سچ خبریں: علاقائی امور کے ایک تجزیہ کار نے غزہ پر زمینی حملہ کرنے میں اسرائیل کے خوف زدہ ہونے کے عوامل کو شمار کرتے ہوئے کہا کہ زمینی کاروائی میں تل ابیب کی ناکامی کا امکان فتح سے کہیں زیادہ ہے۔
خطے کے تزویراتی امور کے تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے اپنے حالیہ تجزیے میں لکھا ہے کہ مزاحمتی گروپوں کی کاروائیوں کے نتیجے میں اسرائیل کی قابض کابینہ کو دو مہلک ضربوں کا سامنا کرنا پڑا جو اس حکومت کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی شکست کا سبب بنی،اس حملے نے سب سے پہلے اس کی دہشت کو شکست دی اور دوسری طرف اس کی مزاحمتی قوت کو تباہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا اسرائیل میں غزہ پر زمینی حملہ کرنے کی ہمت ہے؟
عطوان لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس اس خوف کو بحال کرنے اور اپنی ڈیٹرنٹ طاقت کو بحال کرنے کے لیے صرف ایک ہی آپشن ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر زمینی حملہ کرے اور حماس اور جہاد اسلامی تحریکوں نیز دیگر فلسطینی گروہوں کی مکمل تباہ کر دے،شاید یہ تاخیر اس ہچکچاہٹ اور خوف اس خلا کو ظاہر کرتی ہے جس میں صیہونی حکومت اور اس کے جرنیل اس وقت پڑے ہوئے ہیں۔
اس تجزیہ میں اس بحران سے نکلنے کے حوالے سے اسرائیلی فوجی کمانڈروں کے دو اہم آپشنز کی جانچ پڑتال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے انہیں درج ذیل صورتوں میں سامنے لایا گیا ہے:
پہلا: کئی دنوں یا ہفتوں کا فوری حملہ جو مزاحمتی انفراسٹرکچر کی تباہی کا باعث بنے گا،یہ مسئلہ مزاحمتی عناصر کے ساتھ شہر کے اندر اور سڑکوں پر ہونے والی جنگ میں داخل ہونے کا متقاضی ہے جس میں ناکامی کا امکان فتح کے امکانات سے کئی گنا زیادہ ہے کیونکہ غزہ کی پٹی کے محافظوں کو وسیع پیمانے پر عوامی مقبولیت حاصل ہے نیز ان کے پاس میزائلوں ، بموں اور ڈرونز سمیت ہتھیاروں کا ایک ذخیرہ ہے نیز سینکڑوں کلومیٹر لمبی سرنگیں بھی موجود ہیں۔
دوسرا: اسرائیل کو غزہ پر غزہ پر قبضہ کرنے اور اسے مستقل طور پر کنٹرول کرنے کے مقصد سے حملہ کرنے کے لیے دسیوں ہزار فوجیوں اور سکیورٹی فورسز اور لاکھوں بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی منتقلی کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ اسرائیل کی اربوں ڈالر کی لاگت آئے گی نیز اس ے ایک گوریلا جنگ کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنی ہوگی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی اور مالی نقصان ہوگا۔
یہاں جو اہم سوال اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پست حوصلے کی مالک اسرائیلی فوج اتنے خطرناک فوجی مہم جوئی میں داخل ہونے کے قابل ہے؟ اور کیا ریزروسٹ کابینہ کی فوجی خدمات میں واپسی کی درخواست کو قبول کریں گے یا ان میں سے لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور کابینہ کے خلاف نعرے لگائیں گے اور اس کے خاتمے کا مطالبہ کریں گے۔
صیہونی سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے 2008 میں اپنی فوجیں غزہ کی پٹی میں بھیجیں اور وہاں تین ہفتوں تک جاری رہنے والی جنگ شروع کی جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس وقت حماس کے پاس راکٹ اور ڈرون کے ساتھ ساتھ جنگی تجربہ اور بڑی تعداد میں فائٹنگ فورسز اور ٹینک شکن بم نہیں تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ اولمرٹ نے فنانشل ٹائمز سے گفتگو میں نیتن یاہو کی کابینہ کو غزہ میں کسی بھی مستقل یا عارضی فوجی داخلے پر سختی سے خبردار کیا اور اس کے نتائج کے بارے میں بتایا۔
صہیونی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرنل شمعون آراد نے ایک انٹرویو میں اس بات پر زور دیا کہ غزہ کی پٹی میں حماس کی سرنگوں کا وسیع نیٹ ورک اسرائیلی فوج کی پیش قدمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور فوج کے جرنیلوں کے اس تحریک کی بڑھتی ہوئی طاقت کو تباہ کرنے اور اس کے میزائل بیڑے کو روکنے کے لیے غزہ میں داخل ہونے کے فیصلے کو روکتا ہے۔
عطوان نے مزید لکھا کہ مزاحمتی گروہوں کی دفاعی طاقت اس کی جارحانہ طاقت سے بہت زیادہ ہے، کیونکہ ایک دفاعی سپاہی 4 سے 5 حملہ آور فوجیوں سے نمٹنے اور انہیں شکست دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ سب جانتے ہیں کہ ایک فلسطینی مزاحمتی مجاہد 10 دشمن فوجیوں کے برابر ہے کیونکہ وہ شہادت کے جذبے سے لڑتا ہے اور اس مسئلے نے صہیونی فوج کو ناقابل تصور مادی اور انسانی نقصان پہنچایا ہے،دریں اثنا، ان مجاہدین نے غزہ کی پٹی میں صیہونی قبضے کا مقابلہ کرنے کا کافی تجربہ حاصل کر لیا ہے۔
مزید پڑھیں: کیا اسرائیل کے پاس غزہ میں کوئی آپشن ہے ؟
عطوان نے اپنے تجزیے میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اسرائیلی قابض اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہوں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اس شکست کو قبول کرتے ہیں اور اس اور اس کے نتائج کے ساتھ بات چیت اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی تیاری کرتے ہیں یا اپنا تکبر جاری رکھتے ہیں اور حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے دیگر گروپوں کو تباہ کرنے کے مقصد سے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے کے لیے پانچھ لاکھ اسرائیلی فوجی بھیجتے ہیں۔ دریں اثنا، حماس کے اسنائپرز ، اینٹی ٹینک کورنیٹ میزائل ، سرنگوں کا وسیع نیٹ ورک ، خصوصی یونٹ اور اس کے درست میزائل سبھی اسرائیلی فوج کی موجودگی کے منتظر ہیں۔
اسرائیل اپنے وجود سمیت بہت سی چیزیں کھو سکتا ہے جبکہ فلسطینی قوم غزہ کی پٹی میں شکست نہیں کھا سکے گی۔ دوسری طرف مغربی کنارہ اپنی سرزمین، وقار اور مقدس مقامات کو آزاد کرانے اور اپنے عرب اور اسلامی تشخص کو بچانے کے لیے اسرائیلی بستیوں پر حملہ کرنے اور مزاحمت کو تیز کرنے کے لیے تیار ہے۔