سچ خبریں: آج ہم مغربی میڈیا کی طرف سے ایک قسم کی غلط بیانی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جہاں ان ذرائع ابلاغ کے ذریعہ تیار کردہ مواد کی فیکٹرنگ کی وجہ سے، علاقائی سامعین کی بھی ایک تعداد فلسطین کی حقانیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو رہی ہے۔
غزہ میں جنگ میدان سے بڑھ کر گفتگو کے میدان میں جاری ہے،ایک ایسا نظریہ جس کو میڈیا کے ذریعے پروموٹ کیا جاتا ہے اور سامعین کے ذہنی پس منظر کو ہدفی انداز میں اور طاقت میں رہنے والوں اور صیہونیوں کے حامیوں کے فائدے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اس تنازعے کو شروع ہوئے ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن غزہ میں جنگ ابھی بھی جاری ہے،اس پٹی کے 11000 سے زیادہ شہریوں کے خون بہانے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک جنگ بندی اور جنگ کو روکنے کے لیے کوئی موثر محرک پیدا نہیں ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی میڈیا غزہ میں اسرائیل کے جرائم میں شریک
اس خطے میں جنگ کے حامیوں اور رہنماؤں کو اب بھی صیہونی حکومت کو ممکنہ جنگ بندی کے معاہدوں میں رعایتیں دینے کے حالات نظر نہیں آتے اور وہ میدان کی طرح اپنے میڈیا میں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کو ہوا دے رہے ہیں۔
غزہ کی جنگ کثیر جہتی ہے،میدان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ وہی ہے جو اس وقت یا اس سے پہلے بھی فلسطینیوں کے خلاف گفتگو اور میڈیا کے میدان میں ہو رہا تھا،مغربی میڈیا میں غزہ کے تلخ واقعات کی خبروں کو چھپانے کا طریقہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
میڈیا کے میدان میں جنگ کیسی چل رہی ہے؟
آج میڈیا روایت بنانے میں اپنے موثر کردار کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست کے میدان میں ایک اہم ترین کھلاڑی بن چکا ہے اور وہ رائے عامہ کی تشکیل، رجحانات پیدا کرنے اور مطالبات پیش کر کے حقیقت کے میدان میں سرگرم عمل ہے،یہ کردار سازی ہمیشہ بحران سے پہلے، بحران کے دوران اور اس کے بعد ہوتی ہے۔
مقبوضہ علاقوں کا مسئلہ، دنیا کے سب سے زیادہ متنازعہ مسائل میں سے ایک کی حیثیت س سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے علاقائی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے لیکن آج مغربی میڈیا نے غزہ کی صوررتحال کو بیان کرنے میں بہت سے علاقائی میڈیا سے برتری حاصل کر لی ہے۔
غزہ سے متعلق زیادہ تر خبریں مغربی میڈیا کے ذریعے بیان کی جاتی ہیں جو بنیادی طور پر صیہونی حکومت کے حق میں ہوتی ہیں،اگرچہ غیر جانبدار ہونے کا دعویٰ کرنے والا یہ میڈیا خود کو پیشہ ور ظاہر کرنے اور غزہ کی صورتحال کو کور کرنے میں اپنے آپ کو متوازن دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس میڈیا میں خاص طور پر پچھلے ایک ماہ میں تیار کردہ مواد میں تعصب عیاں ہے جو رائے عامہ کو متاثر کرتا ہے اور اس خطے میں مستقبل کی پیش رفت کو متاثر کر سکتا ہے۔
بحران سے پہلے؛ مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا کا ادارہ جاتی تعصب
دنیا کے مرکزی دھارے کا میڈیا، جن میں سے زیادہ تر واشنگٹن کے رہنما ہیں جو خود صیہونی لابیوں سے متاثر ہیں، تقریباً سات دہائیوں سے حقیقت کو مسخ کرنے، جعلی خبریں پھیلانے، واقعات کو الٹا دکھانے اور فلسطینیوں کو شیطان بنا کر پیش کرنے جیسی منصوبہ بند حکمت عملیوں کا استعمال کر رہا ہے تاکہ سامعین کے ذہنوں میں اس مسئلے کے حوالے سے اپنی مطلوبہ روایت کو ادارہ جاتی شکل دے سکے۔
اس حکمت عملی میں فلسطینی عوام کو غیر مہذب اور دہشتگردوں کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو اپنے معمول کو توڑنے والے اقدامات سے صہیونی شہریوں کی مہذب اور جمہوری زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں،یہ اسی حکمت عملی کے فریم ورک میں ہے جس کا ایجنڈا ہے کہ میں ایک اچھا عیسائی مغربی ہوں جبکہ میرا مقابلے میں دوسرا دہشت گرد مسلمان ہے۔
مغربی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں صیہونی حکومت کے ساتھ مسلمانوں کے تنازع کو (پیچیدہ سیاسی اور مذہبی جہتوں کے ساتھ) کو نسل پرستی کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ہولوکاسٹ کا تاریخی تجربہ کرنے والے مظلوم یہودیوں کے ساتھ برے اور دہشت گرد مسلمانوں کی جدوجہد کے طور پر بیان کیا ہے۔
غزہ جنگ کی داستان بیان میں جانبداری
روایتیں صورتحال کو متأثر کرتی ہیں، گلوبل ریسپانسیبلٹی ٹو پروٹیکٹ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سویتا پاونڈی کے مطابق، میڈیا سماجی تقسیم کو گہرا کرنے، ہولناک مظالم کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، بحرانوں کی میڈیا کوریج حکومتوں کے رد عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہے، الفاظ اور بیانیے واقعی اہم ہیں کیونکہ وہ اس فریم ورک کو تشکیل دیتے ہیں جس میں ہم فیصلے کرتے ہیں اور جو ہم سوچتے ہیں وہ اس کے فریم ورک کو تشکیل دیتے ہیں۔
مغربی میڈیا حماس گروپ کو دہشت گرد اور اس کے اقدامات کو دہشت گردانہ قرار دیتا ہے،الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں تجزیہ نگار تقرید الخدری نے مغربی میڈیا کے اس مستقل مفروضے کہ حماس "دہشت گرد” ہے، پر بات کرتے ہوئے صیہونی نسل پرست حکومت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے اس کے اقدامات کے خلاف خاموشی اختیار کرنے والے اس میڈیا کے دوہرے معیار پر تنقید کی۔
اس دوران بعض ذرائع ابلاغ جیسے ایسوسی ایٹڈ پریس ، بی بی سی، وائس آف امریکہ وغیرہ اپنی ہدایات کی بنیاد پر حماس گروپ کے لیے دہشت گرد کا لفظ استعمال نہیں کرتے، تاہم یہ میڈیا بھیس بدل کر اور نفسیاتی آپریشن کی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے حماس کو کسی نہ کسی طرح غزہ میں جنگ کی وجہ اور انارکیسٹ کے طور پر متعارف کراتا ہے۔
مغربی میڈیا کا تعصب عروج پر ہے، وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے فلسطینی سیاسی تجزیہ کار نور عودہ نے اس میڈیا میں تعصبات کا انکشاف کیا جو ادارہ جاتی طور پر رائے عامہ کو صیہونیوں کے ساتھ ہمدردی کی طرف لے جاتا ہے، ان کے مطابق بہت سے مغربی خبر رساں ادارے صیہونی حکام کے بیانات کو اہمیت دیتے ہیں اور فلسطینیوں کے نقطہ نظر پر قابض حکومت کے نقطہ نظر کو ترجیح دیتے ہیں، اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے بارے میں 50 سال کی خبروں کی سرخیوں کا تجزیہ کرنے کے موضوع پر 2019 کے ایک تحقیقی مطالعے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی اخبارات فلسطینی اخبارات کے مقابلے میں صہیونی ذرائع کا حوالہ دوگنا دیتے ہیں۔
اس تجزیہ نگار کے مطابق ایک اور مثال یہ ہے کہ مغربی میڈیا فلسطینی شہداء کی تعداد کا اعلان کرتے وقت حماس کی وزارت صحت کا استعمال کرتے ہوئے ان اعدادوشمار کی درستیت پر شک کرتا ہے اور فلسطینیوں سے ممکنہ ہمدردی کو ختم کرتا ہے، پچھلے مہینے امریکی صدر نے کہا تھا کہ انہیں فلسطینی وزارت صحت کے مرنے والوں کی تعداد کے تخمینے پر بھروسہ نہیں ہے جبکہ پچھلی جنگوں میں، غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کی تصدیق اقوام متحدہ کی رپورٹوں، آزاد رپورٹوں حتیٰ کہ صہیونی تحقیق سے بھی ہوئی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق مغربی نیوز نیٹ ورکس سے بات کرنے کے لیے مدعو کیے گئے زیادہ تر فلسطینیوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ حماس کی مذمت کرتے ہیں جب کہ صہیونی مہمانوں سے شاذ و نادر ہی کہا جاتا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں اپنی حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں یا غزہ کے محاصرے اور بمباری کی مذمت کریں۔
آپ کو فلسطینیوں کے حوالے سے متاثرین کا لفظ سننے کو نہیں ملتا جو لفظ آپ صہیونی فریق کے بارے میں رپورٹنگ کرتے وقت سنتے ہیں،غزہ میں انسانی نقصانات پر پردہ ڈالنے کے بجائے، بہت سے مغربی چینل شہداء کو ہلاک کہتے ہیں جبکہ صیہونی حکومت کے لیے "اپنے دفاع کے حق” اور حماس کی طرف سے غزہ میں شہریوں کو "انسانی ڈھال” کے طور پر استعمال کرنے کو دہراتے ہیں،40 بچوں کے سر قلم کرنے جیسی جھوٹی اور غیر دستاویزی خبریں جو نیویارک پوسٹ، فاکس نیوز، سی این این اور انڈیپنڈنٹ جیسے میڈیا میں شائع ہوئیں یہاں تک کہ امریکی صدر کے بیانات میں بھی ان کی جھلک دکھائی دی ان میڈیا کی ایک اور حکمت عملی ہے کہ وہ عوام کو خوفزدہ کریں اور غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے کی حمایت کریں لبنانی مصنفہ اور نقاد لینا منزر کے مطابق، جب مغربی میڈیا اس طرح کے جھوٹے دعووں پر توجہ مرکوز کرتا ہے،تو دراصل اس کا مقصد صیہونی حکومت کی جارحیت کی بربریت اور تشدد کو جواز فراہم کرنا ہے۔
دوسری طرف ان ذرائع ابلاغ میں شہری مراکز، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں وغیرہ پر صیہوونی حکومت کے حملے کی کوریج بھی قابل ذکر ہے،انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ان اعمال کو مغربی میڈیا میں اس طرح کور کیا جاتا ہے کہ قابض حکومت کو براہ راست مجرم کے طور پر شناخت نہیں کیا جاتا ہے،غیر معینہ فعل کا استعمال اور اس میدان میں تل ابیب کی ذمہ داری کو نظر انداز کرنا ان میڈیا میں معنی خیز ہے،خبروں کو آزادانہ طور پر سامنے آنے سے روکنا اور کہانی کی یک طرفہ کوریج مغربی میڈیا میں غزہ کی خبروں کی کوریج میں ایک اور بڑی خامی ہے،مغربی صحافیوں نے مقبوضہ علاقوں میں جا کر صہیونی خاندانوں کے غم پر وسیع رپورٹیں شائع کیں جبکہ قابض حکومت نے غیر ملکی صحافیوں کو غزہ میں جانے کی اجازت نہیں دی، جس کا مطلب ہے کہ وہ کہانی کے ایک اہم پہلو سے محروم ہیں۔
CNN کے سابق رپورٹر اور اٹلانٹک کونسل کے غیر رہائشی سینئر فیلو اریوا ڈیمن کے مطابق، یہ دوہرے معیار مغربی میڈیا اداروں کے مسلمانوں اور عربوں کو انسان سے کم کے طور پر پیش کرنے کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتے ہیں،یہ ہم نے 9/11 کو دیکھا جہاں خاص طور پر اس واقعے کی کوریج کے معاملے میں عربوں اور مسلمانوں کی تذلیل کی گئی۔
جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے حق میں منظم تعصب نیوز ایجنسیوں جسے مین اسٹریم میڈیا سمجھا جاتا ہے، کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے لوگوں کا دنیا کی مرکزی دھارے کی خبروں سے متاثر ہونے کا خطرہ
آج ہم مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے ایک قسم کی داستان تخلیق کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کے نتائج بعض اوقات سوشل میڈیا میں ان ذرائع ابلاغ کی پروڈکشن کے مواد کی وجہ سے خطے کے سامعین کے درمیان بھی فلسطین کی حقانیت کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب ہم جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک میں مغربی میڈیا پر اعتماد کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور ان ممالک میں روایتی مقامی میڈیا پر اعتماد کرنے کا رجحان کم ہو رہا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں آن لائن میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال بھی بہت زیادہ ہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں میڈیا کنزمپشن ان دی مڈل ایسٹ کی تحقیق کے مطابق 2013 کے مقابلے میں 2019 میں زیادہ عرب شہری انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور اپنا وقت آن لائن گزارتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے بیشتر عرب ممالک میں خبروں کے لیے ذرائع ابلاغ پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے، 2015 میں،اماراتی اور سعودیوں کو ذرائع ابلاغ پر سب سے زیادہ اعتماد تھا، تاہم، اس اعتماد میں ڈرامائی طور پر 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے،2017 سے 2019 تک قطر میں میڈیا پر بھروسہ کرنے والے قطریوں کا تناسب 12 فیصد کم ہوا ہے جبکہ مغربی میڈیا پر بھروسہ کرنے والے قطریوں کا حصہ 10 فیصد بڑھ گیا ہے۔
اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں مغربی میڈیا پر بھروسہ کرنے والے شہریوں کی شرح میں بالترتیب 22 اور 13 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ ان کے اپنے ممالک کے ذرائع ابلاغ پر اعتماد مستحکم رہا ہے، 2017 اور 2019 کے درمیان تیونس میں بھی قومی میڈیا پر اعتماد میں 12 فیصد کمی دیکھنے کو ملی جبکہ تقریباً اسی فیصد تیونس کے باشندے قومی میڈیا، دیگر عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ اور مغربی ذرائع ابلاغ پر اعتماد کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سوشل میڈیا غزہ جنگ میں زورآزمائی کا میدان
کچھ تجزیہ کاروں کے نقطہ نظر سے، میڈیا کے میدان میں امریکہ کی نرم طاقت میڈیا ڈیماگوگری اور نفسیاتی آپریشن کی تکنیکوں کو استعمال کرکے اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے لیے زمین فراہم کرتی ہے، ان ذرائع ابلاغ پر مبنی سوشل میدیا کو بڑھتی ہوئی مقبولیت کا سامنا ہے، اور ہیش ٹیگ اور ٹرینڈنگ ایسے پلیٹ فارمز کا استعمال کیے جاتے ہیں جو رائے عامہ کے برعکس، صیہونی حامیوں کے سیاسی اور قانونی اثر و رسوخ میں ہیں۔
میڈیا کے تصادم کے میدان میں غزہ کی صورتحالل جیسے اہم مسئلے کو بیان کرنے کے لیے، خطے کے میڈیا کو، خاص طور پر ایرانی میڈیا کو اپنی میڈیا اتھارٹی کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ صوررتحال کو بیان کرنے میں مغربی میڈیا کی برتری ہے۔