طوفان الاقصیٰ میں اسرائیل کی سب سے بڑی ناکامی کیا رہی؟

صیہونی

🗓️

سچ خبریں: حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت کے سیاسی عدم استحکام، قانون کے خاتمے، فوج کے انحطاط، جبر اور بدعنوانی کی وجہ سے شروع ہونے والی ریورس ہجرت کی لہر طوفان الاقصیٰ کے بعد تیز ہو گئی ہے۔

مئی 1948 اور نکبہ کے پہلے سال سے لے کر آج تک صیہونی حکام نے فلسطینی زمینوں پر بتدریج قبضے اور بستیوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پوری دنیا سے یہودیوں کو اس سرزمین پر لانے کی بھرپور کوششیں کیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا اب اسرائیل رہنے کی جگہ نہیں رہا،خود اسرائیلی کیا کہتے ہیں؟

اس مسئلے پر تجزیاتی اور شماریاتی نظر ڈالنے سے یہودیوں کو مقبوضہ علاقوں میں منتقل کرنے کے منصوبے کی ناکامی کا پتہ چلتا ہے،یہودی نہ صرف ان مقبوضہ علاقوں میں آنا نہیں چاہتے بلکہ ان علاقوں میں رہنے والے بھی وہاں سے نکلنے کا موقع ڈھونڈ رہے ہیں۔

صہیونیوں کا مقبوضہ علاقوں سے نکلنے کا عروج
اگرچہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے ریورس ہجرت کی لہر کی رفتار کو ہوا دی لیکن یہ رجحان مختلف وجوہات کی بنا پر ایک طویل عرصے سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔

صیہونی حکومت کے ٹیلی ویژن کے چینل 12 نے اس سال اگست میں نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کے خلاف مظاہروں کے دوران اور صیہونی آبادکاروں میں بڑھتی ہوئی بے چینی نیز اس ریاست کی بقا کے سلسلہ میں پائی جانے والی تشویش پر ایک سروے شائع کر کے اس حقیقت کا انکشاف کیا اور کہا کہ 33 فیصد اسرائیلی مقبوضہ فلسطین سے نکلنے کا سوچتے ہیں۔

قبل ازیں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ ایک ہنگامی میٹنگ میں اسرائیلی ڈاکٹروں کی یونین نے اعلان کیا تھا کہ نیتن یاہو کی عدالتی تبدیلیوں کے باعث کم از کم 500 ڈاکٹروں کے مقبوضہ علاقے چھوڑنے کا امکان ہے،صیہونی حکومت کے ڈاکٹرز اور فعال نیز غیر فعال ریزرو فوجی ان اہم ترین گروہوں میں شامل تھے جنہوں نے نیتن یاہو کے اس منصوبے پر سختی سے اپنے اعتراضات کا اظہار کیا۔

غزہ کی جنگ سے قبل مقبوضہ بیت المقدس میں مناخیم بیگن انسٹی ٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ 70 فیصد سے زائد اسرائیلیوں نے دوسرے پاسپورٹ کے لیے درخواست دی ہے،صہیونی اخبار ہارٹیز نے صیہونی حکومت کے مرکزی ادارہ شماریات کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2015 سے (العصف الماکول جنگ کے بعد) اسرائیل چھوڑنے والے یہودیوں کی تعداد تقریباً 17 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

اسی دوران عبرانی اخبار معاریو نے اطلاع دی ہے کہ بگڑتے ہوئے معاشی حالات، عدم مساوات کے احساس، امن عمل کے رکنے پر مایوسی اور شدت کی تشویش کی وجہ سے 2020 تک 756000 سے زیادہ صہیونی مقبوضہ علاقے چھوڑ چکے ہیں۔

فلسطین سے یہودیوں کے اخراج میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ سرزمین میں یہودیوں کے داخلے میں بھی کمی آئی ہے،اس سلسلے میں صہیونی تنظیم Nefesh Ban Nefesh، جو دنیا کے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کرنے پر آمادہ کرنے میں مصروف ہے، نے حال ہی میں اطلاع دی ہے کہ فلسطین میں امریکی اور برطانوی یہودیوں کی ہجرت بالخصوص نوجوانوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

مغربی ممالک سے 2023 کے آغاز سے مقبوضہ علاقوں میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی کی شدت اس طرح ہے کہ ویب سائٹ "وائی نیٹ” کے مطابق ان دنوں وزارتِ امیگریشن یہودی ایجنسی اپنے ایلچیوں ان لوگوں میں گھروں میں بھیجتی ہے جو مقبوضہ علاقوں میں ہجرت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کو شروع کر سکیں اور انہیں مقبوضہ علاقوں میں ہجرت کرنے پر آمادہ کریں۔

طوفان الاقصیٰ سے پہلے اور بعد میں ریورس ہجرت کے پس پردہ حقیقت
ریورس ہجرت کی لہر کو دو مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
پہلا دور غزہ کی جنگ سے پہلے کا ہے جو بنیادی طور پر صیہونی حکومت کے اندرونی عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔
جنگ کے بعد کا دور، جب اندرونی مسائل میں بیرونی سکیورٹی کے اجزاء شامل کیے جاتے ہیں۔

غزہ کی جنگ سے پہلے کے عرصے میں قانون کے خاتمے ، انتشار ،فوج کے انحطاط، جبر، اور بدعنوانی کی حمایت جیسے مسائل نے اس سرزمین میں بے اطمینانی کو ہوا دی اور الٹی ہجرت کی راہ ہموار کی۔

غزہ جنگ سے پہلے صیہونی حکومت کے حالات اس قدر خراب تھے کہ مقبوضہ علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی کی ایک بڑی وجہ خانہ جنگی کا خوف تھا،جنتگ سے پہلے کیے جانے والے ایک سروے سے ظاہر ہوا کہ ایک تہائی صہیونی مقبوضہ فلسطین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں جس کی سب سے اہم وجہ ان میں پایا جانے والا خانہ جنگی کا خوف تھا، جس سے 58 فیصد آبادکار پریشان تھے۔

صہیونی نقل مکانی کو متاثر کرنے والے دیگر عوامل میں اقتصادی اور معاشی مسائل بھی ہیں،جس طرح طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے سروے میں حصہ لینے والوں میں سے 36 فیصد نے اس بات پر زور دیا کہ وہ معاشی بحران سے پریشان ہیں،یہ بحران جو نیتن یاہو کی مبینہ عدالتی اصلاحات کی منظوری کے بعد مزید گہرا ہوا،معاشی صورتحال کی خرابی، مزدوروں کی وسیع ہڑتالیں، ایک سال سے بھی کم عرصے میں بینکوں کی شرح سود میں نویں مرتبہ اضافہ اور سرمائے کی تباہی میں 10 گنا اضافہ اس میں شامل تھے۔

طوفان الاقصیٰ کے بعد معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہو گئی ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بے روزگار افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کے دہانے پر ہے،کچھ عرصہ قبل صہیونی وزارت محنت نے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے 26ویں دن تک 760000 اسرائیلی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں نیز یہ اعداد و شمار بلاشبہ اب تک بڑھ چکے ہیں۔

اس سے قبل صیہونی حکومت کے مرکزی ادارہ شماریات کی طرف سے الاقصی آپریشن اور غزہ جنگ کے تیسرے ہفتے میں کیے گئے ایک سروے میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے شمال اور جنوب میں 65 فیصد کمپنیاں اپنی آمدنی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ کھو چکی ہیں۔

اس افراتفری کی صورتحال کے باعث 300 سینئر صہیونی ماہرین نے خبردار کیا کہ صیہونی حکومت کی معیشت مشکل وقت سے گزر رہی ہے اور نیتن یاہو کی کابینہ کو اقتصادی صورت حال کی خرابی کو روکنے کے لیے فوری کاروائی کرنا چاہیے۔

نیز اسرائیل میں پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے جنگ کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو پہنچنے والے بھاری مالیاتی جھٹکوں اور نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت نے اپنے لوگوں کو چھوڑ دیا اور ان کے نقصانات کی تلافی کرنے کی کوشش نہیں کی۔

مجموعی طور پر صیہونی حکومت کی معیشت پر طوفان الاقصیٰ آپریشن کے تباہ کن نتائج کو ان چیزوں میں شامل سمجھا جا سکتا ہے؛ صیہونی حکومت کے تیل، گیس اور ریفائنری کے کاموں میں خلل، بندرگاہوں کے ذریعے برآمدات اور درآمدات کا بند ہونا، بستیوں کی تعمیر جیسے بڑے تعمیراتی منصوبوں کا رک جانا، جنگی اخراجات کے لیے قرضے لینے کی وجہ سے فنڈز کی کمی، 300000 ریزرو فوجیوں کے مستعفی ہونے کی وجہ سے افرادی قوت میں کمی، اسٹاک مارکیٹ کا زوال ، غذائی تحفظ میں کمی، شیکل (صیہونی حکومت کی مالیاتی اکائی) کی قدر میں کمی، تیل اور گیس کی ترسیلی لائنوں کو نقصان، غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی، غیر ملکی سیاحوں کا مقبوضہ علاقوں میں نہ آنے کی وجہ سے سیاحت کی آمدنی میں کمی، جنگی علاقوں میں زرعی کام بند ہونے سے زرعی شعبے کو پہنچنے والا نقصان، بنیادی اشیا کی قلت ۔

آخری بات
اگرچہ الٹی ہجرت کا رجحان بہت پہلے شروع ہوا تھا لیکن غزہ میں جنگ کے ساتھ اس میں تیزی آئی ہے، اس لیے طوفان اقصیٰ سے پہلے اور بعد کی دو صورتحالوںمیں اس کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

 پہلا مرحلہ جو غزہ جنگ سے پہلے تک جاتا ہے، بنیادی طور پر اس حکومت کے اندرونی عوامل سے متاثر ہوتا ہے اور قانون کا خاتمہ اور افراتفری پھیلانا، فوج کا ٹوٹ جانا، ظلم، جبر اور کرپشن جیسے مسائل اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں،اس بحران کا عروج متنازعہ عدالتی اصلاحات سے شروع ہوا، ان بظاہر مفید اصلاحات کے ذریعے نیتن یاہو اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں صیہونیوں کی مشکلات دوگنی ہوگئیں اور غزہ جنگ کا جاری رہنا مقبوضہ علاقوں میں معاشی بحران کی شدت کی بنیاد بن گیاجس سے 760000 افراد بے روزگار ہوگئے ،افرادی قوت میں کمی، اسٹاک مارکیٹ کا زوال، شیکل (حکومت کی کرنسی) کی قدر میں تیزی سے کمی، ملکی اور غیر ملکی سرمائے میں کمی اور اس کے علاوہ غیر ملکی ذخائر میں سات ارب ڈالر کی کمی ان مسائل میں سے ایک ہے۔

مزید پڑھیں: کیا امریکہ میں یہودی ریاست بنے گی؟

اب معاشی کے مسائل کے علاوہ صہیونی بستیوں کی خفیہ حفاظت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے اور مقبوضہ سرزمین کے مکین نہ صرف اقتصادی خوشحالی سے لطف اندوز نہیں ہو پا رہے بلکہ مزاحمتی میزائلوں کے مسلسل خوف کی وجہ سے بھی ان کی جان بھی خطرے میں ہے جس کے بعد مقبوضہ زمینوں کو چھوڑنے کے لیے مزید پرعزم ہو گئے ہیں ، یہ وہ حقائق ہیں جنہوں نے وعدہ شدہ زمین پر واپسی کے منصوبے اور خواب کو مٹی میں ملا دیا ہے۔

مشہور خبریں۔

کیا فواد چوہدری پر سفری پابندی حکومت کو مہنگی پڑ گئی؟

🗓️ 6 جولائی 2024سچ خبریں: سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی جانب سے اپنا نام

جنوبی فلوریڈا میں ہنگامی صورتحال کا اعلان، السا سمندری طوفان کا خطرہ

🗓️ 4 جولائی 2021سچ خبریں:السا استوائی طوفان امریکی ریاست فلوریڈا کی طرف بڑھ رہا ہے

شام کے ساتھ رابطے کے لیے عرب ممالک کے سیاسی اقدامات

🗓️ 24 جنوری 2023سچ خبریں:سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے شامی حکومت

بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا

🗓️ 17 مئی 2021سرینگر (سچ خبریں) بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں دہشت

بلوچستان میں سیلاب سے 43 فیصد فصلوں، 30 فیصد باغات کو نقصان پہنچا، اقوام متحدہ

🗓️ 19 اکتوبر 2022بلوچستان:(سچ خبریں) بلوچستان میں فوری ضررویات کی جائزے پر مبنی رپورٹ میں

یوکرین جنگ نے امریکی ہتھیاروں کے گوداموں کو بھی خالی کر دیا:وال سٹریٹ جرنل

🗓️ 30 اگست 2022سچ خبریں:امریکی فوجی حکام کے مطابق یوکرین کو اربوں ڈالر مالیت کے

سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے نتائج کا اعلان عوام کے سامنے کیا جائے گا:الحوثی

🗓️ 11 اپریل 2023سچ خبریں:یمن کی سپریم سیاسی کونسل کے رکن نے کہا ہے کہ

کیا فلسطینی عوام طوفان الاقصی آپریشن سے خوش ہیں؟

🗓️ 23 مارچ 2024سچ خبریں: صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تحریک کے عظیم الشان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے