سچ خبریں:صیہونی حکومت اور خلیج فارس کے شیوخ کے درمیان متعدد فوجی اور سکیورٹی معاہدوں کے بعداس بار ڈرونز سے لڑنے کے لیے اسرائیل اور عرب اتحاد کی تشکیل کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ تل ابیب کا عربوں کے ساتھ اتحاد کا اصل ہدف ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کی ڈرونز کے معاملہ میں مزاحمتی تحریک کی پیش رفت کے حوالے سے چند روز قبل کی جانے والی تقریر سے کچھ کھی ہی عرصے بعد 18 فروری بروز جمعہ ایک ڈرون جنوبی لبنان سے مقبوضہ فلسطین کےاندر 70 کلومیٹر علاقے میں 40 منٹ کی پرواز کے ساتھ داخل ہوا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فضائیہ اور فوج نےاس ڈرون کو روکنے کے لیے ہیلی کاپٹروں اور جنگی طیاروں سے لے کر آئرن ڈوم سسٹم تک تمام دستیاب سہولیات کا استعمال کیا لیکن اسے روکنے میں ناکام رہے، اس کی وجہ سے اسرائیلی میڈیا اور ماہرین نے صیہونی فوج اور اس کی فضائیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا،تاہم باوجود اس کے کہ اس واقعے کو تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا ہے، ابھی تک اس کا اثر سیاسی اور عسکری حلقوں کے علاوہ خلیج فارس کی عرب حکومتوں کے درمیان صیہونی حکومت کے ماہرین میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
درحقیقت خلیجی شیوخ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صیہونی حکومت ان کی سلامتی کی حفاظت کر سکتی ہے اور اس لیے وہ حکومت کے ساتھ اپنے فوجی اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، انصار اللہ کی کارروائیوں سے خطے میں ڈیٹرنس مساوات کی سطح پر ہونے والی تمام حالیہ صورتحال کے بعد متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ فلسطین کے آسمانوں میں حزب اللہ کے ڈرونز کے داخل ہونےکا مشاہدہ کیا تو انھوں نے اس طرح کے ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے عام کانفرانس بلائی جس میں عرب اور مغربی عسکری رہنماؤں نے بڑے پیمانے پر شرکت کی۔