سچ خبریں:افریقی براعظم میں مداخلت کے لیے سعودی عرب کا سب سے اہم ہتھیار تیل کے ڈالروں کا استعمال کرکے ان معاشروں کی معاشی اور ثقافتی غربت کا فائدہ اٹھانا ہے۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ بنایا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
افریقہ میں سعودی مداخلت
افریقی براعظم کے ممالک کی آبادی کا ایک بڑا فیصد مسلمان ہے، اسی وجہ سے یہ براعظم عرب اور اسلامی ممالک کے لیے نظریاتی طور پر بہت اہم ہے اور سعودی عرب ان میں سرفہرست ہے۔ ریاض افریقہ میں اسلام کے نام کو اس براعظم میں داخل ہونے اور ایک نیا اسلامی اتحاد بنانے کے لیے ان ممالک کی صلاحیت کو استعمال کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھتا ہے،ایک ایسا اتحاد جس سے مختلف علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں خاص طور پر عربوں اور مسلمانوں کے خارجہ تعلقات سے متعلق معاملات میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
سیاہ براعظم میں سعودی مداخلت کے مقاصد
سعودی عرب افریقی مسلمانوں کے اثر و رسوخ سے سکیورٹی، اسٹریٹجک، مذہبی نظریاتی تحفظات کے ساتھ ساتھ اقتصادی ضروریات کی پیروی کرتا ہے، سعودی عرب کی طرف سے افریقہ کے اسلامی خطوں میں داخل ہونے کی کوشش کا سب سے واضح پہلو ان مملک میں وہابی نظریات کا پھیلنا ہے، اس پالیسی پر 70 کی دہائی سے زیادہ تیزی اور شدت کے ساتھ عمل کیا گیا ہے جہاں خاص طور پر یوگنڈا، تنزانیہ اور کینیا کے ممالک وہابی فکر کو پھیلانے کے لیے سعودی حکام کی توجہ کا مرکز رہے ہیں، افریقہ میں وہابیت کو پھیلانے میں سعودی عرب کے مقاصد میں سے ایک شیعہ مخالف نظریات کو فروغ دینا اور افریقی عناصر کو سعودی ایران مخالف محاذوں اور تکفیری گروہوں میں شرکت کے لیے تربیت دینا ہے تاکہ خطے میں آل سعود کے توسیع پسندانہ مقاصد کو حاصل کیا جا سکے،سعودی عرب اور اس کی سول تنظیموں کی افریقہ میں درجنوں یونیورسٹیوں، مساجد، اسلامی ثقافتی مراکز، سیکڑوں اسکولوں کی تعمیر اور دسیوں ہزار وظائف فراہم کرکے اساتذہ اور دینی علماء کو راغب کرکے وہابی نظریے کو پھیلانے کی کوشش جاری ہے۔
ریاض کی مداخلت پسندانہ حکمت عملی
اس میدان میں سعودی عرب کی پہلی حکمت عملی یہ تھی کہ کینیا، تنزانیہ اور یوگنڈا کے مسلمانوں کو سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے 3000 سے زیادہ اسکالرشپ دی جائیں، درحقیقت سعودی حکومت نے اپنے ساتھ وابستہ علما کی ایک نئی نسل کو جو ملک کی جامعات خصوصاً مدینہ کی وہابی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، کو افریقی اسلامی اجتماعات کی سربراہی میں کھڑا کرنے کی کوشش کی اور مشرقی افریقہ میں اپنی پوزیشن کو ہر ممکن حد تک مضبوط کرنے کی کوشش کی، ایرانی اسلامی انقلاب اور افریقی براعظم کے مسلمانوں میں شیعہ مذہب کو ایک متحرک اور انقلابی مکتب کے طور پر متعارف کرائے جانے کے بعد یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کرتا گیا اور اس کے بعد سے شیعہ افکار و نظریات کے خلاف جنگ وہابی علماء کے پروگراموں میں سرفہرست ہے۔
ہم یہاں ان سب سے واضح اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سعودی عرب نے افریقہ میں وہابیت کے نظریے کو پھیلانے کے لیے کیے ہیں:
– افریقی مسلم ممالک کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں قرآنی اسکولوں اور اسلامی اسکولوں کی تعمیر اور موجودہ قرآنی اسکولوں کو وسیع مالی امداد فراہم کرنا۔
– قحط زدہ علاقوں میں خوراک، سامان اور طبی امداد کی تقسیم کے لیے ہیلتھ کلینک اور عارضی کیمپوں کا قیام۔
یوگنڈا، تنزانیہ اور کینیا کی یونیورسٹیوں میں مسلم طلباء کو اسکالرشپ دینا۔
– افریقی مسلم طلباء کو سعودی عرب بھیجنا۔
– مفت حج ٹکٹوں کی تقسیم۔
– شہروں اور دیہاتوں میں مساجد کی تعمیر۔
– ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز میں موجودگی۔
– مشرقی افریقی ممالک میں سعودی عرب سے وابستہ اسلامی تنظیموں کا قیام اور ریاض سے وابستہ شیخوں کے لیے درجنوں رہائشی یونٹوں کی تعمیر۔
افریقی ممالک کی مساجد میں سعودی عرب سے شائع ہونے والی ہزاروں کتابوں اور اسلامی رسالوں کی سالانہ تقسیم۔
– افریقی ممالک کی مساجد میں تبلیغ کے لیے وہابی علماء اور مبلغین کو مقررہ تنخواہ دینا۔
افریقہ میں ریاض کی مداخلت کے میدان
سب سے نمایاں افریقی ممالک جنہیں سعودی نظریاتی تحریکوں نے نشانہ بنایا ان میں یوگنڈا، تنزانیہ، کینیا، چاڈ اور مالی شامل ہیں،اس تناظر میں چاڈ کے دارالحکومت اینجامینا میں 16 ملین ڈالر کی لاگت سے شاہ فیصل مسجد کی تعمیر اور مالی کے دارالحکومت بماکو میں 7 ملین ڈالر کی لاگت سے شاہ فیصل مسجد کی تعمیر،پانچ ساحلی ممالک؛موریتانی، نائیجیریا، مالی، چاڈ اور برکینا فاسو) کے گروپ کو 100 ملین ڈالر کی امداد کی جس کے بارے میں دسمبر 2018 میں پیرس کے اجلاس میں بتایا گیا کہ یہ اقدام ان ممالک میں وہابی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے، اس دوران نائیجیریا مشرقی افریقہ کا سب سے اہم ملک ہے جو سعودیوں کے انتہا پسندانہ نظریات کا نشانہ بنا ہے،سوڈان، ایتھوپیا، صومالیہ، اریٹیریا اور جبوتی مشرقی افریقہ کے سب سے اہم ممالک ہیں جہاں سعودی عرب ان خطوں میں وہابیت کے پھیلاؤ پر توجہ دینے سے زیادہ سکیورٹی اور سیاسی تحفظات کو اہمیت دیتا ہے، یہ ممالک جیواسٹریٹیجک علاقوں میں واقع ہیں جن میں بحیرہ احمر، باب المندب آبنائے، خلیج عدن، اور نہر سویز کے قریب اور عموماً جزیرہ نما عرب کے آس پاس ہیں۔
افریقی براعظم سے تعلق رکھنے والے دیگر ممالک میں مالی، کینیا، اریٹیریا، جبوتی، سینیگال اور مغرب شامل ہیں، جن کی یمن جنگ میں سعودی اتحاد کی صورت میں براہ راست اور بالواسطہ موجودگی واضح ہے۔