے،اس کے علاوہ اس سال کورونا وائرس کی وبا بہت کمزور ہوئی، مغربی ایشیا کے علاقے میں اس سال بہت اہم صورتحال پیش آئی، فلسطین اور اسرائیل کے معاملے میں مزاحمتی کارروائیاں اور اسرائیل میں اہم انتخابات بہت خاص تھے،قطر ورلڈ کپ بھی اس سال کے اہم مقابلوں میں سے ایک تھا،اس سلسلے میں ہم نے 2022 کے اہم ترین واقعات اور 2023 میں ہونے والے ان واقعات کے اثرات کے سلسلہ میں بین الاقوامی امور پر متعدد ماہرین کی رائے طلب کی ہے جو درج ذیل ہے:
1- 2022 میں امریکہ میں رونما ہونے والے اہم ترین واقعات میں سے ایک وسط مدتی کانگریس کے انتخابات میں ریڈ ویو کی ناکامی تھی، ایک لہر جس سے دونوں قانون ساز ایوانوں میں اکثریت حاصل کرنے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن اس کے نتیجے میں سینیٹ میں ریپبلکنز کا حصہ کم اور ایوان نمائندگان میں ایک نازک اکثریت تھی،یہ مسئلہ اس لیے اہم ہے کیونکہ ڈیموکریٹس اسقاط حمل کے حق جیسے مسائل پر تنازعہ کو ہوا دے کر اپنے حامیوں کو انتخابات میں لانے میں کامیاب ہوئے اور اس مسئلے پر نمک مرچ لگا کر پارٹی کے انتہائی کمزور ریکارڈ کے باوجود انتخابات جیت گئے اور ریپبلکنز کے ہاتھوں سے وائٹ ہاؤس چھیننے میں کامیاب ہوگئے،ان کی جانب سے اٹھایا ہوا یہ مسئلہ عام لوگوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے سکتا ہے اور 2023 میں صدارتی انتخابات کے آغاز کے ساتھ مزید اندرونی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
2- 2022 میں سعودی عرب اور قطر کی سربراہی میں خلیج فارس تعاون کونسل بین الاقوامی توجہ کا مرکز رہی جس کا بنیادی تعلق عالمی کپ کی میزبانی، توانائی کے بڑے معاہدوں پر دستخط اور اس خطے میں امریکی اور چینی رہنماؤں کے دوروں سے تھا،شیخ نشین ریاست قطر میں دنیا کے سب سے اہم کھیلوں کے ایونٹ کے انعقاد نے اس ملک کی اسپورٹس ڈپلومیسی جو پہلے بڑے فٹ بال کلبوں کی خریداری کے حوالے سے سرخیوں میں تھی، کو ایک نئے ماحول میں ڈال دیا ہے جس سے ماہرین کے مطابق بین الاقوامی سطح پر نرم اور قابل اعتبار طاقت ایک بین الاقوامی نظام میں دوحہ کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا، کھیلوں کی سفارت کاری کے علاوہ چین اور جرمنی کے ساتھ قطر کے گیس کے بڑے معاہدے بھی ایک اور اہم واقعہ تھا جس نے ایک بار پھر عالمی توانائی کے خطوط میں خلیج فارس کے جنوب میں اس شیخ نشین ریاست کی حیثیت اور کردار کو اجاگر کیا، اسی وقت سعودی عرب نے OPEC+ کی قیادت میں روس کی شرکت کے ساتھ قیمتوں کو کنٹرول کیا اور امریکہ کے خلاف نرم توازن پیدا کیا اور جو بائیڈن کا ریاض کا دورہ دونوں روایتی اتحادیوں کے درمیان اس تناؤ کو کم نہیں کر سکا، دوسری جانب چینی صدر کی اعلیٰ سطح پر میزبانی کرکے سعودی عرب نے اس لائن کو اجاگر کیا کہ یہ ملک دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ جامع تعاون کے لیے بھی تیار ہے،اس نقطہ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ2023 میں خلیج فارس تعاون کونسل خاص طور پر اس کونسل کے تین اہم کردار اپنی اقتصادی اور توانائی کی صلاحیت کو عالمی طاقتوں پر اثر انداز ہونے اور بدلتے ہوئے بین الاقوامی نظام میں اپنی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کریں گے جس کے تحت توانائی کی اہمیت کے ساتھ راہداریوں، انفراسٹرکچر اور نئی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا،تاہم غیر حل شدہ علاقائی مسائل اور غیر متوقع تنازعات اور تناؤ کے امکانات خطے پر بہت زیادہ وزن بنائیں رہیں گے۔
3- فروری 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف اس سال کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ گزشتہ دہائی کا سب سے اہم واقعہ بھی کہا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی ترقی کے رجحان میں عالمی طاقتوں کے مفادات کے ٹکراؤ میں اضافہ ہوا اور ان کی ایک دوسرے کے خلاف نئی صف بندی کرنے کا باعث بنا، یوکرین پر روس کے حملے کو اس لحاظ سے بین الاقوامی نظام کے ارتقا کا ایک اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے، اس بحران کا ایک براہ راست رخ روس جیسی ماورائے علاقائی طاقت ہے جو ایک جوہری طاقت کے طور پر، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اہم رکن ہے اور اس بحران کا دوسرا رخ امریکہ اور مغرب ہے جس پر نیٹو کا جیو پولیٹیکل اور سیکورٹی آرڈر مرکز ہے،اس واقعہ نے عالمی بالادستی کا دعویٰ کرنے والی طاقت کے طور پر امریکہ کے لیے ایک سنگین چیلنج پیدا کر دیا،عالمی اقتصادی نظام اور اس کے ساتھ توانائی کی فراہمی، خوراک کی فراہمی، تقسیم اور مالیاتی تبادلے کے نظام میں تبدیلی آئی،جغرافیائی سیاست نے دنیا کو تبدیلی سے روشناس کرایا، اس کے ساتھ ساتھ، یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے اس ملک کو براہ راست فوجی مدد نہ ملنے نے نہ صرف نظریاتی حمایت کے ساتھ نیٹو کے اجتماعی دفاع کے خیال کو چیلنج نہیں کیا بلکہ ایک بار پھر خود انحصاری کے اصول کو بھی چیلنج کیا اورحقیقت پسندانہ نقطہ نظر کے اصولوں میں سے ایک جو عام طور پر بقا کی پہلی شرط سمجھا جاتا ہے،کی طرف توجہ دلائی ،مجموعی طور پر یوکرین کے بحران اور امریکہ کے غلبہ کے بارے میں انتشار اور غیر یقینی کے حالات پیدا ہونے نے اس کے اندر سے بین الاقوامی نظام کی تبدیلی کے امکان کو ایک سنجیدہ عمل میں بدل دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ جمود کا حامی ہونے کے ناطے، عالمی نظام کو تبدیل کرنے میں مدد دینے والی کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرتا ہے اور کسی بھی ایسے اداکار کو سزا دیتا ہے جو جمود کو تبدیل کرنے کے حق میں ہو، بنیادی طور پر 2023 میں کوئی بھی تنازع اس عمل کو تیز کر سکتا ہے۔
4- 2022 فلسطینیوں کے لیے یادگار رہے گا؛ مغربی کنارے میں مسلح کارروائیوں کی منفرد تعداد، خاص طور پر بیت المقدس میں بم دھماکے اور وہاں کے کیمروں کی ہیکنگ، شیرین ابوعاقلہ کی شہادت، غزہ میں 3 روزہ جنگ میں جہاد اسلامی فلسطین کے متعدد کمانڈروں کی شہادت اور قطر ورلڈ کپ میں فلسطینی پرچم کا لہرایا جانا ، غزہ کی 3 روزہ جنگ مزاحمتی گروپوں کی تاریخ میں ایک بنیادی تبدیلی تھی، صہیونیوں نے پہلی بار جہاد اسلامی فلسطین گروپ کے خلاف ٹارگٹڈ جنگ شروع کی،اگرچہ اس تنظیم کی عسکری ونگ کی اہم شخصیات کا قتل تل ابیب کے لیے ایک کارنامہ تھا لیکن یہ صہیونیوں کے لیے حماس جیسا خطرناک گروہ بننے میں جہاد اسلام کے سنگین عروج کو ظاہر کرتا ہے، اس معرکے کا ایک اور پہلو اس جنگ میں حماس کی براہ راست اور کھلی شرکت کا فقدان تھا جو صہیونیوں کے مختلف تجزیوں اور تشریحات کے ساتھ تھا،3روزہ غزہ جنگ اور مغربی کنارے کے جوانوں کی بیداری جس کے نتیجہ میں عرین الاسود گروہ سامنے آیا، کو 2023 میں فوجی عمل اور فلسطینی مزاحمت کو متاثر کرنے والے اہم ترین واقعات میں سے قرار دیا جا سکتا ہے، نئا سال لوگوں اور نوجوانوں کی بے ساختہ کارروائیوں کے سب سے غیر معمولی سالوں میں سے ایک سے ہوگا، 2022 کے 12ویں مہینے کے وسط تک فلسطینی شہداء کی تعداد 223 تک پہنچ گئی ہے اور دوسری جانب 30 صہیونی مارے جا چکے ہیں جس کی گزشتہ 10 برسوں میں مثال نہیں ملتی، سال 2023 کا آغاز نیتن یاہو کی نئی دائیں بازو کی کابینہ کی تشکیل اور بعض خصوصی عہدوں جیسے وزارتِ سکیورٹی کو الٹرا آرتھوڈوکس اور مذہبی جماعتوں کے حوالے کرنے سے شروع ہو گا، ایک ایسا سال جس میں صیہونیوں کی طرف سے جبر کی شدت کے جواب میں مغربی کنارے اور صہیونی بستیوں میں 2022 کے مقابلے میں کشیدگی اور مزاحمتی کارروائیوں کے رجحان میں اضافہدیکھنے کو ملے گا۔
5- 2022 میں یوکرین کی جنگ کو تقریباً 10 ماہ گزر چکے ہیں،اگرچہ یہ جنگ فروری میں شروع ہوئی تھی لیکن اس کی اصل شروعات کریمیا کے بحران اور 2014 میں روس کے ساتھ الحاق کے بعد ہوئی تھی جس کے بعد سے مغربی ممالک نے ماسکو کو کمزور کرنے کا مقصد سے کیف کے رہنماؤں کو مالی مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جنگی ہتھیاروں سے لیس کرتے ہوئے ایک اور جنگ کی تیاری شروع کر دی ، پہلے تو یوکرین کی جنگ اتنی طویل ہوتی نظر نہیں آتی تھی لیکن اس کے تسلسل اور شدت کے ساتھ کچھ مساواتیں بالکل بدل گئیں، مغرب کے غلط حساب کتاب نے یورپ اور ریاستہائے متحدہ کو خود ساختہ پابندیوں میں بھنور میں ڈال دیا اور توانائی کی منڈی نے سیاست دانوں کے سامنے اپنی ہمیشہ سے زیادہ قیمتی قدر کا مظاہرہ کیا،دریں اثنا بحران کی حد کو 2023 تک بڑھا دیا گیا ہے جسے دیکھتے ہوئے یہ امید نہیں ہے کہ یوکرین کی کی سرزمین پر امریکہ اور روس کے درمیان کھیلا جانے والا یہ شطرنج کا کھیل جلد ختم ہونے والا ہے، ڈونیٹسک، لوہانسک، کھیرسن اور زاپوریزیا کے چار خطوں کا روس سے الحاق، سردیوں کی آمد جس سے مغرب خوفزدہ تھا، ایک قابل اعتماد، موثر اور غیر جانبدار ثالث کی عدم موجودگی، سفارت کاری کے دروازوں کا بند ہونا، یہ عوامل ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے اس جنگ کے خاتمے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی یا کم از کم مستقبل قریب میں بحران کا خاتمہ نظر نہیں آتا۔
6- یوکرین کی جنگ کو مختلف پہلوؤں سے 2022 میں بین الاقوامی نظام کے میدان میں سب سے اہم واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے،اس جنگ کے بارے میں بات کرتے وقت اکثر توانائی کا مسئلہ، نیٹو، روس کے حملے کی وجوہات اور اس کی کارکردگی نیز اس جنگ میں امریکیوں کے مفادات پر بات کی جاتی ہے، لیکن ایک نکتہ جس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی وہ ہے، اس جنگ میں برطانوی کارکردگی، بریگزٹ کے بعد برطانیہ نے "گلوبل برطانیہ” کے نام سے ایک منصوبے کی نقاب کشائی کی اور اس میں نشاندہی کی کہ یہ ملک بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار بڑھا کر،نئے شراکت داروں کو تلاش کرکے کسی نہ کسی طرح اپنی پرانی سلطنت کو بحال کرنا چاہتا ہے، 2021 کے آخر میں برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان AUKUS سکیورٹی معاہدے پر دستخط، اور پھر 2022 میں یوکرین کی حمایت میں برطانیہ کے وسیع کردار نے اشارہ کیا کہ برطانیہ نے اس سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے،ایسے حالات میں جب یہ ملک بہت سے اندرونی مسائل سے نمٹ رہا تھا، خاص طور پر اقتصادی مسائل، اس وقت کے وزیر اعظم بورس جانسن یوکرین کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما تھے جبکہ اس برطانوی پارلیمنٹ کی رپورٹ کے مطابق اس ملک نے اب تک تقریباً 20 ارب ڈالر یوکرین کی مدد کی ہے، بریگزٹ اور پھر کورونا کے پھیلاؤ کے بعد برطانیہ کو سپلائی چین اور سامان کی تقسیم میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اب روس کے خلاف پابندیوں کے باعث اس ملک میں توانائی کا بحران بھی شامل ہوگیا ہے جبکہ 6 سالوں میں 5 وزرائے اعظم کی تبدیلی اس ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہے، دوسری طرف ملکہ الزبتھ کی موت اور بادشاہ چارلس کی جانشینی نے، جو اس ملک میں زیادہ مقبول نہیں ہیں، اتحاد پیدا کرنے کے کم از کم علامتی عوامل کو بھی بہت کمزور کر دیا ہے، ان تمام معاملات پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ بین الاقوامی نظام میں اپنا سیاسی کردار بڑھانے کی کوشش کرتا رہے گا، خاص طور پر امریکہ کے شانہ بشانہ، چین اور روس سے نمٹنے کے لیے، لیکن اس کے اندرونی مسائل کم از کم مختصر اور درمیانی مدت میں عالمی برطانیہ کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیےاسے اجازت نہیں دیتے۔
7- 2022 کے اہم سفارتی واقعات میں سے ایک ایران اور سعودی عرب کے درمیان بغداد سکیورٹی مذاکرات کے پانچ دور تھے جن میں علاقائی مسائل بالخصوص یمن کے بحران پر اختلافات کو کم کرنے میں اہم پیش رفت ہوئی، اس وقت تہران ریاض مذاکرات کا راستہ اس قدر مثبت تھا کہ عراقی وزیر خارجہ نے بغداد مذاکرات کے چھٹے یا ساتویں دور میں سفارتی تعلقات کی بحالی اور ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کے امکان کا ذکر کیا، تاہم، بغداد میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ میں مذاکرات کے چھٹے دور کو ملتوی کرنے کا باعث بنا، اس کے علاوہ اندرونی بدامنی میں ایران کے معاملات میں سعودی عرب کی ظاہری اور خفیہ مداخلت، اور "ایران انٹرنیشنل”، "انڈیپنڈنٹ فارسی” اور "العربیہ فارسی” سیٹلائٹ چینلز کی تشکیل اور ان کی حمایت نیز سیستان بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی ہتھیاروں یا مالیاتی حمایت نے دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات میں مایوسی کو جنم دیا، تاہم 20 دسمبر، 2022 کوبغداد 2″ کانفرنس اردن کے دارالحکومت عمان میں منعقد ہوئی، اس کانفرنس کے دوران ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے توقع کے برخلاف سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سے ملاقات اور گفتگو کی ، تہران اور ریاض کے درمیان سکیورٹی مذاکرات کے پانچ دور کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی راستے کھل گئے ہیں اور تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی و سکیورٹی تعلقات کا ایک نیا باب 2023 میں شروع ہونے والا ہے۔
راقم کا خیال ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان سنجیدہ سیاسی عزم موجود ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ نئے سال میں ہم یمن، لبنان اور شام میں اہم علاقائی معاملات میں کشیدگی میں کمی دیکھیں گے نیز علاقائی تنازعات میں کمی کے ساتھ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارت خانے اور سفارتی دفاتر دوبارہ کھل جائیں گے،تاہم ایران کے اندرونی معاملات میں سعودی مداخلت کا تسلسل، نیتن یاہو کا دوبارہ اقتدار حاصل کرنا اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی رفتار جیسی صورتحال ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں ایک سنگین رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
8- اسرائیلی حکومت کے حالیہ انتخابات کو اس حکومت کی ایک نئی صورت حال کی طرف منتقلی کے آغاز کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس میں دائیں بازو اور مذہبی لوگوں کو نمایاں اکثریت حاصل ہوئی اور بہت سے قوانین اور جمہوری طریقہ کار ایک قسم کی آمریت کے حامی ہوں گے، مقبوضہ علاقوں میں رہنے والی عرب اقلیت کے خلاف نئی اکثریت اور مزید امتیازی سلوک کو ادارہ جاتی بنانا نیتن یاہو کی نئی کابینہ اسرائیل کی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں مغربی کنارے کا الحاق، النقب اور جلیل کے عرب علاقے کو یہودیت میں تبدیل کرنا،مذہبی بجٹ میں زبردست اضافہ اور قوانین کی مذہبیت،اسرائیلی سپریم کورٹ کی طاقت میں نمایاں ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں،صیہونی بستیوں کی مضبوط ترقی،یہودیت میں تبدیلی پر پابندی اور جنسی اقلیتوں کے حقوق میں کمی کا ذکر کیا گیا، ایک جملے میں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے زیادہ دائیں بازو کی اور سب سے زیادہ مذہبی کابینہ اقتدار میں آئی ہے۔