سچ خبریں:موجودہ حالات میں صیہونی حکومت کا بحران چند ماہ پہلے کے مقابلے میں اس حد تک شدت اختیار کر گیا ہے کہ اس حکومت کے سیاسی، عسکری اور سکیورٹی لیڈروں نے آنے والے خطرے کا اعتراف کرنے اور خبردار کرنے کے لیے منہ کھول دیا ہے۔
صیہونی ذرائع نے حالیہ مہینوں میں مختلف اندرونی یا بیرونی عوامل کے نتیجے میں اس حکومت کے خاتمے کے بارے میں خبریں شائع کرکے خبردار کیا ہے جبکہ اس سے قبل ایسی رپورٹوں کی اشاعت صیہونی میڈیا میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی تھی لیکن حالیہ برسوں میں مقبوضہ علاقوں میں بحرانوں کی شدت نے اس حکومت کے ذرائع ابلاغ کو موجودہ صورتحال اور اس کے خطرناک نتائج کا اعلان کرنے پر مجبور کیا ہے۔
ایسے حالات میں کہ جب خود صیہونیوں کے بقول صیہونی حکومت کی صورت حال اس وقت نازک بن چکی ہے اور اس بحران سے نجات کے لیے سنجیدہ حل کے بارے میں سوچنا ضروری ہے، صیہونی حکام بالخصوص نیتن یاہو کی زیر قیادت حکمران تحریک اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے ہیں اور حالات پرسکون دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
مبصرین کے مطابق صیہونی غزہ اور شام پر وقتاً فوقتاً حملے کر کے اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں نیز اسی طرح کے مزید حربے اپنا کر اصل حقیقت کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس جعلی حکومت کا چہرہ ایسا بنا کر پیش کر رہے ہیں جس نے اس کے اندرونی مسائل نظر نہ آئیں، ایسی حالت میں ہے جب نیتن یاہو اور ان کی ٹیم ان تمام بحرانوں کے باوجود ریت کے محل بنانے کی کوشش کر رہی ہے جو ہوا کے ایک جھونکے سے گر جائیں گے۔
یہاں ہم ان نشانیوں کا جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں جو صیہونی حکومت کے خاتمے کے قریب ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں اور سب سے زیادہ اس حکومت کے اندر سے سامنے آئے ہیں:
1) مغربی کنارے میں مزاحمت کی صلاحیت میں مضبوطی
حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت نے غزہ میں فلسطینی مزاحمت کے ساتھ جنگ میں بہت سے سخت سبق سیکھے ہیں، یہاں تک 2021 میں سیف القدس کی لڑائی میں ثابت ہو گیا کہ غزہ القدس اور مغربی کنارے کا حامی بن چکا ہے،2022 کے وسط سے، مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت کی مضبوطی اور صیہونی مخالف کاروائیوں میں نمایاں اضافے کے ساتھ، تل ابیب کے حکام کو فلسطینی مجاہدین کے ایک نئے محاذ کا سامنا کرنا پڑا جسے وہ سنبھالنے کے لیے کبھی تیار نہیں تھے۔
2) سیاسی استحکام کا فقدان
2019 سے اب تک صیہونی حکومت کے سیاسی میدان میں پانچ انتخابات ہوچکے ہیں، ان برسوں میں تشکیل شدہ کابینہ کی زندگی بہت مختصر رہی ہے اور تشکیل ہونے اتحاد پہلے سے زیادہ نازک ہوتے چلے آئے ہیں،یہ مسئلہ کابینہ کے تیزی سے گرنے کا باعث بنا ہے۔ نیتن یاہو کی موجودہ کابینہ سے پہلے، ان کے مخالفین اور بائیں بازو کے لوگ، نفتالی بینیٹ اور یائر لاپڈ کے اتحاد کے ساتھ، پہلی بار اتحادی کابینہ میں آٹھ جماعتوں کی موجودگی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوئے، وہ جماعتیں جو کبھی کبھی سیاسی نظریات پر مختلف نظریہ رکھتی تھیں،اس کے بعد نیتن یاہو اپنے تمام اسپیکٹرم سے انتہائی دائیں بازو کے دھاروں کو جمع کر کے اپنی نئی کابینہ تشکیل دینے میں بھی کامیاب رہے اس حد تک کہ کابینہ کی تشکیل کے دوران انہوں نے ان دھاروں کے اختلافات کو حل کرنے میں کچھ وقت صرف کیا جن میں انتہاپسندانہ رجحانات بھی ہیں۔
3) صہیونی معاشرے میں شدید تفرقہ
حالیہ مہینوں میں، مقبوضہ سرزمین میں صہیونی معاشرے کے درآمد کیے گئے مختلف طبقات کے درمیان اختلافات اور خلاء میں نمایاں رجحان رہا ہے، سفاردی اور اشکنازی (مغربی اور مشرقی) یہودیوں کے درمیان اختلافات اور صہیونی معاشرے کے منظر نامے میں طویل عرصے سے موجود سیکولرز اور مذہبی انتہا پسندانہ دھاروں کے درمیان تناؤ جیسے مسائل کے علاوہ، اس وقت نیتن یاہو کی کابینہ کی پالیسیوں، خاص طور پر عدالتی میدان میں اصلاحات نے ان تقسیموں کو مزید بڑھا دیا ہےاس حد تک کہ تل ابیب کی سڑکیں موجودہ وزیر اعظم کے مخالفین اور حامیوں کا میدان جنگ بن چکی ہیں۔
4) روک تھام کی طاقت کا خاتمہ
صیہونی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس سروس (امان) نے حال ہی میں اس حکومت کے سکیورٹی اور سیاسی حکام نیز فوج کو اسرائیل کی ڈیٹرنس پاور کے ضائع ہونے کے حوالے سے ایک بے مثال انتباہ جاری کیا ہے۔
5) ریورس ہجرت کی شدت اور معاشی تباہی کی سرگوشیاں
مقبوضہ فلسطین پر چھائے ہوئے بحرانوں نے یہاں رہنے والے صہیونیوں کے ایک بڑے حصے کو ریورس ہجرت کرنے اور اپنے اصل وطن کی طرف لوٹنے کا سوچنے پر مجبور کر دیا ہے،اس سلسلے میں امریکی ادارے IATI نے ایک اسرائیلی کمپنی کے تعاون سے ایک نئے سروے کے نتائج شائع کیے ہیں جس کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ صیہونی حکومت کی نئی ٹیکنالوجی کے شعبے میں 90 فیصد کاروباری افراد اور ایگزیکٹوز اسرائیل سے منتقلی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
6) صہیونی فوج کی کمزوری
نیتن یاہو کے دور میں صیہونی فوج میں موجود بحران نہ صرف حل نہیں ہوئے بلکہ مزید شدید ہو گئے ہیں،حالیہ دنوں میں نیتن یاہو سیاسی کشیدگی کے درمیان اپنے وزیر جنگ کو برطرف کرنے پر غور کر رہے تھے، تاہم مختلف سفارشات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد اب تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
خلاصہ
2023 کے اوائل میں نیتن یاہو کی کابینہ نے اپنے کے آغاز سے لے کر اب تک نہ صرف یہ کہ سابقہ بحرانوں کو حل نہیں کیا بلکہ اپنی پالیسیوں سے مقبوضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال کی شدت میں اضافہ کیا ہے،مقبوضہ علاقوں کی صورتحال اس قدر نازک ہو چکی ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن بھی اسرائیل میں رونما ہونے والے واقعات سے پریشان ہیں اور صہیونی رہنماؤں کو اس بارے میں خبردار کر رہے ہیں، یقیناً یہ انتباہ بھی امریکہ کے اس شدید خوف کی وجہ سے ہے کہ اسرائیل کے مزید کمزور ہونے سے خطے میں واشنگٹن کے دیرینہ مفادات کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پوزیشن موجودہ صورتحال سے زیادہ کمزور ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ یہ ایسی حالت میں ہے جب صیہونی حکومت کے خاتمے کی خطرے کی گھنٹی ماضی کے مقابلے میں ان دنوں بہت زیادہ سنائی دے رہی ہے،ان واقعات نے موساد کے سابق سربراہ تامر پاردو کو اس حقیقت کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا کہ اسرائیل خود اندر سے تباہ ہو رہا ہے، ایسے الفاظ جو اسرائیلی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ آموس گلعاد کے بیان سے ملتے جلتے ہیں، گلعاد نے حال ہی میں کہا تھا کہ اسرائیل ایک ایسے محل کی طرح ہے جسے چوہے اندر سے کھا رہے ہیں!