سچ خبریں: یورپی یونین میں عراق کے سابق سفیر نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ عراقی نژاد سویڈش شہری کا صرف چند ہفتوں میں دو بار قرآن پاک کی توہین کرنا کوئی اتفاقی اور اس شخص کی ذاتی خواہش نہیں ہے بلکہ عراق کے لیے مغرب اور صیہونیت کا نیا جال ہے۔
گزشتہ 28 جون کو اسٹاک ہوم میں سلوان مومیکا نام 37 سالہ عراقی سویڈش شہری نے عید الاضحیٰ کے دن قرآن پاک کو اس شہر کی مرکزی مسجد کے سامنے نذر آتش کیا،یہ کاروائی سویڈش پولیس کی اجازت سے کی گئی جس پرعالم اسلام کی تمام تنبیہات اور مسلمانوں کے غصے اور بیزاری کے اعلانات ہوئے لیکن اس کے باوجود صرف چند ہفتوں کے عرصے میں سویڈن کی حکومت نے ایک بار پھر اس ہتاک اور اس کے ساتھیوں کو اسلام مخالف ریلی نکالنے کی اجازت دے دی جس کے بعد 20 جولائی کو دوپہر کے وقت اس عراقی مہاجر نے اسٹاک ہوم میں عراقی سفارت خانے کے سامنے دوسری بار قرآن پاک کی توہین کی اور عراقی پرچم کو اپنے پیروں تلے روندھا۔
یہ بھی پڑھیں: مقدسات کی توہین کا مغرب کا آلہ کار ہے:عطوان
اسی دوران کئی تجزیہ کاروں نے کہا کہ سویڈن میں ایک عراقی نوجوان کی طرف سے قرآن پاک کو جلانے کی کاروائی کوئی حادثہ نہیں تھا، المیادین چینل کی ویب سائٹ نے اس معاملے پر ایک تجزیہ شائع کرتے ہوئے لکھا کہ مغرب کی جانب سے اسلامو فوبیا کے منصوبے کے مطابق یہ دکھانا تھا کہ عرب شہری بھی اپنی مسلم برادریوں سے بھاگ رہے ہیں،یہ پیغام دینے کے لیے انہیں مومیکا صحیح آدمی لگا،اس تجزیے کے مطابق سویڈن میں قرآن کو جلانے کا جرم مسلمانوں کو اکسانے، ان کی توہین اور تذلیل کرنے کے مقصد سے کیا گیا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ اسلام اور دنیا میں اس کا اقتدار اپنی مقدس کتاب قرآن کا تحفظ نہیں کرسکتے، اس کاروائی کا مقصد طویل المدتی تنازعات پیدا کرنا ہے۔
یورپی یونین میں عراق کے سابق سفیر جواد الهنداوی نے رائے الیوم اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم میں سویڈن میں ایک عراقی پناہ گزین کے ہاتھوں حالیہ بے حرمتی کی تحقیقات کرنے کے بعد لکھا کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ قرآن کریم اور عراق جس کی قومی علامت دہشت گردی اور چیلنجز پر فتح حاصل کرنا اور مختلف بحرانوں سے نکلنے کی کوشش کرنا ہے،کے پرچم کو جلانا سلوان مومیکا کی ذاتی خواہش تھی،انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ عراق کو مغرب کی فتنہ انگیزی کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے، مزید کہا کہ عراق اور خطے میں رونما ہونے والے واقعات اور صورتحال یا عراق اور علاقے اور قومی نشانیوں اور مقدسات کو نشانہ بنانا حادثاتی نہیں ہے، ہر واقعہ یا مظاہر میں ایسے تار ہوتے ہیں جو ایسے جنریٹروں سے جڑے ہوتے ہیں جو فتنہ، تقسیم اور بارود، مقدسات کی توہین، عقائد، ، خودمختاری اور قومی اتحاد کی علامتوں کی تخریب سے چارج ہوتے ہیں۔
سابق عراقی سفارت کار اور برسلز میں عرب-یورپی مرکز برائے پالیسیوں اور صلاحیت سازی کے سربراہ چند سوالات پوچھتے ہیں کہ
1۔ آپ کی رائے می، مسلمانوں اور عرب کے مقدستات، عقائد اور اخلاقی اور قدر و قیمت کے استحکام کے خاتمے اور تباہی سے کس کو فائدہ ہوتا ہے؟
2۔ آپ کے خیال میں عراق کی خودمختاری اور قومی اتحاد کو نشانہ بنانے سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟
3۔ عراق کو اتار چڑھاؤ کے راستے پر آگے بڑھنے اور ملک کے بحرانوں کا حل تلاش کرنے سے روکنے کے لیے کون موقع کا انتظار کر رہے ہیں؟
کالم میں مزید آیا ہے کہ بہت سے لوگ، چھوٹے سے بڑے تک، ان واقعات کے پردے کے پیچھے ہیں جو ملک کے اندر اور باہر ہو رہے ہیں۔ کیا عراق کو جاہلیت، گروہوں اور کرائے کے قاتلوں نیز ان لوگوں کے شر سے آزاد ہو چکا ہے جو اس ملک سے ناراض ہیں جس کی خود مختاری اور فیصلہ سازی ہے اور ایک باوقار اور طاقتور بین الاقوامی مقام بھی ہے؟ الہنداوی مزید یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ موجودہ حالات میں عراق اور قرآن کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے ،لکھتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ عید الاضحیٰ گزر چکی ہے لیکن ہمارے مقدس اور مذہبی دن آنے والے ہیں ، قرآن اور عراق کو ایسے وقت میں کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے جب ہم سرمایہ کاری کی نشاۃ ثانیہ، سفارتی آغاز، سرمایہ کاری کے بڑے معاہدوں پر دستخط کرنے ، وعدہ کرنے ،عراق کے آبی حقوق، علاقائی سالمیت اور تیل کے مشترکہ شعبوں کے بارے میں قومی بیداری کے نزدیک ہو رہے ہیں۔
کالم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ قرآن کریم کی توہین کا اعادہ کیا جائے گا تاکہ یہ فعل ایک بیہودہ اور نیا فیشن بن جائے جس کا مقصد اس مقدس کتاب کا عربوں اور مسلمانوں کے نزدیک تقدس اور مقام و مرتبے کو پست اور تباہ کرنا ہے، ہم میں سے کون سوچ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی بین الاقوامی حمایت سے انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کے نعرے کے ساتھ توہین کی جائے گی، آئیے ماضی قریب کا جائزہ لیتے ہیں، اس صورت میں ہم اس سوال کے جواب تک پہنچ جائیں گے کہ قرآن اور عراق کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس سابق عراقی سفارت کار نے لکھا کہ عراق کا ایران کے ساتھ جنگ میں داخل ہونا اور پھر کویت پر قبضہ اور اس کے بعد عراق پر قبضہ اور محاصرہ، اس کی دولت کی لوٹ مار نیز اس کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی،دہشت گردی، عظیم مشرق وسطیٰ، فلسطین کے بارے میں سمجھوتہ، محاصرہ اور قبضہ جیسے منفی مظاہر کو لے کر عربوں اور خطہ کے ممالک کے ساتھ بات چیت کا پیش خیمہ تھی، ان منصوبہ بند اور من گھڑت مظاہر کے خلاف عرب ممالک اور خطے کی اسلامی حکومتیں دو حصوں میں تقسیم ہو گئیں؛کچھ مزاحمتی تحریک کی حمایت کرنے والی ہوگئیں اور کچھ اس کے خلاف جبکہ عراق بھی اس معاملے میں پیش پیش تھا!
مزید پڑھیں: قرآن کی توہین کے پیچھے کون لوگ ہیں؟
الہنداوی کے مطابق جب تک شر اور تباہی کی قوتیں عربوں اور خطے میں پہلے بیماری پھیلانے اور پھر دوا دے کر سکون عطا کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی ، شیطانی اور تباہ کن قوتیں عراق میں اپنا کام جاری رکھیں گی، جس طرح دہشت گردی کا آغاز ہوا اور عراق میں پھیل گیا، وہ دہشت گردی کے ہتھیار سے ناکام ہوئے اور اس کی جگہ نرم طاقتوں نے لے لی جو انسانی حقوق، آزادی اظہار رائے اور جمہوریت کو استعمال کرتے ہوئے بااثر بنتی ہیں اور اس طرح اثر انداز ہو کر مقدسات کی توہین ختم کرنے کی سمت بڑھ جاتی ہیں، ابھی ہم اس مقصد کے لیے تیار کیے گئے ایک طویل راستے کے آغاز پر ہیں جس میں نام نہادجمہوریت کے بہانے ہم جنس پرستی کو مسلط کرنا اور مقدسات کی توہین کرنا اور ان کا وقار ختم کرنا شامل ہے
عراقی قلمکار اور تجزیہ نگار نے مزید کہا کہ مزاحمت کے ہتھیار سے ہم نے دہشت گردی کے ہتھیار کو کچل دیا، اب برائی اور تباہی پھیلانے والی قوتوں کے نرم ہتھیار کو مزاحمت کے نرم ہتھیار سے تباہ کریں جومذمت کے ساتھ ساتھ سفارتی طریقوں سے موجودہ سفارتی معاہدوں اور قوانین پر مبنی ہے،آئیے ہم سیاسی نظام کی جمہوریت، اسلامی اخلاقیات، اپنے مہذب رویے اور اس رویے کی جڑ کو دنیا کے سامنے ثابت کریں،ہمیں اپنی تہذیب ،تاریخ اور اسلامی اخلاقیات پر ہمیشہ فخر رہا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اسے دنیا کے سامنے ثابت کیا جائے اور ان شیطانی اور تباہ کن قوتوں کے خلاف ثابت قدم رہیں جو ہماری خودمختاری اور عراق کی ترقی اور اس کے بین الاقوامی اور سفارتی تعلقات کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
الہنداوی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شریر اور تباہ کن قوتیں اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کے لیے عراق کو ایک بار پھر افراتفری کی طرف گھسیٹنا چاہتی ہیں ،ان شیطانی اور تباہ کن قوتوں کا سرغنہ اسرائیل ہے اور سلوان مومیکا کے جرم کا بغداد میں صہیونی جاسوس الزبتھ تسوروکوف کی گمشدگی سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اسرائیل نے عراقی حکام سے اس کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرنے کا کہا ہے،الہنداوی نے اپنے کالم میں تاکید کی ہے کہ جو لوگ ہمیں قرآن سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں،ان کے لیے ہمارا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات پر زیادہ سے زیادہ عمل کریں، اور اس کی تعلیمات پر عمل کریں،نیک عمل انجام دیں اور برائیوں اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان سے دور رہیں۔