سچ خبریں: اسرائیل کے فوجی اور سکیورٹی حکام نیتن یاہو کو ہر ممکن حد تک برداشت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اگر انہیں ان کے اور سپریم کورٹ کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا تو صورت حال مختلف ہو گی۔
عدالتی نظام میں وسیع تر تبدیلیوں کے بل پر پیدا ہونے والی کشیدگی اور سپریم کورٹ کے کمزور ہونے کے بعد صیہونی حکومت کا بحران اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے جس نے کابینہ کے ساتھ سکیورٹی اور فوجی حکام کے تعلقات اور تعامل کو بھی اپنے عروج پر پہنچا دیا ہے۔
اسرائیلی حلقوں میں یہ سوال کثرت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ صیہونی حکومت کے عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز، جسے نیتن یاہو کی کابینہ "اصلاحات” کا نام دیتی ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات میں بہت حد تک کمی کر دے گی، اس طرح کہ یہ عدالت اب کابینہ کی منظوریوں کی نگرانی نہیں کر سکے گی۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو کے خلاف فوجی بغاوت کے آثار
مخالفین اس منصوبے کو نیتن یاہو کی سیاسی بغاوت اور اس کی آمریت سے تعبیر کرتے ہیں جس کے خلاف وہ مہینوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں جہاں گزشتہ مہینوں کے دوران قابض بیت المقدس کی فوج کے سینکڑوں ریزرو دستوں نے جن میں سینکڑوں پائلٹ بھی شامل ہیں، فوج میں خدمت کرنا چھوڑ دی ہے۔
تاہم، گزشتہ چند دنوں میں نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے ارکان اور اسرائیلی سکیورٹی اور فوجی حکام کے درمیان کشیدگی کی بہت سی اطلاعات موصول ہوئی ہیں یہاں تک کہ نیتن یاہو نے ایک میٹنگ میں صیہونی مسلح افواج کے سربراہ ہرتزی ہلوی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ قرار دیا، اس کے علاوہ داخلی سلامتی کے وزیر اتمار بین گوئیر اور چیف آف پولیس یعقوب شیبتائی کے درمیان کل بھی زبانی کشیدگی ہوئی نیز حال ہی میں صہیونی آرمی نیوی کے ڈپٹی کمانڈر اور سربراہ اوفر ڈورون کو برطرف کر دیا گیا؛ لیکن ایک مسئلہ جسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے وہ ہے داخلی سلامتی کے وزیر اور پولیس چیف کے درمیان کشیدگی۔
ہوا یوں کہ یعقوب شیبتائی نے اسرائیلی حکومت کی پولیس کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے گزشتہ روز کہا تھا کہ پولیس قانون کے تابع ہے نہ کابینہ کے فیصلوں کی اور یہ کہ پولیس سپریم کورٹ کے کسی بھی حکم پر عملدرآمد کرے گی،ایسا بیان جو نیتن یاہو کے متنازعہ وزیر ایتمار بن گوئیر کو اچھا نہیں لگا جس کے بعد انہوں نے کہا کہ پولیس کو ایسی حکومت کے تابع ہونا چاہئے جو اکثریت کے ووٹ پر بنی ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی میڈیا میں نیتن یاہو کی کابینہ کے ساتھ فوج اور سکیورٹی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے چرچے رہے ہیں اور کئی بار نیتن یاہو کے خلاف ’بغاوت‘ کی باتیں بھی ہو چکی ہیں لیکن کل کی باتیں نیز بن گوئیر اور یعقوب شیبتائی کے درمیان کھلے عام محاذ آرائی نے ظاہر کیا کہ اس معاملے کو مزید گہرائی سے دیکھنا چاہیے۔
یاد رہے کہ اب تک اسرائیل میں سینکڑوں فوجی دستوں نے عدالتی اصلاحات پر مبنی بل کے خلاف بغاوت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اب ریزرو یونٹ میں خدمات انجام دینے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اس بار یہ آئینی گرہ کا سوال ہے۔
اس سلسلے میں صفد یونیورسٹی میں قانون کی فیکلٹی کے سربراہ اور صیہونی حکومت کے قومی سلامتی کے ادارے کے سینئر محقق محمد وتد نے حال ہی میں I24چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فوجی بغاوت کے امکان کے بارے میں بات کی۔
اس صہیونی محقق نے بغاوت کے حالات کے بارے میں کہا کہ اگر سپریم کورٹ Knesset کے فیصلے کو قبول نہیں کرتی ہے، جو کہ عدالتی نظام کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش ہے، اور فورسز کے درمیان تصادم ہوتا ہے، تو ہم ایک فوجی بغاوت کو دیکھیں گے،یہ بات تمام اسرائیلی سیکورٹی شخصیات کے گہرائی سے تجزیہ پر مبنی ہیں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عدالت کے حق میں کھڑے ہوں گے۔
اس دوران آن لائن اخبار انڈیپنڈنٹ نے صیہونی فوج اور سکیورٹی اداروں اور نیتن یاہو کی کابینہ کے درمیان کشیدگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل ایک غیر معمولی آئینی بحران میں داخل ہو گیا ہے،صہیونی سکیورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ یعقوب شبیطائی کے الفاظ تمام فوج اور فوج کے کمانڈروں کا مشترکہ موقف ہے۔
فلسطینی سیاسی محقق نداف ایال نے انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ اگر فوج، موساد اور شن بیٹ کے کمانڈر نیتن یاہو کی کابینہ اور کنیسٹ کے فیصلوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گے تو وہ بلاشبہ آئین کا انتخاب کریں گے۔ ۔ وہ ہوں گے۔
لیکن یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کی پولیس دیگر فوجی اور سکیورٹی اداروں سے زیادہ سیاسی ہے اس لیے کہ یہ عدلیہ کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر معاملات کرتی ہے، اور یہ کہ ایتمار بن گوئیر بطور وزیر داخلہ یعقوب شیبتائی کو برطرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، لہٰذا ایسی صورت حال میں کہ جب پولیس کابینہ اور فوج کے ماتحت ہو اور اس کے مقابلے میں شباک اور موساد سپریم کورٹ کے تابع ہوں تو صیہونیوں کے لیے صورت حال بہت زیادہ پیچیدہ اور نازک ہو جائے گی۔
دوسری جانب واضح رہے کہ صیہونی حکومت کا سنسرشپ آلہ اس حکومت کے بحران کو چھپانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے اور عبرانی میڈیا میں نظر آنے والی خبروں کو اس بحران کا ایک چھوٹا سا حصہ سمجھا جاتا ہے، اسی سلسلے میں 17 اگست کو مقبوضہ فلسطین سے شائع ہونے والے اخبار ہارٹیز نے اپنی ایک رپورٹ میں صہیونی فوج میں شدید سنسر شپ کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیلی فوجی حکام بغاوت کرنے والے فوجیوں کے حقیقی اعدادوشمار کو شائع کرنے سے روک رہے ہیں جنہوں نے بغاوت کی اور فوج میں خدمت کرنے سے انکار کیا۔
ایک اسرائیلی فوجی ذریعے نے ہاریٹز کو بتایا کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ اسرائیل کے دشمن فوجی دستبرداری کے اصل اعدادوشمار کا غلط استعمال کریں گے،ادھر نیتن یاہو نے بھی بحران کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور فوجی حکام کے ساتھ ملاقات میں ان سے کہا ہے کہ وہ فوج کے بحران پر بات نہ کریں، بلومبرگ چینل کی ویب سائٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں نیتن یاہو نے موجودہ بحران کو دو مختلف نظریات کے فطری تصادم تک کم کرنے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ آخر کار تمام فریق ایک مشترکہ نقطہ نظر تک پہنچ جائیں گے۔
رپورٹر کے سوال کے جواب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالتی تبدیلیوں کا قانون اسرائیل کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرے گا اور نہ ہی خانہ جنگی کا باعث بنے گا لیکن شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب اسرائیلی ویب سائٹیں یا اخبارات میں عسکری حکام اور نیتن یاہو کی کابینہ کے درمیان کشیدگی کے بارے میں کوئی رپورٹ شائع نہ ہوتی ہو۔
مزید پڑھیں: نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف بغاوت
اسرائیلی عسکری تجزیہ کار آموس ہیریئل کے مطابق نیتن یاہو اور فوجی کمانڈروں کے درمیان ہونے والی ہر ملاقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے،یاد رہے کہ موجودہ صورت حال کو صیہونی حکومت کے قیام کے بعد سے بدترین داخلی بحران قرار دیا جا سکتا ہے، یہ صورت حال کسی بھی طرح سابقہ اندرونی بحرانوں سے ملتی جلتی نہیں ہے لہذا صیہونیوں کو یا تو نیتن یاہو کو ہٹانے کا فیصلہ کرنا چاہیے یا عدالتی بل کی حتمی منظوری سے روکنا چاہیے؛ ایک ایسا بل جس نے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے، ابھی کل ہی اسرائیلی میڈیا نے لکھا ہے کہ 85% اسٹارٹ اپ اپنی کمپنیاں امریکہ منتقل کر رہے ہیں، اور جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرگرم درجنوں کمپنیوں کو ہجرت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ سیاحت سے لے کر ہوٹل مینجمنٹ سے لے کر فوج اور موساد تک نیتن یاہو کے عدالتی بل سے شدید دھچکا لگے گا۔