سچ خبریں:انڈونیشیا سے اس کے صیہونی مخالف رویے کی وجہ سے یوتھ فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی چھین لی گئی کیونکہ قطر کے 2022 کے ورلڈ کپ نے یہ ظاہر کر دیا کہ اسلامی دنیا مسلط کردہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور اس غیر قانونی ریاست کو قانونی حیثیت نہیں دے سکتی۔
انڈر 20 فٹ بال ورلڈ کپ جس کی میزبانی اس سال انڈونیشیا کو کرنا تھی، صیہونیوں کے خلاف اس ملک کے بعض حکام اور اہم شخصیات کے مؤقف سے کوما میں چلا گیا،چند روز قبل انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے اس ملک کی فٹ بال فیڈریشن کے صدر سے کہا کہ وہ ان مقابلوں میں صیہونی حکومت کی ٹیم کی موجودگی کے خلاف اپنے ملک کے احتجاج کا اعلان کریں اس لیے کہ اس سے قبل انڈونیشیا کی تقریباً 100 ممتاز مذہبی شخصیات نے ان مقابلوں میں صیہونی حکومت کی موجودگی کے خلاف جکارتہ میں اپنے احتجاج کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے حکومت نے ایسا فیصلہ کیا لہٰذا انڈونیشیا میں صیہونی مخالف غصے کی لہر نے فیفا کو مجبور کیا کہ وہ انڈونیشیا میں ہونے والے انڈر 20 ورلڈ کپ کے لیے جمعہ 31 مارچ کو ہونے والی قرعہ اندازی کی تقریب ملتوی کرے اور ورلڈ کپ کی میزبانی اس ملک سے واپس لے کر ان مقابلوں کے انعقاد کے لیے کسی متبادل ملک کی تلاش کرے۔
یاد رہے کہ فیفا کا یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب جکارتہ کے حکام اور اس ملک کی معروف شخصیات نے اپنے آئین کی بنیاد پر صیہونی حکومت کے نمائندوں کو اس ورلڈ کپ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں گی، انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کے نائب اسپیکر ہدایت نور نے اس بات پر زور دیا کہ انڈونیشیا میں صیہونی حکومت کی موجودگی کی مخالفت ہمارے ملک کے آئین کا مسئلہ ہے اور یاد دلایا کہ ان کے ملک نے صیہونی حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات کو معمول پر لانے کو ممنوع قرار دیا ہے، انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2019 کو انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں ایک قرارداد جاری کی جس میں اس سلسلہ میں انڈونیشیا کے صوبوں، علاقوں اور شہروں میں منتخب مقامی حکومتوں کے خارجہ تعلقات اور بین الاقوامی تعاون کو منظم کیا گیا ہے، اس قرارداد کے آرٹیکل 150 میں کہا گیا ہے کہ انڈونیشیا کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، جسے فلسطین پر قابض حکومت سمجھا جاتا ہے، اور اسی لیے انڈونیشیا اس کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کے خلاف ہے اور اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کوئی سرکاری بات چیت نہیں کی جائے گی اور انڈونیشیا کسی بھی سرکاری جگہ پر کسی اسرائیلی وفد کی میزبانی نہیں کر سکتا، نہ ہی کسی کو ہمارے ملک میں اسرائیلی جھنڈا بلند کرنے یا اس کے حق میں کوئی نعرہ لگانے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی انڈونیشیا میں اسرائیلی قابض حکومت کے ترانے بجانے کی اجازت دی جائے گی۔
اگرچہ انڈونیشیا کی میزبانی کی منسوخی کی وجہ سے حالیہ دنوں میں اس ملک کا نام اس کے صیہونی مخالف موقف کی وجہ سے مقبول ہوا ہے لیکن عالم اسلام کی رائے عامہ اور بعض مسلم ممالک کے رہنماؤں نے ہمیشہ صیہونی حکومت کےنمائندوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔
مسلمانوں کے ہاتھوں صیہونیوں کو ٹکھرایا جانا
ستمبر 1978 ،جب پہلے عرب ملک کی حیثیت سے مصر کی حکومت نے صیہونی حکومت کو تسلیم کیا، سے لے کر ستمبر 2020 تک، جب خلیج فارس کی عرب حکومتوں، متحدہ عرب امارات اور بحرین اور دو افریقی ممالک کے ساتھ قابضین تعلقات معمول پر لانے کی ٹرین میں شامل ہوئے، ماہرین اور حلقے حتیٰ کہ اس حکومت کے عہدیداروں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ عرب اور مسلم اقوام کی رائے اور رائے عامہ کو راغب کیے بغیر اسرائیل کے لیے قانونی حیثیت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے،اس کے مطابق عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے کے عمل میں صیہونیوں کی اصل کوشش ان ممالک کی قوموں کی رائے عامہ کو جیتنا رہی ہے۔
مصر اور صیہونی حکومت کے درمیان امن معاہدے کو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود مصر کے عوام اب بھی اسرائیلیوں کو تسلیم نہیں کرتے،اردن کی حکومت کے صیہونیوں کے ساتھ گہرے تعلقات کے باوجود، اس ملک کے بہت سے ریستورانوں میں اب بھی اسرائیلیوں کا داخلہ ممنوع کے الفاظ موجود ہیں، صیہونی حکومت نے مسلم عوام کے خیالات اور عرب اقوام کی رائے عامہ کو بدلنے کے لیے کھیلوں کے ہتھیار کا سہارا لیا لیکن یقیناً اسے اس میدان میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی، اس لیے کھیل غاصبوں کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کی عرب اور مسلم ممالک کے عوام مخالفت کے لیے ایک واضح میدان بن چکے ہیں اور وہ فلسطین کی غاصب سرزمین میں صیہونی حکومت کے وجود کے ناجائز ہونے پر زور دیتے ہیں۔
گزشتہ موسم گرما میں لبنانی مارشل آرٹسٹ عبد اللہ مانیاتو بلغاریہ میں عالمی مارشل آرٹس چیمپئن شپ میں صیہونی کھلاڑی کے خلاف ڈرا ہونے کے بعد ٹورنامنٹ سے دستبردار ہو گئے تھے۔
ٹوکیو میں 2020 کے اولمپک گیمز کے دوران، الجزائر کے جوڈوکا فتحی نورین اور سوڈانی جوڈوکا محمد عبدالرسول دوسرے عرب کھلاڑیوں میں شامل تھے جو صیہونی حکومت کے نمائندے کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے گیمز سے دستبردار ہو گئے۔
اس کے بعد اردنی نوجوان ایاس الثمر فلسطینی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کا اعلان کرنے کے لیے شمشیر بازی کے عالمی مقابلے میں اس حکومت کے نمائندے کے ساتھ مقابلے سے دستبردار ہو گیا۔
قطر میں ہونے والے 2022 کے ورلڈ کپ میں صیہونی حکومت کو عربوں اور مسلمانوں کا سب سے زوردار تھپڑ پرا جہاں عرب اور مسلم اقوام نے فلسطینی پرچم اور فلسطینی شہداء کی تصاویر کو بلند کرکے اس سرزمین کے عوام اور ان کے مقصد کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا اور مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا،اس دوران قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں صیہونی مخالف سب سے واضح اقدام، جس نے اسرائیلیوں کو غصہ دلایا، عرب اور مسلمان شائقین کا صیہونی صحافیوں کو انٹرویو دینے سے انکار تھا۔
میراڈونا سے لے کر رونالڈو تک عالمی ایتھلیٹس کا مخالف صیہونی نقطہ نظر
صیہونی مخالف موقف اور ان کے جرائم کی مذمت صرف مسلمان کھلاڑیوں تک محدود نہیں ہے،ایرانی اور عرب ایتھلیٹس کے علاوہ بہت سے دوسرے ممالک کے ایتھلیٹس جن کی فلسطین کے ساتھ مذہب یا نسل کے لحاظ سے کوئی چیز مشترک نہیں ہے لیکن حالیہ برسوں میں انہوں نے کھل کر اس ملک کے مظلوم عوام کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
خلاصہ
چونکہ سیاست کے برعکس کھیل ایک غیر حساس اور تفریحی میدان ہے، اس لیے حالیہ برسوں میں تل ابیب کے رہنماؤں اور ان کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے اسے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے، صیہونی حکومت کو پاک کرنے اور اسے قانونی حیثیت دینے کے لیے ہمیشہ ایک ہتھیار کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم یہ ہتھیار ان کی خواہشات اور توقعات کے برعکس، قطر میں 2022 کے ورلڈ کپ کی طرح اب تک اپنی بے اثری کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہ کپ جس میں فلسطین کا نام دنیا بھر میں جھلک رہا تھا اور صیہونی حکومت کے شہریوں اور صحافیوں کے ساتھ بدترین مقابلے ہوئے۔
قابل ذکر ہے کہ اس کہانی میں تلخ ستم ظریفی کا تعلق فیفا اور مغربی اداروں کے دوہرے معیار سے ہے،اس حقیقت کے باوجود کہ مسلم اور غیر مسلم کمیونٹیز کی رائے عامہ ہمیشہ صہیونیوں کے جرائم کی مذمت کرتی ہے اور بہت سے کھلاڑی اسرائیلی کھلاڑیوں کے ساتھ محاذ آرائی سے دستبردار ہونے کی قیمت ادا کرتے ہیں، بہت سے حکام اور ادارے جو مغرب کے زیر اثر ہیں جیسے کہ فیفا، اس مسئلے کے لئے ایک مختلف نقطہ نظر جہاں انہوں نے فلسطینی عوام کے خلاف صہیونیوں کے تشدد اور غیر انسانی رویے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور صیہونی مخالف موقف کی وجہ سے انڈونیشیا سے ورلڈ یوتھ فٹ بال کپ کی میزبانی واپس لے لی ہے، وہیں یوکرین پر روسی حملے کے فوراً بعد انہوں نے2022 کے قطر ورلڈ کپ سے روسی فٹ بال ٹیم کا نام کاٹ دیا۔