سچ خبریں:فلسطین ورلڈ کپ کا چیمپئن بن گیا، یہ وہ جملہ ہے جو عرب دنیا کے سوشل میڈیا میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا، سوشل میڈیا نے فلسطین کو 2022 قطر ورلڈ کپ کا چیمپیئن بنانے کا اعلان کیا۔
عربی پوسٹ کے مطابق، "فلسطین ورلڈ کپ کا چیمپئن بن گیا”، یہ وہ جملہ ہے جو عرب دنیا کے سوشل نیٹ ورکس میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوا،سوشل میڈیا نے فلسطین کو قطر میں ہونے والے 2022 ورلڈ کپ کا چیمپیئن بنانے کا اعلان کیا ، صہیونی میڈیا نے بھی اپنی بعض رپورٹس میں اس کا اعتراف کیا،تاہم صہیونی اس بات پر حیران ہیں کہ دنیا بھر کے شائقین نے ان کے خلاف نعرے لگائے اور صہیونی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دینے سے انکار کردیا، برطانوی اخبار گارجین کے مطابق اگرچہ اسرائیل اور فلسطین نے قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت نہیں کی لیکن قطر میں فلسطین کی نمایاں موجودگی تھی۔
قطر ورلڈ کپ میں فلسطین
جب کہ Fédération Internationale de Football Association (FIFA) اور دیگر بین الاقوامی کھیلوں کی تنظیموں نے باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ سیاست اور کھیلوں کو الگ ہونا چاہیے لیکن مغربی ممالک نے 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سیاست کو مضبوطی سے کھیلوں میں لایا ہے۔ اس لیے وہ مسئلہ فلسطین کے فروغ کو کھیلوں میں نہیں روک سکتے، درحقیقت دوحہ میں ہونے والا 2022 کا ورلڈ کپ مسلمانوں اور فلسطینیوں کے لیے دنیا کے اہم ترین بین الاقوامی مقابلوں میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے نیز دنیا کو صیہونی حکومت کے جرائم سے آگاہ کرنے کا موقع بنا۔
برطانوی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی پرچم ایک ایسی علامت بن گیا ہے جو 2022 کے ورلڈ کپ کی سرگرمیوں کے دوران ایک مضبوط موجودگی رکھتا ہے اور عرب ٹیموں کے شائقین اسٹیڈیم مین فلسطینی پرچم لہرانے اور فلسطینی رومال گلے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں، قطر نے فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کو ان کی زمینوں پر قبضے کا مسئلہ اٹھانے کے لیے فین زون میں ایک مناسب جگہ بھی فراہم کی ہے، اس سے بڑھ کر ایک دلچسپ اقدام میں قطری حکومت نے قطری عمارتوں پر فلسطینی پرچم آویزاں کر دیا ہے۔
ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب اور قطر اور ایکواڈور کے درمیان البیت سٹیڈیم کے سٹینڈز میں ہونے والے افتتاحی میچ میں بھی فلسطینی پرچم لہرایا گیا اور کچھ شائقین سیاہ اور سفید فلسطینی رومال پہنے نظر آئے اس کے علاوہ عالمی کپ کے افتتاحی کھیل کے آغاز سے قبل لوسیل کے علاقے میں فلسطینی کاز کی حمایت میں ترانے کے علاوہ فلسطینیوں کی شرکت کے ساتھ کھیلوں اور فنی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا گیا،اس کھیل کے میدان میں فلسطینی کارکنوں نے فلسطینی پرچم اور رومال تقسیم کیے اور شائقین کو صیہونی حکومت کے قبضے کے نتیجے میں فلسطینیوں کے مصائب سے آگاہ کیا۔
قطریوں نے جرمن وزیر کو فلسطینی کاز کی حمایت میں بیجز پہن کر جواب دیا
ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی تصاویر اور روئٹرز کی تصدیق کے مطابق بدھ کے روز جاپان اور جرمنی کے ورلڈ کپ میچ کے دوران متعدد قطریوں نے فلسطینی رومال کے رنگوں میں بازو پر پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔ اسی دن جرمن وزیر داخلہ نینسی ویزر نے ہم جنس پرستوں کی حمایت کے لیے OneLove بیج پہنا،تاہم عرب دنیا نے مغرب کے دوغلے پن کو خوب بے نقاب کیا جو فلسطینی عوام کے مسئلے اور ان کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کو نظر انداز کرتا ہے جس کی 70 سال کی تاریخ ہے اور ایک ایسا اخلاقی مسئلہ اٹھاتا ہے جس میں پوری دنیا کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔
عرب شائقین فلسطین کی حوسلہ افزائی کر رہے ہیں
تیونس، سعودی عرب اور الجزائر کے شائقین نے میچوں میں فلسطینی پرچم نمایاں طور پر اٹھا رکھے تھے اور انہیں اسکارف کے طور پر پہنا تھا، گزشتہ جمعرات کو رندہ احمر نامی نوجوان فلسطینی خاتون نے دوحہ کے واقف بازار میں فلسطینی پرچم ہاتھ میں لیے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا ملک ہے، ہم ہر جگہ اپنا پرچم لہرائیں گے اسی طرحعرب اور بین الاقوامی فٹ بال شائقین نے نعرے لگائے کہ ہم فلسطین پر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، انہوں نے فلسطین اور قطر کے جھنڈے ایک ساتھ لہرائے،ایک شامی خاتون شائقین نے نعرہ لگا رہی تھی کہ ہمارا خون فلسطینی ہے اور ہم سب فلسطین کے کاز کی حمایت کرتے ہیں، جسے الجزائر اور تیونس کی دو دیگر خواتین شائقین نے دہرایا۔
واضح رہے کہ ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے قطر جانے والے اسرائیلی صحافیوں سے عرب شائقین کی گفتگو کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع ہوئی ہیں جس میں انہوں نے صیہونی حکومت کے قبضے کو غیر قانونی قرار دینے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو مسترد کرنے کی تصدیق کی ہے،گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک مصری فٹ بال شائق نرمی سے مسکرا رہا ہے جب کہ ایک اسرائیلی میڈیا کے ذریعے پروگرام لائیو دکھایا جا رہا ہے، وہ نعرہ لگا رہا ہے: ‘فلسطین زندہ باد،'” ایک اور کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ دوحہ کی سڑکوں پر لبنانی نوجوانوں کا ایک گروپ ایک رپورٹر کو انٹرویو دینے سے انکار کررہا ہے جب وہ بتایا ہے کہ میں اسرائیل ہوں ،ان میں سے ایک چیختا ہے: اسرائیل کا وجود نہیں ہے اور دنیا میں صرف فلسطین نام کا ایک ملک موجود ہے۔
فلسطینی پرچم مفت دیا جاتا ہے۔
اتوار کے افتتاحی میچ سے پہلے، قطری نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایک بڑا فلسطینی جھنڈا اٹھا کر البیت اسٹیڈیم کی طرف مارچ کرتے ہوئے "سب کو خوش آمدید” کہا، ان میں سے ایک نے گارڈین کو بتایا کہ ہمیں فلسطینی عوام کا خیال ہے اور تمام مسلمانوں اور عرب ممالک نے فلسطینی پرچم بلند کیا ہے،ورلڈکپ میں شریک ممالک کے جھنڈے بیچنے والے سعودی نوجوان نے فلسطینی پرچم اور رومال مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا،انہوں نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فلسطینی پرچم کو تقسیم کیا جائے اور اسے فروخت نہ کیا جائے، میں فلسطین اور اس کے کاز کی حمایت کے لیے اتنا ہی کر سکتا ہوں کیونکہ تمام عرب اور مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور اس منصفانہ مقصد کی حمایت کرتے ہیں،فیفا نے اسرائیلیوں کو دوحہ جانے کی اجازت دینے کے لیے قطر کے ساتھ اپنے معاہدے کا اعلان کیا اور ٹورنامنٹ کے آغاز سے اب تک تقریباً 4000 اسرائیلیوں اور 8000 فلسطینی شائقین کو قطر میں داخلے کے لیے ویزے مل چکے ہیں جبکہ صیہونی وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ ان مقابلوں میں 20 ہزار اسرائیلیوں کی شرکت متوقع ہے۔
صیہونی خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ قبرصی ہیں
اسرائیلی شہری ڈوبی نو نے ہفتے کے آخر میں دوحہ پہنچنے کی تیاری کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ٹورنامنٹ میں فلسطینیوں کی سرگرمیوں کی رپورٹوں کو تشویش کے ساتھ دیکھا، انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ قطری استقبال کریں گے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ایک اور صہیونی شخص، جس نے صرف اپنا پہلا نام (بہا) بتایا، کہا کہ قطر میں میچوں کی تنظیم اور ماحول بہت اچھا ہے، لیکن ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں کے شائقین کی اکثریت اسرائیلیوں کی موجودگی کو قبول نہیں کرتی، قطر میں موجود ایک اور صہیونی عمر لوفر نے کہا کہ ہم عرب ممالک سے آنے والے شائقین سے کہتے ہیں کہ ہم قبرص سے ہیں۔ لیکن صہیونی نہ صرف عرب اور مسلم شائقین کے اپنے ساتھ برتاؤ سے پریشان ہیں بلکہ وہ اسٹینڈز میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بھی ناراض ہیں کیونکہ پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔
فلسطینی ورلڈ کپ کو اسرائیل کے خلاف گول مارنے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں؟
فلسطینیوں نے محسوس کیا کہ قطر میں ہونے والا ورلڈ کپ جو دنیا کا سب سے بڑا کھیلوں کا ایونٹ ہے، دنیا کو ان کے مسئلے سے آگاہ کرنے کا ایک منفرد موقع ہے اور اس طرح کا موقع شاید دوبارہ نہ مل سکے، اسرائیل ہیوم کے مطابق "فلسطین ان دی ورلڈ کپ” مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے، جس میں سٹیڈیمز میں فلسطینی ٹی شرٹس اور جھنڈوں کی تقسیم اور سٹینڈز میں "فلسطینی سفیروں” کا قیام شامل ہے،قطر میں 2022 ورلڈ کپ کے دوران اسرائیل کے خلاف فلسطینی کوششوں کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے لیے کئی سوشل میڈیا مہمات بھی چلائی گئیں، جس میں درجنوں ممالک کے شائقین کو اکٹھا کیا گیا۔ مثال کے طور پر "Palestinian Dream” کے عنوان سے ایک ٹویٹر مہم نے اعلان کیا کہ ورلڈ کپ کے دوران فلسطین کی حمایت کریں اور فلسطینی کاز کو دنیا کے سامنے اجاگر کریں۔ اس کے علاوہ ڈیزائنر کا اشتہار جس کا عنوان تھا ’’آپ ورلڈ کپ میں فلسطین کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں‘‘،اسے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے، جس میں تجویز کیا گیا کہ ہاتھ کے کڑوں اور بازو بندوں کے علاوہ فلسطینی پرچم کے ساتھ اسکارف اور کپڑوں کا استعمال کیا جائے، اس کے ساتھ فلسطینی پرچم کے رنگوں میں ایک رومال بھی استعمال کیا جائے،اس مہم میں عرب عوام اور قطر کے ورلڈ کپ کے شائقین سے کہا گیا ہے کہ وہ سٹیڈیم کے اردگرد سیڑھیوں، پلیٹ فارمز، چوکوں اور جہاں مختلف ٹیمیں جمع ہوتی ہیں فلسطین کی بات کریں۔
یورپیوں نے یوکرین کے جھنڈے اٹھائے تو عرب اور مسلمان فلسطین کے جھنڈے کیوں نہ اٹھائیں؟
فیفا کے قوانین فٹ بال اور سیاست کو ملانے سے منع کرتے ہیں، لیکن یورپیوں نے یوکرین کی وجہ سے ان قوانین کو توڑا اور سزا نہیں دی گئی، جو یقیناً مغرب کے دوہرے معیار کی ایک مثال ہے، روسی حملے کے بعد UEFA اور FIFA نے کئی طریقوں سے یوکرین کو غیر مشروط مدد فراہم کی، مشرقی یوکرین پر حملے کے صرف چار دن بعد ہی روسی قومی ٹیم اور کلبوں پر 2022 کے ورلڈ کپ اور ان کے یورپی مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کر دی گئی، حال ہی میں پولینڈ کی قومی ٹیم کے کپتان رابرٹ لیوینڈوسکی نے اعلان کیا کہ وہ ورلڈ کپ میں یوکرین کے پرچم کے رنگ کا کپتان کا بازو باندھیں گے،اس حوالے سے مارچ 2022 میں لندن میں ہونے والی آپٹاسیا چیمپئن شپ جیتنے والے مصری اسکواش کھلاڑی عمر فراج نے خوبصورت انداز میں کہا کہ ہمیں کبھی بھی کھیلوں میں سیاست پر بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن اچانک اس کی اجازت مل گئی، اس لیے اب جب اجازت مل گئی ہے تو مجھے امید ہے کہ لوگ دنیا میں ہر جگہ ہونے والے ظلم و جبر کو دیکھیں گے اور جان لیں گے کہ پچھلے 74 سالوں میں فلسطینیوں پر کتنا ظلم ہوا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اب جب کہ ہم یوکرین کے بارے میں بات کر سکتے ہیں، تو فلسطینیوں کے بارے میں بھی بات کر سکتے ہیں، لہذا براہ کرم اسے یاد رکھیں، صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف منتظمین میں سے ایک ردہ یاسین نے وضاحت کی کہ ان کے اس اقدام کی تحریک روس اور یوکرائنی جنگ تھی کیونکہ یورپی ممالک کے کھیلوں کے اسٹیڈیموں میں شائقین نے روسی جارحیت کے خلاف احتجاج میں یوکرین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ جیسا کہ یورپی ممالک یوکرین کی حالت زار پر بات کرتے ہیں، ہمیں بھی مسئلہ فلسطین پر بات کرنے کا حق ہے، خاص طور پر چونکہ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی عرب ملک ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے،مہم کو فروغ دینے میں شامل کارکنوں کا کہنا تھا کہ اس کا ایک مقصد دوحہ میں کھیلوں اور میڈیا کے تجزیہ کاروں کو عالمی کپ کے دوران فلسطینی جدوجہد کے بارے میں بات کرنے کی ترغیب دلایا ہے۔
فیفا ورلڈ کپ کے مہینے کے دوران فلسطین کی حمایت میں مزید اقدامات متوقع ہیں، ان میں مسئلہ فلسطین پر مواد تقسیم کرنے کے لیے ’’میڈیا کیمپ‘‘،اس کیمپ کے کارکن دنیا بھر کے شائقین سے براہ راست رابطہ کرکے ان کے سامنے مسئلہ فلسطین پیش کرتے ہیں،مشہور اسپورٹس رپورٹر حفیظ دراجی، جو beIN SPORTS عالمی چینل کے لیے کام کرتے ہیں، نے فلسطینی ڈریم مہم میں شامل ہونے کے لیے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ انشاء اللہ قطر میں ہر جگہ فلسطینی پرچم لہرائے گا، اسرائیل کے ساتھ سازش کرنا غداری، ذلت اور شرمندگی ہے، جو لوگ اس سے متفق ہیں وہ بزدل ہیں اور جو اس کا جواز پیش کرتے ہیں وہ احمق ہیں،عالمی کپ میں #Palestine” کے نعرے کے ساتھ ایک اور اقدام نے "آزاد فلسطین” اور "عربی بیت المقدس” کے موضوعات والے بینرز تقسیم کئے،اس کے علاوہ، شرکاء سے کہا گیا کہ وہ ورلڈ کپ میں فلسطینی حامی سرگرمیوں کی فلم اور دستاویز اکٹھی کریں اور انہیں سوشل میڈیا پر شئر کریں،اس کے علاوہ، قطر نے فلسطینیوں کی قدردانی کرنے کے لیے دیوہیکل اسکرینوں کے ساتھ دو مغربی کنارے اور غزہ میں”ویونگ زون” فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، غزہ کے وسط اور رام اللہ میں بھی میچ دیکھنے شائقین کے لیے ایک اسپورٹس ہال تیار کیا گیا ہے،قطر کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے فلسطین میں اپنے ان بھائیوں کا خیال رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جو اسرائیلی غاصب حکومت کے جرائم سے ہر روز مصائب کا شکار ہوتے ہیں اور اس ورلڈ کپ کی خوشیوں کو فلسطینی عوام کے ساتھ بانٹنے کے لیے ا ان کی جدوجہد ہمیشہ جاری رہے گی۔
تیونس کے شائقین نے 48ویں منٹ میں فلسطینی پرچم لہرایا
فلسطین کی حمایت میں ایک انتہائی علامتی اقدام میں، تیونس کے شائقین نے 26 نومبر 2022 بروز ہفتہ اپنے آسٹریلیا کے خلاف تیونس کی قومی ٹیم کے میچ کے 48 ویں منٹ میں فلسطینی پرچم بلند کرکے 1948 کے سانحے کی یاد منائی، مراکش کے شائقین نے بھی کروشیا کے خلاف اپنے ملک کے میچ کو الجزیرہ کی فلسطینی رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کے لیے انصاف کے حصول کے لیے استعمال کیا جو اس سال کے شروع میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں جینن پر اسرائیلی فوجی حملے کی کوریج کرتے ہوئے شہید ہو گئی تھیں،شائقین نے "نو ٹو نارملائزیشن” کے نعرے والے پوسٹر اٹھا رکھے تھے اور ٹی شرٹس پہنے ہوئے تھے جس پر صحافی کا چہرہ چھپا ہوا تھا اور اس کی پریس جیکٹ نظر آ رہی تھی۔
یہ صرف عرب سامعین تک محدود نہیں تھا۔
لوسیل اسٹیڈیم میں "میں فلسطینی ہوں” کے عنوان سے منعقد ہونے والی اس تقریب میں نہ صرف عرب اور فلسطینی شائقین بلکہ غیر عرب اور غیراسلامی ممالک کے شائقین بھی شامل ہوئے ، ارجنٹائن کے ایک مداح نے کہا کہ آزاد فلسطین، مشہور فلسطین، یہ تقریب قطر کے معاون وزیر خارجہ لولوا الخطر کی جانب سے ٹورنامنٹ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد منعقد ہوئی، انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین سے اپنے ہزاروں بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ورلڈ کپ منانے کی توقع رکھتے ہیں اور یہاں ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کا مقصد ہمارے ضمیر میں رہے گا۔