سچ خبریں:شام میں ہونے والی خانہ جنگی جس کے نتیجے میں کم از کم دس لاکھ افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، کے بہت سے پہلو ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاض سب سے زیادہ اثر انگیز پہلو میں سے ایک تھا۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ بنایا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
شام میں جنگ کو ہوا دینے میں سعودی عرب کا کردار
اگرچہ شام میں بحران اور خانہ جنگی قطر اور ترکی کی سربراہی میں شروع ہوئی تھی لیکن امریکی سیاست دانوں نے آگے چل کر اس ملک کے بحران کو اسے قطر سے لے کر سعودی عرب کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اس کا انتظام سنبھال سکے، بہت سی بین الاقوامی رپورٹس ہیں جو اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کی افزائش میں سعودی عرب کے مرکزی کردار کو تسلیم کرتی ہیں ،اگر شام میں کشیدگی پیدا کرنے میں سعودی مداخلت کا کوئی اور ثبوت نہ بھی ہو تو بھی اس ملک میں گیارہ سالوں تک ریاض کے حکام کے شامی عوام کے خلاف دہشت گردی ،جنگ بھڑکنے اور قتل عام کرنے نیز اس ملک میں دہشت پھیلانے کو ثابت کرنے کے لیے یہی رپورٹس کافی ہیں۔
دہشت گرد گروہوں کی حمایت
کینیڈا کی ویب سائٹ گلوبل ریسرچ پر شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کہا گیا ہے کہ سعودی عرب ان اہم ممالک میں سے ایک ہے جو داعش کے جرائم پیشہ گروہ کی حمایت کرتا ہے، اس تحقیق کے نتائج کے مطابق سعودی عرب نے 2006 میں عراق اور ایران کے درمیان بڑھتی قربت کو ورکنے کے لیے داعش کی بنیاد رکھی اور بعد میں اس نے شام میں سرگرم درعا شہر کے دہشت گردوں سمیت تمام شدت پسند مسلح گروہوں کو مالی مدد اور ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاض نے استقامت کے محور میں دمشق کی موجودگی اور تہران کے ساتھ اس ملک کے اسٹریٹجک تعلقات کو اپنے علاقائی حریف اسلامی جمہوریہ ایران کی فتح سمجھا، اس وجہ سے 2012 سے اس نے جیش الاسلام، احرار الشام، اور اسلامک فرنٹ جیسے شام میں سرگرم سلفی-جہادی گروپس خاص طور پر اس کے ساتھ منسلک گروہوں کی حمایت کی لیکن شام کی حکومت کا تختہ الٹنے میں ان گروہوں کی ناکامی کی وجہ سے سعودی عرب نے ابھرتے ہوئے داعش گروپ کی طرف رجوع کیا ،یہ گروہ جو 2014 اور 2015 کے دوران عراق اور شام کے جغرافیہ کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا،شام میں داعش کے عناصر کی بڑے پیمانے پر پیش قدمی کے ساتھ، سعودی بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لمحات گن رہے تھے لیکن جب داعش نے علاقائی مزاحمت میں شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کی پے در پے شکستوں کے زیر اثر اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور یہ گروہ شامی فوج سے لڑنے کے بجائے اپنے مذہب کے متوازی سلفی گروہوں کے ساتھ تصادم کی طرف مڑ گیا تو تمام منصوبے ناکام ہو گئےاور سعودی عرب کے منصوبے خاک میں مل گئے،تب سے داعش سعودی عرب کے لیے ایک موقع سے ایک خطرہ بن گئی ہے،اس لیے سعودیوں نے داعش سے خطرہ محسوس کرنے، سعودی عرب کی سرزمین پر داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں اور عوام کی نظروں میں اپنی داغدار تصویر کو بہتر کرنے جیسی وجوہات کی بنا پر داعش کے لیے اپنی ابتدائی حمایت میں کمی کر دی ،اس سلسلے میں سعودی عرب امریکہ کی قیادت میں داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں شامل ہوا لیکن چونکہ بشار اسد کا تختہ الٹنا اتحاد کی ترجیح نہیں تھی، اس لیے ریاض نے داعش کے خلاف اتحاد میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔
شام کے لیے ریاض کا Bپلان
المیادین نیوز چینل نے اس سال کے موسم گرما کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ جیش مغاویر الثورہ کے نام سے مشہور دہشت گردوں کی دوبارہ حمایت کا منصوبہ سعودی عرب کی حمایت سے جاری ہے جس کا مقصد شام کے شمال مشرق میں امریکہ کی نگرانی میں ان دہشت گرد فورسز کے زیر قبضہ علاقوں کو وسیع کرنا ہے، المیادین نے لکھا کہ التنف میں امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے کیمپوں نے حال ہی میں ایک نئے تربیتی کورس کا انعقاد اور جنگی گولیوں کے ساتھ فوجی مشقیں کی ہیں جنہیں بین الاقوامی افواج کے نام سے جانا جاتا ہے،یہ اقدامات ان خبروں سے مطابقت رکھتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے خطے میں موجود دیگر گروہوں کے ساتھ اس گروپ کی موجودگی کو بڑھانے اور ان میں سے کچھ کو شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں تعینات کرنے کی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ مغاویر الثورہ گروپ کو براہ راست امریکی فوج اور سی آئی اے نے تشکیل دیا اور منظم کیا اور اس کا ہیڈ کوارٹر التنف بیس کے اندر واقع ہے، التنف کراسنگ تین ممالک شام، عراق اور اردن کے درمیان مشترکہ سرحدی مقام ہے،یہ شام اور عراق کے درمیان پہلی اور اہم ترین سرحدی گزرگاہ ہے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اس کراسنگ کا کنٹرول شامی فوج اور اس کے اتحادیوں کے حوالے نہ کیا جائے، وہ شامی افواج کو التنف کراسنگ کے قریب آنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔