سچ خبریں:صیہونی حکومت میں قانون کا خاتمہ، فوج کا بکھر جانا، کمزور اتحادوں کی تشکیل، جبر، معاشی بدحالی اور ہجرت میں اضافہ اس حکومت کے زوال کی چند نشانیاں ہیں۔
مقبوضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے کے بعد صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حال ہی میں عدالتی اصلاحات کے اپنے منصوبے سے دستبرداری اختیار کر لی ہے، تاہم مقبوضہ علاقوں میں فسادات نہ صرف تھمے نہیں، بلکہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔
اس مسئلے کی وجہ سے صیہونی حکومت کے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے نظریہ کی حقیقت کے بارے میں قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا ہے، انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کے چیف ایڈیٹرعبدالباری عطوان اس بارے میں لکھتے ہیں کہ صیہونی حکومت اس وقت اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے کیونکہ اس حکومت کو دو اہم خطرات درپیش ہیں؛
پہلا: اندرونی تباہی کا خطرہ
دوسرا: اور دوسرا مسلح مزاحمت سے خطرہ، اس لیے کہ لبنان، یمن، غزہ کی پٹی اور عراق میں مزحمتی مجاہدین کے پاس صیہونی ریاست کو تباہ کرنے کے لیے لاکھوں میزائل اور ڈرون ہیں۔
عطوان نے مزید کہا کہ اگر مزاحمتی گروہ عراق کے ساتھ ملحقہ شام کی مقبوضہ سرحد پر واقع امریکی اڈوں پر میزائلوں اور ڈرونوں سے بمباری کر سکتے ہیں اور لبنانی رضوان بریگیڈ اپنے ایک ڈرون کو مقبوضہ گالیلہ کے اندر تک بھیج سکتا ہے تو کیا وقت آنے پر یہ گروہ پوری صیہونی ریاست کے اندر تک میزائل اور ڈرون بھیجنے سے ہچکچائیں گے؟
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتوں کے زوال کے پیچھے 6 اہم عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر اس وقت اسرائیلی غاصب حکومت میں موجود ہیں:
1: قانون کا خاتمہ اور افراتفری کا پھیلنا، جہاں حکمران حالات کو کنٹرول کرنے اور حکومت نیز اس کے اداروں کی ساکھ کو مسلط کرنے سے قاصر ہوں؛ نیتن یاہو اور اس کی حکومت کی جانب سے اصلاحات نافذ کرنے اور عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش وہ چنگاری تھی جس نے احتجاج اور فسادات کو بھڑکا دیا۔
2: فوج کا انحطاط، اس کے نظریے کا خاتمہ، بغاوتوں کا رونما ہونا اور فوجی خدمات سے انکار، جو آج ہم صیہونی ریزرو فورسز بالخصوص فضائیہ دیکھ رہے ہیں، خواہ دائیں بازو کی حکومت کی آمریت کے خلاف احتجاج ہو یا فوجی خدمات سے دستبرداری وغیرہ ہو، یہ قابض حکومت کے فوجی نظریے کی ناکامی کی علامت ہے۔
3: کمزور اور نازک اتحاد بنانا، نیتن یاہو کا قابض حکومت بلکہ شاید دنیا کے دو انتہائی نفرت انگیز لوگوں یعنی وزیر داخلہ ایتمار بین گوئیر اور وزیر خزانہ اور مقبوضہ علاقوں میں انتظامی امور کے ذمہ دار بازل اسموٹریچ کے ساتھ اتحاد، ہیں،یہ دونوں فلسطینیوں کو مارنا، جلانا اور ملک بدر کرنا چاہتے ہیں جو صیہونی حکومت کے زوال سب سے واضح نشانیوں میں سے ایک ہے۔
4: ظلم کی تین حالیتیں؛ یعنی جبر، معاشی زوال اور بدعنوانی کی حمایت، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نیتن یاہو اپنے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو ختم کرنے کے لیے عدالتی نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں،شہید یاسر عرفات نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے زیادہ تر لوگوں اور حکومتوں کے ساتھ ڈیل کی ہے لیکن اسرائیل سے زیادہ کرپشن انہیں کہیں نہیں ملی، انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ان کے اہم لیڈروں کو بھی خریدا جا سکتا ہے۔
5: معاشی صورتحال کا بگاڑ اور مزدوروں کی جامع ہڑتال، ہم نے دیکھا کہ ان حالیہ ہڑتالوں نے قابض حکومت کو مفلوج کر کے اس کے ہوائی اڈے بند کر دیے ہیں، اس کے علاوہ، 20 بینک منیجرز وزیر خزانہ اسموٹریچ کے پاس گئے اور انہیں خبردار کیا کہ حالیہ دنوں میں سرمایے کے فرار میں 10 گنا اضافہ ہوا ہے اور یہی بات ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کمپنیوں کی امن کی تلاش میں لندن، نیویارک، برلن اور ٹورنٹو منتقلی پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
6: بڑے پیمانے اجتماعی امیگریشن میں شدت؛ صیہونی حکومت کے اعدادوشمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صیہونیوں کی بیرون ملک ہجرت میں بے مثال اضافہ ہو رہا ہے اور شاید مقامی اخبارات میں شائع ہونے والے تجزیے اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسرائیل اب بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے لہذا اس کا بہترین حل یہاں سے ہجرت ہے نیز مغربی سفارت خانوں کے سامنے ہجوم اس کی تصدیق کرتا ہے۔