🗓️
سچ خبریں: جب 33 روزہ جنگ حزب اللہ کے لیے فاتحانہ طور پر ختم ہوئی تو اس جنگ کے آفٹر شاکس نے صیہونی حکومت کے جھوٹے خوف کو مکڑی کے جال میں تبدیل کر دیا،ایسا کمزور جال جو اب طوفان الاقصیٰ سے مٹی میں مل رہا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک کی جانب سے فلسطینی سرزمین میں طوفان الاقصیٰ کا اسٹریٹجک آپریشن شروع کیا گیا جس کی وجہ سے اٹھنے والی دھول پورے خطے میں محسوس کی گئی،اس طوفان نے نہ صرف سوئے ہوئے صہیونی افسران کو ان کے پاجاموں میں بستروں سے باہر نکالا بلکہ خطے کے کئی عرب اور مغربی حکمران بھی اس طوفانی کارروائی کے شروع ہونے کے بعد کئی گھنٹوں تک حیران و پریشان رہے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی تک طوفان الاقصیٰ کے جھٹکے
یہ بہت بڑا طوفان، جو فلسطینی امور کے ماہرین کے مطابق، گزشتہ نصف صدی میں بے مثال تھا، بعض تجربہ کار صہیونی افسران اور رہنماؤں کے لیے یہ 2006 کی 33 روزہ جنگ کے ڈراؤنے خواب کی یاد دہانی تھی۔
اگرچہ حزب اللہ کے خلاف صیہونی حکومت کی 2006 کی جنگ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے مماثلت رکھتی ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ اس جنگ نے حماس سمیت خطے کے مزاحمتی گروہوں کو بڑا حوصلہ دیا ہے لیکن ان دونوں محاذ آرائیوں کے درمیان شروع سے ہی یہ فرق ہے کہ طوفان الاقصیٰ ایک جارحانہ کاروئی ہے جبکہ 33 روزہ جنگ دفاعی تھی، تاہم صیہونی حکومت کے دونوں تلخ تجربے ہیں۔
2006 کی جنگ کے اہم ترین مقاصد کیا تھے؟
اس جنگ کو جنگ تموز بھی کہا جاتا ہے،2004 میں صیہونی حکومت نے حزب اللہ کے ساتھ معاہدے کے برعکس تین لبنانی قیدیوں کو رہا نہیں کیا،ان کو آزاد کرنے کے لیے جولائی 2006 میں حزب اللہ نے الوعد الصادق آپریشن میں دو صہیونی فوجیوں کو پکڑ لیا جس کے جواب میں صیہونی حکومت نے لبنان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جبکہ محققین کا خیال ہے کہ تل ابیب پہلے سے لبنان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، حزب اللہ کی کارروائی جنگ شروع کرنے کا بہانہ تھی،جنگ کے آغاز سے ہی صیہونی حکومت نے سرکاری طور پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور اپنے دو اسیروں کی رہائی کا مطالبہ کیا،وہ مطالبات جو اس نے جنگ کے اختتام پر حاصل نہ کیے اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
جنگ تموز میں جانی و مالی نقصانات
اس جنگ میں دونوں طرف کا جانی، مالی اور فوجی نقصان ہوا،تاہم صیہونی حکومت نے اپنے بہترین ہتھیاروں کی وجہ سے لبنان کے عوام اور ملک کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔
یہ غیر مساوی جنگ 33 دن تک جاری رہی اور آخر کار صیہونی حکومت کی جانب سے حزب اللہ کی مزاحمتی قوتوں کے خلاف اس جنگ کو جاری رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر مغربی اور عرب ممالک کی مشاورت سے جنگ بندی کی گئی۔
صیہونی اس جنگ میں 40 ہزار سے زائد فوجیوں کے ساتھ داخل ہوئے، جب کہ فضائی، سمندری اور زمینی ہتھیاروں کے لحاظ سے وہ حزب اللہ کی افواج سے بہت برتر تھے نیز صہیونی فوج اپنے آپ کو دنیا کی چھٹی بڑی فوج کہتی تھی۔
33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی پیش قدمی
ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کی طاقت اور فوجی طاقت کا حزب اللہ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا،حزب اللہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں جدید صہیونی ساعر 5 فریگیٹ پر میزائل حملے کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ حزب اللہ حیفا کی اہم بندرگاہ پر میزائل حملہ کرنے میں کامیاب رہی نیز بعد میں اس نے حیفا سے مزید دور کے علاقوں اور قصبوں پر بھی حملہ کیا ،تاہم صہیونی فوج مرکاوا ٹینکوں سے لیس تھی جنہیں وہ ایک مضبوط قلعہ سمجھتی تھی،حزب اللہ ان ٹینکوں کو میزائلوں سے تباہ کرنے اور اپنے دشمن کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچانے میں کامیاب رہی،حزب اللہ نے صیہونی حکومت کے ہیلی کاپٹر کو بھی تباہ کر دیا۔
33 روزہ جنگ میں لبنان کا نقصان
صیہونی حکومت کے حملے خاص طور پر شیعہ علاقوں پر مرکوز تھے،ان حملوں کے نتیجے میں 15000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے، 31 اہم مقامات بشمول ہوائی اڈے، تجارتی اور ماہی گیری کی بندرگاہیں، واٹر ہائیڈرولک اسٹیشن، آئل ریفائنری اور پاور پلانٹس مکمل طور پر تباہ ہو گئے،80 پلوں اور تقریباً 90 کمپنیوں کو شدید نقصان پہنچا، دو ہسپتال مکمل طور پر تباہ اور تین کو شدید نقصان پہنچا،اس جنگ میں ایک ہزار 183 سے زائد لبنانی شہری شہید ہوئے جن میں سے ایک تہائی بچے تھے۔
33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی فوجی طاقت
اس جنگ میں حزب اللہ مقبوضہ علاقوں میں 4000 راکٹ فائر کرنے میں کامیاب رہی اور مجموعی طور پر 165 صہیونی مارے گئے، بعض عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کی دیگر جنگوں کے برعکس اس جنگ میں نہ صرف اس حکومت کی فوج بلکہ آباد کار بھی شامل تھے اور حزب اللہ کے مقبوضہ علاقوں پر حملوں کا صیہونی مادی اور جانی نقصان کے علاوہ کا اثر یہ ہوا کہ صہیونی آبادکاروں نے بھی سمجھ لیا کہ جنگ ان کے خلاف بھی ہے، اس سے نقصان ہو سکتا ہے اور یہ صیہونیوں کے اندرونی محاذ پر ایک ضرب تھی۔
33 روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی ہو نکل گئی
بہت سے عبرانی حلقوں اور ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان کے ساتھ 33 روزہ جنگ کے بعد اندر سے صیہونی حکومت کے خاتمے کا نظریہ بھی مضبوط ہوا،چونکہ آباد کاروں کا فوج اور سیاسی اداروں سے اعتماد ختم ہو چکا ہے، نوجوان صہیونی فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے، الٹی ہجرت کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، عدم تحفظ کے احساس کی بنا پر صہیونیوں نے مقبوضہ فلسطین سے یورپ کی طرف بھاگنا شروع کر دیا ہے نیز صیہونیوں کے درمیان سماجی تقسیم بھی گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔
حماس نے حزب اللہ سے سیکھا ہے۔
صیہونی بحریہ کے آپریشن یونٹ کے سربراہ نے صیہونی اخبار معاریو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہ حزب اللہ بہت چالاک دشمن ہے، کہا کہ حزب اللہ نے 33 روزہ جنگ سے بہت کچھ سیکھا ہے اور حانیت جہاز کو نشانہ بنانے کے بعدصلاحیتوں کو بہتر بناتے ہوئے حملے کے لیے مزید اہداف کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اعلیٰ عہدے کے صہیونی افسر نے صیہونی بحریہ میں اپنے مشن کے اختتام اور اس حکومت کے ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف کا نیا عہدہ سنبھالنے کے موقع پر دیے جانے والے انٹرویو میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ حماس ہمیشہ حزب اللہ سے سیکھتی ہے اور اس کے پیچھے چلنے والی تحریک ہے۔
33 روزہ جنگ کس طرح طوفان الاقصیٰ کے وجود میں آنے کا باعث بنی
صہیونی رہنماؤں اور اعلیٰ افسران کے لیے 33 روزہ جنگ کے ڈراؤنے خواب کے خاتمے کے بعد وہ حماس اور حزب اللہ سمیت مزاحمتی گروپوں کی مقبوضہ علاقوں میں پیش قدمی کے بارے میں 17 سال تک پیشین گوئیاں کر رہے تھے۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد آپریشن کے پہلے ہی گھنٹوں سے شعبا فارمز کی جانب سے اس آپریشن میں حزب اللہ کی شرکت کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں،اس سلسلے میں حزب اللہ نے مقبوضہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر واقع شعبا کے مقبوضہ میدانوں میں صیہونی فوج کے 3 ٹھکانوں کو راکٹوں اور مارٹروں سے نشانہ بنایا ہے۔
الاقصیٰ کے موسم خزاں کے طوفان اور 2006 کی گرمیوں کی جنگ کے درمیان فرق
مقبوضہ علاقوں سے نشر ہونے والی خبروں اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے مجاہدین پر ایک ابتدائی نظر ڈالنے سے ہمیں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی پیشرفت اور موسم گرما اور خزاں کی دو جنگوں میں صیہونی حکومت کے زیادہ کمزور ہونے میں بڑا فرق نظر آتا ہے،طوفان الاقصیٰ کا آغاز ہی مقبوضہ علاقوں کی جانب 5 ہزار راکٹ فائر کرنے سے ہوا جب کہ پوری 33 روزہ جنگ کے دوران مقبوضہ فلسطین کی جانب صرف 4 ہزار راکٹ فائر کیے گئے۔
مزید پڑھیں: کیا حزب اللہ الاقصیٰ طوفان کی جنگ میں داخل ہوگا؟
طوفان الاقصیٰ میں پہلے تین دنوں میں صہیونی میڈیا کی سنسر شدہ خبروں کے باوجود ایک ہزار سے زائد صیہونیوں کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں جبکہ اس کے مقابلے میں 33 روزہ جنگ میں 165 ہلاکتیں ہوئیں یعنی کم از کم 10 گنا اضافہ ہوا.
33 روزہ جنگ کو دو صیہونیوں کی رہائی کے بہانے بھڑکایا گیا اور اس کی وجہ سے ہزاروں بے گناہ لبنانی خواتین اور بچے مارے گئے، لیکن طوفان الاقصیٰ میں 150 صہیونی جن میں اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل ہیں، مزاحمتی گروہوں کے ہاتھ میں ہیں اسیر ہیں،مستقبل میں ان صہیونی اسیران میں سے ہر ایک مزاحمتی گروہ کے لیے ایک عظیم فتح کا آغاز ہوگا جس میں سے حماس کے حکام نے صرف ایک مثال کا ذکر کیا ہے اور وہ ہے صیہونی حکومت کی تحویل میں تمام فلسطینی خواتین کی رہائی کے بدلے میں۔ متعدد صیہونی اسیروں کی رہائی کریں گے،اگرچہ حالیہ برسوں میں مزاحمتی گروہوں نے ہمیشہ صیہونی حکومت کے لیڈروں کو ان کی بستیوں کو نشانہ بنانے اور ان پر کنٹرول کرنے کی تنبیہ کی تھی، آج الاقصیٰ طوفان میں ہم ان حقیقی مظالم کے بوجھ کو دیکھ رہے ہیں۔
آج فلسطینی راکٹ حملوں کی آڑ میں طوفان الاقصیٰ میں صہیونی بستیوں میں داخل ہوئے اور اب وہ 20 بستیوں اور 11 فوجی اڈوں میں موجود ہیں اور یہ پیش قدمی ہر روز جاری ہے، ایک مشہور نظریہ ہے جس کا ماننا ہے کہ پہلی صیہونی بستی پر قبضے کے ساتھ ہی تل ابیب کے باشندے بھاگنا شروع کر دیں گے ،اب فلسطینیوں نے اس نظریے کو پہلی بار چھوٹے پیمانے پر آزمایا ہے۔
صہیونی فوجی حکام کی جانب سے پہلی بار تل ابیب کے ساتھ فوجی جنگ میں فلسطینی ڈرونز کے استعمال کی تصدیق کی گئی،اگر حزب اللہ جنگ میں داخل ہوتی ہے تو ان ڈرون حملوں کو تقویت ملے گی۔
طوفان الاقصیٰ نے غاصب فلسطینی سرزمین کو نشانہ بنایا
33 روزہ جنگ لبنان کے اندر ہوئی لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن 1948 کے مقبوضہ علاقوں کے اندر ہوا۔
دو جنگوں میں عام شہریوں پر حملہ صہیونی جرائم کی مشترکہ خصوصیت
33 روزہ اور طوفان الاقصی دونوں جنگوں میں لبنانی اور فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی فوجی جارحیت کی مشترکہ خصوصیات میں سے ایک عام شہریوں کو نشانہ بنانا ہے، یہ جعلی حکومت اپنے آپ کو فوجی میدان میں کمزور پا کر کر رہائشی علاقوں میں شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیتی ہے، یہ معاملہ ہم نے جنگ تموز میں بھی دیکھا،اس موسم گرما کی جنگ میں ایک ہزار سے زائد لبنانی شہری شہید ہوئے جن کا سب سے بڑا نشانہ خواتین اور بچے تھے اور آج طوفان الاقصیٰ میں 500 سے زائد شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر فلسطینی خواتین اور بچے ہیں۔
آخری بات
حالیہ برسوں میں کئی صیہونی حکام نے مشترکہ بیانات میں اعلان کیا ہے کہ صیہونی حکومت کے خاتمے کا وقت قریب ہے،آج طوفان الاقصیٰ نے اس جعلی حکومت کی تباہی کے حوالے سے صیہونیوں کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کردی،نوم چومسکی جو ایک امریکی سائنس دان اور سماجی نقاد ہیں، غزہ جنگ اور اسرائیل کا خاتمہ کے عنوان سے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 2030 تک اسرائیل دو اندرونی اور بیرونی خطرات کی وجہ سے تباہ ہو جائے گا۔
مشہور خبریں۔
کیا صیہونی جنگی کابینہ کے ہوتے ہوئے غزہ جنگ جیتی جا سکتی ہے؟صیہونی حزب اختلاف کی رائے
🗓️ 27 مئی 2024سچ خبریں: صیہونی حزب اختلاف کے رہنما نے نیتن یاہو کی کابینہ
مئی
امریکی کانگریس کے ملازمین کا اسرائیل کو امداد دینے کے خلاف مظاہرہ
🗓️ 18 مئی 2024سچ خبریں: امریکی کانگریس کے ملازمین نے اسرائیل کو امداد فراہم کرنے
مئی
عوام نے سنی اتحاد کونسل نہیں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا، جسٹس جمال مندوخیل
🗓️ 3 جون 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے قرار دیا
جون
سائنسدان اسمارٹ کھڑکیاں تیار کر نے میں کامیاب
🗓️ 14 فروری 2022لندن (سچ خبریں) موسم گرما میں ایئر کنڈیشنر اور موسم سرما میں
فروری
بحران میں ڈوبی ہوئی موساد
🗓️ 24 مارچ 2022سچ خبریں:صیہونی حکومت اور اس کی خصوصی انٹیلی جنس نیز آپریشنز تنظیم
مارچ
شام کے علاقے دیر الزور میں کئی راکٹ گرے
🗓️ 26 اگست 2022سچ خبریں: صابرین نیوز ٹیلی گرام چینل نے جمعہ کی صبح
اگست
امریکا کا پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان
🗓️ 19 دسمبر 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل
دسمبر
کراچی: ایرانی صدر اور وزیراعلیٰ سندھ کی ملاقات، دو طرفہ اقتصادی صورتحال پر تبادلہ خیال
🗓️ 24 اپریل 2024کراچی: (سچ خبریں) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی گزشتہ روز کراچی کے
اپریل