سچ خبریں: اگر صیہونی حکومت طویل عرصے تک لبنان کے جنوب میں کاروائی کرنے اور اپنے احمق پن کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو تاریخی فلسطینی علاقوں کے اندر مزاحمتی خلیوں کے فعال ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران لبنان میں صیہونی حکومت اور اسلامی مزاحمتی تحریک کے درمیان کشیدگی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے، مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ پر جنگ کا خطرہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حکومت کی انٹیلی جنس سروسز (33 روزہ جنگ کے بعد سے) تل ابیب اور حزب اللہ کے درمیان ایک غیر معمولی تصادم کے امکان کی اطلاع دے رہی ہیں ، واضح رہے کہ جہاں ایک طرف نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت لبنان کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کے لیے صیہونی رائے عامہ کو تیار کرنے میں مصروف ہے، وہیں نیتن یاہو کے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کی وجہ سے حکومت کے اندر سیاسی ماحول انتہائی خراب حالت میں ہے،صہیونی جماعتوں اور مکینوں کے درمیان اختلافات کی سطح اتنی زیادہ ہے کہ بعض نے حملہ کرنے یا فوج سے دستبرداری کی دھمکی بھی دی ہے، ایسے میں صیہونی حکومت کے سینئر تجزیہ کاروں نے اندرونی تنازعات کے خاتمے اور عظیم شمالی دشمن لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ پر توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:صیہونیوں کی نیندیں حرام کرنے والا حزب اللہ کا نیا ہتھیار
شمالی محاذ پر کشیدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟
2023 کی پہلی ششماہی میں چھ واقعات لبنان کی اسلامی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے۔
1۔ سب سے پہلے، اس سال 13 مارچ کو صیہونی فج نے یہ دعویٰ کیا کہ لبنان میں حزب اللہ سے وابستہ فورسز میں سے ایک نے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ستر کلومیٹر اندرں گھس کر کاروائیاں کیں۔
2۔ دوسری کشیدگی 6 اپریل 2023 کو ہوئی جب جنوبی لبنان میں حماس کے مجاہدین نے صیہونی حکومت کے خلاف ایک میزائل حملہ کیا جس سے صیہونی کمانڈر حیران رہ گئے، اس کاروائی کے جواب میں نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ صیہونی فوج نے لبنان، شام اور غزہ میں حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمت سے متعلق مقامات کو نشانہ بنایا، دوسری جانب سید حسن نصر اللہ نے صیہونی وزیر اعظم کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے تل ابیب کے اقدامات کو کیلے کے فارموں کے خلاف اندھے حملے قرار دیا۔
3۔ تیسرا اہم واقعہ 4 مئی 2023 کو جہاد اسلامی کے خلاف صیہونی فوج کے "تیر اور ڈھال” آپریشن تھا ،اس آپریشن میں تل ابیب نے مزاحمتی گروپوں کو تقسیم کرنے اور حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد کے مشترکہ آپریشن روم کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔
4۔ جنوبی سرحدوں میں حزب اللہ کی مشق اور مقبوضہ علاقوں پر حملے کو مزاحمت اور تل ابیب کے درمیان کشیدگی کا چوتھا نقطہ سمجھا جاتا ہے، اس مشق میں حزب اللہ کی جارحانہ یونٹوں نے دشمن کو مختلف قسم کے جارحانہ ڈرونز، ٹینک شکن میزائلوں اور بھاری راکٹ لانچروں سے نشانہ بنایا۔
5۔ حزب اللہ اور صیہونیوں کے درمیان پانچواں سنگین چیلنج لبنان کے گاؤں الغجر پر صیہونی قبضہ جس کے مقابلے میں سرحد پر حزب اللہ کے خیموں کا قیام ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے لبنان میں مقیم اقوام متحدہ کی امن فوج کی ثالثی کے ساتھ ساتھ تل ابیب دھمکیوں کی زبان استعمال کرتے ہوئے سرحدی مقامات پر حزب اللہ کے خیموں کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے،دوسری جانب صہیونی حکام نے کمانڈروں کی کسی بھی غلط فہمی کے خلاف خبردار کیا اور اعلان کیا کہ اگر تل ابیب نے حزب اللہ کے خیموں کے خلاف فوجی کاروائی کی تو اسے جوابی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
6۔ لبنان کے سرحدی علاقوں میں کشیدگی کا تازہ ترین واقعہ صیہونی حکومت کے جاسوس کیمروں کو صیہونیوں کے نصب کردہ مستولوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے،اس واقعے میں لبنانی نوجوانوں نے صیہونی حکومت کی سرحدی نقل و حرکت میں اضافے اور الغجر کے اسٹریٹیجک گاؤں پر مسلسل قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صیہونی حکومت کی نگرانی کرنے والوں کی آنکھیں اندھی کر دیں۔
قبضے کی پالیسی کی لاگت میں اضافہ
مقبوضہ علاقوں کی شمالی سرحدوں میں فوجی جنگ شروع ہونے کے امکانات میں اضافے کے باعث امریکی سفارت کار اس خطے میں جنگ کے واقعات کو روکنے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ یوکرین میں جنگ کے طویل ہونے کے باعث واشنگٹن نے کیف کو کلسٹر بم جیسے جارحانہ ہتھیار دینے کا فیصلہ کیا ہے نیز بنیادی طور پر یوکرینی جنگ کے میدانی مساوات کو تبدیل کرنے پر توجہ مرکوز ہیں جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی اور امن مذاکرات کا امکان نہ ہونے کی وجہ سے ڈیموکریٹس کو شمات کے علاقے میں نئی جنگ شروع کرنے میں دلچسپی نہیں دی ہے،درایں اثنا مغربی کنارے میں نیتن یاہو کی انتہا پسند کابینہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں نے یورو-اٹلانٹک کے علاقے میں تل ابیب اور اس کے اتحادیوں پر بین الاقوامی تنظیموں، اسلامی ممالک اور رائے عامہ کی تنقید میں اضافہ کیا ہے، صیہونی حکومت کے خلاف دباؤ میں اضافے کی وجہ سے امریکی قومی سلامتی کی ٹیم اور بیروت میں اس ملک کے سفارت خانے نے اپنی تمام تر توجہ تنازعات کو روکنے اور صیہونی حکومت کو سیاسی اور فوجی تباہی سے بچانے پر مرکوز کر دی ہے۔
لبنانی اخبار البنا نے لبنان کی اسلامی مزاحمتی تاحریک اور صیہونی حکومت کے درمیان کشیدگی کی تازہ ترین صورتحال پر ایک تجزیہ میں اشارہ کیا ہے کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے صہیونی دشمن پر کریش فیلڈ کے گیس تنازعہ کو کنٹرول کرنے والی مساوات کو الغجر گاؤں پر قبضے کے بحران میں بھی مسلط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ اس سے پہلے صیہونیوں نے گولان کی پہاڑیوں، صحرائے سینا اور جنوبی لبنان جیسی عرب سرزمینوں پر قبضہ کرکے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جس کے مقابلہ میں اسے عالمی طاقتوں یا علاقائی حکومتوں کی جانب سے کسی بھی سنجیدہ ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، تاہم اب لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک پختگی اور فوجی طاقت کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے جو صیہونی حکومت کی قبضے کی پالیسی کے خلاف ایک طاقتور فوج کی طرح ردعمل ظاہر کرتی ہے اور تل ابیب کے خلاف توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اگر صہیونی شبعا کے میدانوں سے حزب اللہ کے خیموں کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں الغجر گاؤں کو خالی کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: صیہونیوں پر حزب اللہ کے ڈرونز کا خوف طاری
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی نے حزب اللہ کے خیموں کو ہٹانے کی شرط الغجر گاؤں کے شمالی حصے پر صیہونی حکومت کے قبضے کا خاتمہ اور اس علاقے میں سرحدی دیوار کا منصوبہ ترک کرنا قرار دیا ہے۔
شمالی محاذ میں مزاحمتی تحریک کی بالادستی
صیہونی فوج کی انٹیلی جنس سروس (امان) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں میں حزب اللہ کے ساتھ تصادم کے امکان کا اعلان کیا ہے، تاہم جنین کیمپ میں ناکام آپریشن کی طرح اس ممکنہ جنگ کا مقصد بھی اسلامی مزاحمت کے خلاف صیہونی حکومت کی مزاحمت کو زندہ کرنا ہے، امان انٹیلی جنس سروس شمالی سرحدوں پر ڈیٹرنس بحال کرنے کے بارے میں بات کرتی ہے جب کہ تکنیکی اندازے حزب اللہ کے میزائل اور ڈرون حملوں کے خلاف صیہونی حکومت ک کے لیے بہت زیادہ خطرے کی اطلاع دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ پچھلے سال عبرانی اخبار معاریو نے اس لبنانی گروپ کے میزائلوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ بتائی تھی جن میں سے زیادہ تر میزائل ایسے ہیں جن کی اوسط رینج 4-300 کلومیٹر ہے، لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک اور قدس کی قابض حکومت کے درمیان کسی بھی ممکنہ جنگ میں اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی مزاحمتی تحریک میدان جنگ میں نہیں آئے گی، مقبوضہ فلسطین کا پورا شمال لبنانی میزائلوں کی زد میں آئے گا،لوہے کے گنبد، کامان-3 اور فلخان داؤد کے دفاعی نظاموں کو نظرانداز کرنے کے لیے مزید جدید ٹیکنالوجی تک لبنانی مزاحمت کی رسائی کو مدنظر رکھتے ہوئے الجلیل جیسے مقبوضہ فلسطین کے شمال علاقے میں مادی اور جانی نقصان کا امکان بہت زیادہ ہے۔
خلاصہ
صیہونی حکومت کے فوجی حفاظتی آلات شمالی محاذوں میں حزب اللہ تحریک کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہے ہیں جب کہ مقبوضہ علاقوں کی سیاسی صورت حال تینوں طاقتوں کے درمیان اس قابض حکومت کے قیام کی تاریخ کے سب سے نازک تعلقات میں سے ایک کو ظاہر کرتی ہے، اس کے علاوہ، نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہاپسند اراکین کی انتہا پسندانہ پالیسیاں، مقبوضہ فلسطین کے اندر عرب-یہودی اور سیکولر-مذہبی تقسیم کو بڑھانے کا سبب بنی ہیں جبکہ دوسری طرف حزب اللہ اپنے میزائل ڈرون ہتھیاروں کو تیار کرنے کے علاوہ، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں دیگر مزاحمتی گروپوں کے ساتھ قریبی اور اسٹریٹجک تعلقات رکھتی ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صیہونی حکومت طویل عرصے تک لبنان کے جنوب میں ماجراہ جوائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو تاریخی فلسطینی علاقوں کے اندر مزاحمتی خلیوں کے فعال ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے، اگر اس منظر نامے کا ادراک ہو جائے تو صہیونی کمانڈروں کو شمالی اور جنوبی محاذوں پر بیک وقت جنگ کے ڈراؤنے خواب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔