سچ خبریں:بعض بین الاقوامی ماہرین نے اعلان کیا کہ کثیر قطبی نظام کی طرف دنیا کی نقل و حرکت اور خطے میں امریکہ کے کردار میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی مساوات میں تبدیلی نے عرب ممالک کو شنگھائی تنظیم میں شمولیت پر مجبور کیا ہے۔
مغربی ایشیا کے بارے میں امریکہ کے نقطہ نظر میں تبدیلی، اس کی اندرونی صورتحال اور روس اور یوکرین کے درمیان ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی شدید کشمکش اور مختلف بین الاقوامی نتائج کی وجہ سے خلیج فارس کے عرب ممالک نے بتدریج مشرقی کیمپ کی طرف رخ کر لیا ہے تاکہ اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کا تحفظ کر سکیں نیز بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار کریں۔
الخلیج آن لائن کے مطابق خلیج فارس کے عرب ممالک کی اس کاروائی کی سب سے نمایاں خصوصیت چین اور روس کے ساتھ شراکت داری میں نمایاں توسیع اور شنگھائی اور برکس جیسی تنظیموں میں شمولیت ہے جو کوششیں کر رہی ہیں کہ مغرب کی عالمی بالادستی کو کم کرنے اور یک قطبی نظام کو ختم کر دیا جائے، 28 مارچ کو سعودی عرب کی کابینہ نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت پر اتفاق کیا جس میں روس اور چین شامل ہیں،سعودی عرب کی خبر رساں ایجنسی نے اعلان کیا کہ سعودی عرب کی وزراء کونسل نے اس ملک کے شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ مکالمہ پارٹنر کے طور پر الحاق کی منظوری دے دی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب اس تنظیم میں شامل ہونے والا اکیلا خلیجی ملک نہیں ہے بلکہ گزشتہ ستمبر میں قطر نے شنگھائی تنظیم میں بطور ڈائیلاگ پارٹنر شامل ہونے کے لیے ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے،روئٹرز خبر رساں ادارے نے اپنے باخبر ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ اس تنظیم میں سعودی عرب کی شمولیت پر بات چیت گزشتہ دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ ریاض کے دوران ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی ستمبر 2022 میں اعلان کیا تھا کہ کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین اس تنظیم میں شامل ہوں گے،اس وقت اپنے تبصروں میں، پیوٹن نے اس بات پر زور دیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ان ممالک کے ساتھ تعاون کو بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے جو باہمی احترام کی بنیاد پر تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس تنظیم میں شمولیت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
دریں اثنا چین اور روس امریکہ کے کردار میں کمی اور بیجنگ اور ماسکو نیز خلیج فارس کے ممالک کے درمیان مشترکہ مفادات کے فروغ پر غور کر رہے ہیں،دوسری طرف انہوں نے عرب خطے خاص طور پر خلیج فارس تعاون کونسل کے ممالک میں، اقتصادی، سیاسی یا فوجی ہر سطح پر اپنی طاقت کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے، چین اور روس خلیج فارس کے بعض ممالک کے ساتھ فوجی معاہدوں سے قبل اقتصادی دروازے سے خطے میں داخل ہوئے، جو سیاسی تعلقات کو مضبوط بنانے کا باعث بنتے ہیں نیز سرمایہ کاری اور تجارتی مواقع کے سائے میں جن سے دونوں فریق فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
. اسٹریٹجک اسٹڈیز کے پروفیسر اور پکن یونیورسٹی میں بیلٹ اینڈ روڈ انسٹی ٹیوٹ کے مشیر حسن الدعجه کہتے ہیں کہ شنگھائی تنظیم میں اس وقت تقریباً 20 ممالک شامل ہیں، جن میں مکمل اراکین، مبصرین اور ڈائیلاگ پارٹنرز شامل ہیں،الخلیج آن لائن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے تاکید کی کہ اس تنظیم میں توسیع ہو گی اور اس میں زیادہ تر عرب، افریقی اور ایشیائی ممالک شامل ہوں گے نیز G20 سربراہی اجلاس کی طرح اس میں دنیا کی اعلیٰ اقتصادیات شامل ہیں، یہ بعد میں فوجی اتحاد بھی بن سکتی ہے کیونکہ اس تنظیم کی دفعات میں سے ایک رکن ممالک کی سیاسی اور جغرافیائی حیثیت کا تحفظ بھی ہے۔
حسن الدعجه نے کہا کہ خلیج فارس کے ممالک کی اس تنظیم میں شمولیت کی وجوہات کے بارے میں، جو مشاہدہ کیا گیا ہے، ان میں خطے میں امریکہ کی قیادت میں مغرب کے اثر و رسوخ میں کمی اور نئی تنظیموں کی تشکیل ہے نیز بین الاقوامی سیاست کی سطح پر شراکت دار اور حریف، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں، بشمول چین اور روس بھی اس کی ایک وجہ ہے۔
سیاسی امور کے اس ماہر نے بیجنگ کی ثالثی سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کو چین کی کامیابی اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاہم اس کا مطلب مغربی اثر و رسوخ کا مکمل خاتمہ نہیں ہے اور خلیج فارس کے ممالک نیز باقی خطے کے لیے مشرق و مغرب کے مفادات متوازن رہیں گے، الدعجه نے تاکید کی کہ مغرب کا یہ پیچھے ہٹنا عرب ممالک کو شنگھائی اور برکس جیسی تنظیموں میں شامل کر دے گا،اسٹریٹجک اسٹڈیز کے اس پروفیسر اور پکن یونیورسٹی میں بیلٹ اینڈ روڈ انسٹی ٹیوٹ کے مشیر نے کہا کہ خطے میں امریکی سیاسی اثر و رسوخ میں کمی 1956 میں مصر پر سہ فریقی حملے کے بعد برطانوی اثر و رسوخ میں کمی کے مترادف ہے، برطانوی اثر و رسوخ ختم ہو گیا اور اس کی جگہ امریکی اثر و رسوخ نے لے لی، تاہم اب اس خطے میں مغربی اور مشرقی کیمپوں کا اثر ہے۔
اس سیاسی ماہر نے واضح کیا کہ یہ تقسیم امریکی اثر و رسوخ میں کمی اور بہت سے عرب ممالک کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کے پاس کئی ایسے راستے ہیں جن کے ذریعے وہ امریکہ کے مفادات کو مدنظر رکھے بغیر اپنے قومی مفادات کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، الدعجه نے اس بات پر زور دیا کہ خلیج فارس کے ممالک جانتے ہیں کہ کس طرح اپنے مفادات کو آگے بڑھانا ہے اور خطے کے سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے کس طرح کوشش کرنا ہے، اس لیے ان کی ایسی تنظیم میں شمولیت ان پر اور بالعموم خطے پر مثبت اثرات مرتب کرے گی،ان کا خیال ہے کہ ایسی تنظیموں میں شمولیت سے خلیج فارس کے ممالک کے بین الاقوامی اقتصادی اور سیاسی کردار میں اضافہ ہوگا۔
واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ایک بین الاقوامی اور یوریشین تنظیم ہے جو 15 جون 2001 کو چین کے شہر شنگھائی میں ایک سیاسی، اقتصادی اور فوجی اتحاد کی صورت میں 6 ممالک: چین، روس، قزاقستان، تاجکستان، ازبکستان اور کرقزستان نے قائم کی تھی، ازبکستان کے علاوہ یہ ممالک 26 اپریل 1996 کو اس شہر میں قائم ہونے والے شنگھائی گروپ آف فائیو کے رکن تھے،اس کے بعد 9 جون 2017 کو آستانہ اجلاس میں بھارت اور پاکستان نے بھی اس تنظیم میں مکمل ارکان کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی، 17 ستمبر 2021 کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں منعقد ہونے والے اس تنظیم کے سربراہی اجلاس کے دوران اراکین نے تنظیم میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حیثیت کو مبصر رکن سے مکمل رکن میں تبدیل کرنے پر اتفاق کیا۔