سچ خبریں:سیاسی صورتحال کے ماہرین اور مبصرین کا خیال ہے کہ ریاض اور ابوظہبی کے درمیان اختلافات کی جڑ یمن میں دونوں ممالک کے مختلف مفادات ہیں۔
یمن کی جنگ مغربی ایشیائی خطے کی سب سے طویل اور مہنگی کلاسک لڑائیوں میں سے ایک ہے،منصور ہادی کی حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد عوامی مظاہروں کی شدت کے جواب میں شمالی یمن میں نہایت ہی گہرا اثر و رسوخ رکھنے والی اس ملک کی عوامی تحریک انصاراللہ قومی نجات حکومت کی تشکیل کے لیے آگے بڑھی اور صنعاء میں ایک نئی سیاسی کابینہ تشکیل دی جس کی مخالفت میں ریاض اور ابوظہبی جنہوں نے اسلامی بیداری کی لہروں کے آغاز سے ہی انسداد انقلابی بلاک تشکیل دیا، جس کا مقصد باب المندب کے اسٹریٹجک علاقے میں ایک آزاد حکومت کی تشکیل کا مقابلہ کرنا تھا لہذا انہوں نے آبنائے مندب اور جزیرہ نما عرب کی جنوبی سرحدوں میں مزاحمتی محور کے اثر و رسوخ کی توسیع کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کے غریب ترین ملک یمن پر زبردست فوجی حملہ کیا، تاہم اب اس علاقائی بحران کے تقریباً آٹھ سال کے بعد اور یمن کی جائز حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد ابوظہبی نے آہستہ آہستہ خلیج فارس کے علاقے میں اپنے اسٹریٹجک اتحادی سعودی عرب سے اپنا راستہ الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ایسی پالیسی جو ان دو پرانے شراکت داروں کے درمیان شدید اختلافات کا باعث بنی ہے۔
تاہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ریاض اور ابوظہبی یمن میں فوجی کاروائیوں کو ختم کرنے اور نیشنل سالویشن حکومت کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے رہے ہیں، اس بنا پر اس تجزیے میں ہم یمن کے معاملے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے جنوبی عبوری کونسل کی حمایت
ریاض اور ابوظہبی کے درمیان اختلافات کی جڑ یمن میں دونوں ممالک کے مختلف مفادات ہیں، سعودی یمن میں قومی نجات کی قانونی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور اپنی جنوبی سرحدوں میں مزاحمتی بنیادوں کی تشکیل کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرفاماراتی اس ملک میں تین بڑے اہداف حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں ؛
1۔ مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ تعاون۔
2۔ خطے میں اخوان المسلمین کو کمزور کرنا۔
3۔ یمن کے جنوبی ساحلی علاقوں میں تجارتی لاجسٹکس لائن کی تشکیل۔
یہ مختلف اہداف ابوظہبی اور ریاض کے درمیان بتدریج اختلاف کا سبب بنے ہیں،جنوبی عبوری کونسل کے لیے متحدہ عرب امارات کی حمایت،اصلاحی اخوانی تنظیم کے لیے سعودی حمایت اور یمن کے جنوبی علاقوں میں اثر و رسوخ کی توسیع، خاص طور پر اسٹریٹجک سقطری جزیرہ نما، یمن کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے نکات میں شامل ہیں۔
یمن کے جنوبی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اماراتیوں نے نہ صرف جنوبی عبوری کونسل کے ساتھ اتحاد کی پالیسی اختیار کی بلکہ عمالقہ جیسے ملیشیا گروپ بنا کر اس ملک کے ساحلی علاقوں میں ان کو تعینات کی اور اس طرح بحیرہ احمر کی شپنگ لائنوں کو متاثر کرنے کی بنیاد فراہم کی،جنوبی علاقوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے جنوب کی عبوری کونسل کو خلیج عدن اور آبنائے باب المندب کی طرف جانے والی آبی گزرگاہوں پر سعودی کنٹرول کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے،اس کونسل کے قریبی عہدیداروں نے سرکاری فورمز میں کھلے عام اعلان کیا کہ وہ سعودی فوجی اتحاد سے مختلف مقاصد حاصل کر رہے ہیں اور اپنے منصوبوں کو حاصل کرنے کے لیے انصاراللہ تحریک کے ساتھ حکمت عملی کے ساتھ اتحاد بھی کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب یمن میں سعودی سفیر محمد آل جابر نے عبوری کونسل کو مخاطب کرتے ہوئے بالواسطہ ٹویٹ میں اس بات پر زور دیا کہ جو بھی یمنی فوج (!) کی پیش قدمی میں رکاوٹ ڈالے گا اسے بلا شبہ سزا دی جائے گی، اس سکے کا دوسرا رخ یمن کی قومی سالویشن گورنمنٹ کے ریاض کے ساتھ رمضان کے مقدس مہینے میں سیاسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے غیر سرکاری مذاکرات ہیں،اس معاہدے کے مطابق نیشنل سالویشن حکومت یمن کے شمالی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لے گی اور حدیدہ بندرگاہ کو استعمال کرنے کا امکان فراہم ہوگا،اس معاہدے سے ریاض کو نسبتاً پرامن انتظام میں یمن سے نکلنے کے امکانات تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ ابوظہبی اور ریاض انصاراللہ مزاحمت کی خصوصی پوزیشن کو محسوس کرتے ہوئے، مختلف سفارتی ذرائع سے اس یمنی گروہ کے ساتھ مذاکرات کرنے اور یمن سے کم لاگت کے انخلاء کے معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سقطری کے قبضے پر مقابلہ
جغرافیائی نقشے واضح طور پر یمن کے جنوبی پانیوں میں سقطری کے تزویراتی جزیرہ نما کی خصوصی پوزیشن کو ظاہر کرتے ہیں،یہ اسٹریٹجک پوائنٹ بحر ہند سے خلیج عدن اور ہارن آف افریقہ ریجن (صومالیہ، صومالی لینڈ، جبوتی اور اریٹیریا) تک سامان۔توانائی کی منتقلی کے راستے پر ایک پلیٹ فارم کی طرح ہے جو عالمی معیشت کی شریانوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے،اس کے علاوہ یہ جزیرہ عمان کی السلالہ بندرگاہ اور یمن کی عدن بندرگاہ کے درمیان رابطے کے لیے کام کر سکتا ہے، اسی بنیاد پر اماراتیوں نے صیہونی حکومت کے تعاون سے افواج کی منتقلی اور اس اسٹریٹجک جزیرے میں جاسوسی کے آلات، ٹیلی کمیونیکیشن، فوجی تنصیبات، رہائشی طبی علاقوں کی تعمیر کے لیے منصوبہ بندی شروع کی، یہاں تک کہ بعض ذرائع اماراتی فریق کی مدد سے اس یمنی جزیرے پر اسرائیلی سیاحوں (صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس فورسز) کے سفر کی اطلاع بھی دیتے ہیں۔
خلاصہ
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق محمد بن سلمان اور محمد بن زائد جان بوجھ کر کسی سعودی یا اماراتی کی جانب سے منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت نہیں کرنا چاہتے،اس پالیسی کی ایک تازہ مثال ریاض میں چین عرب دنیا کے اجلاس میں متحدہ عرب امارات کے حکمران کی عدم شرکت تھی، اس کے علاوہ سعودی ولی عہد نے جنوری میں ابوظہبی اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی، ماہرین کا خیال ہے کہ غیر ملکی سرمائے کی کشش پر اختلافات، تیل کی عالمی منڈیوں کے حوالے سے پالیسیوں کا تعین (متحدہ عرب امارات تیل کی پیداوار بڑھانے کے حق میں اور سعودی عرب تیل کی پیداوار میں کمی کے حق میں) اور یمن میں جنگ تین مسائل ہیں جن کی وجہ سے دونوں ممالک کشیدہ مقابلے کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔
شائع شدہ خبر کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بنیادی اختلاف یمن کے معاملے اور انصاراللہ تحریک کے ساتھ تعامل کی نوعیت پر ہے تاکہ سعودی عرب کے جنوبی ہمسایہ ملک کے سیاسی مستقبل کا تعین کیا جا سکے نیز یمن کے جنوبی علاقوں میں متحدہ عرب امارات کے اثر و رسوخ نے سعودی عرب کو خطے میں جغرافیائی سیاسی تبدیلی اور یمن میں اپنے اتحادیوں کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فکر مند بنا دیا ہے۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ علاقائی صورتحال کی تیز رفتاری اور بیجنگ معاہدے (ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ) کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ خیال جنگ کا خاتمہ ہے اور صنعاء کی جائز حکومت کے ساتھ امن کی منزل تک پہنچنا ہے، قومی وژن دستاویزات کی بنیاد پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خلیج فارس کے علاقے میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کمپنیوں اور سرمایہ کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،اس حکمت عملی کا پہلا ستون سکیورٹی کو یقینی بنانا اور پڑوسیوں کے ساتھ تناؤ کو کم کرنا ہے جبکہ ابوظہبی اور دبئی کے ہوائی اڈوں پر انصاراللہ کے ڈرون میزائل حملوں یا آرامکو کی تیل تنصیبات پر تاریخی حملے نے ان دونوں عرب ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کہ اگر انہوں نے یمن کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی تو وہ ان کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ یمن نیشنل سالویشن گورنمنٹ کے حملوں کے لیے تیار رہنا ہوگا، اس بنیاد پر دونوں ممالک مختلف ذرائع سے صنعاء کی جائز حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے اور اس جنگ سے باعزت طور پر باہر نکلنے کے لیے کوشاں ہیں۔