سچ خبریں: نیتن یاہو کی کابینہ جنگ کو جنوبی غزہ میں لے جا کر اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکے۔
ایک ہفتے کی جنگ بندی کے بعد صیہونی حکومت نے 10 دسمبر سے غزہ کے خلاف جنگ کا دوسرا دور شروع کر دیا ،جنگ کے اس دور میں صیہونی حکومت نے شمال کے علاوہ غزہ کے جنوب پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی ہے،اہم سوال یہ ہے کہ جنگ کو جنوبی غزہ منتقل کرنے کے صیہونی حکومت کے مقاصد کیا ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں اسرائیل کے آپریشن
جنگ بندی کی خلاف ورزی اور حملوں کے نئے دور کے آغاز کے بعد صیہونی ملسح افواج کے سربراہ ہرتزی ہالوی نے بیان دیا کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے جنوب میں اپنی زمینی کاروائی شروع کر دی ہے جو اس پٹی کے شمالی حصے کے ساتھ ساتھ جاری رہیں گی۔
ہالوی نے مزید کہا کہ ہم غزہ کی پٹی کے شمال میں مکمل طور پر اور اتنی ہی طاقت اور درست طریقے سے جنگ کو انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسے ہم نے جنوب میں کیا،ہم غزہ کے جنوب میں اپنی کاروائیاں کریں گے اور اس پٹی کے شمال میں بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے آپریشن جاری رکھیں گے۔
صیہونی فوج کے ترجمان ڈینیل ہاگاری نے بھی کہا کہ حماس کے خلاف صیہونی فوج کی کاروائیاں پورے غزہ میں پھیل چکی ہیں، جنوبی غزہ کے بارے میں بھی صیہونی چال الشفا ہسپتال جیسی ہے جہاں انہوں نے کہا تھا کہ حماس کا کمانڈ سینٹر اس اسپتال کے نیچے ہے ، تاہم اس پر قبضہ کرکے انہیں معلوم ہوا کہ یہ ان کی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔
ان ان کا کہنا ہے کہ حماس کے رہنما غزہ کے جنوب میں ہیں جبکہ انھوں نے اس کے لیے ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں لہذا کئی وجوہات کی بنا پر 7 روزہ جنگ بندی کے خاتمے اور غزہ کے خلاف جنگ کے دوسرے دور میں صیہونی حکومت نے اپنی کارروائیوں کو غزہ کی پٹی کے جنوب میں مرکوز کر دیا ہے جن میں سے کچھ وجوہات یہ ہیں:
1۔ شمالی غزہ میں طے شدہ اہداف کے حصول میں ناکامی
جنگ کے پہلے دور میں صیہونیوں نے اپنے لیے دو اہم اہداف مقرر کیے تھے:
الف) حماس کی تباہی، جو بعد مراحل میں حماس کو کمزورکرنے میں بدل گیا۔
ب) عام شہری اور فوجی تمام صہیونی قیدیوں کی رہائی۔
صیہونی دونوں اہداف میں ناکام رہے اور 47 دن گزرنے کے بعد بھی جنگ روکنے کا بنیادی سبب ان دونوں مقاصد تک نہ پہنچنا تھا،صیہونی حکومت کا اندازہ یہ ہے کہ قیدی اور حماس کے جنگجو دونوں جنوبی غزہ میں موجود ہیں ، اسی وجہ سے انہوں نے جنوبی غزہ کے خلاف جنگ شروع کی ہے،اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہاگاری نے یہ کہتے ہوئے کہ فضائیہ کو زمینی افواج کی مدد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور غزہ کی پٹی میں اب بھی 137 قیدی موجود ہیں، اس بات پر زور دیا کہ قیدی مسلسل ان کے ذہنوں پر چھائے ہوئے ہیں اور وہ اس حوالے سے موصول ہونے والی معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
2۔ غزہ جنگ سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت
جنوبی غزہ پر فوجی کاروائیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صیہونی حکومت کو 47 دنوں کی جنگ میں پہلے دور میں ناکامی کے بعد اپنے لیے ایک کامیابی حاصل کرنے کی ضرورت ہے، غزہ کی پٹی کے جنوب میں دو اہم شہر یا علاقے ہیں جن میں سے ایک خان یونس اور دوسرا رفح ہے،خان یونس وہ شہر ہے جس کا نام حماس اور القسام سے جڑا ہوا ہے،اس تناظر میں صہیونیوں نے معلومات شائع کیں اور دعویٰ کیا کہ حماس کے زیادہ تر رہنما غزہ کی پٹی کے جنوب میں ہیں،حماس کو تباہ کرنے میں ناکام صہیونی اپنے فائدے کے لیے اس کے رہنماؤں کے قتل کے ذریعے حماس کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔
3۔ غزہ کے شمال اور جنوب میں حماس کے خلاف اتفاق رائے قائم کرنا
7 اکتوبر کے آپریشن کے بعد غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز میں یروشلم کی قابض حکومت کا ایک مقصد تحریک حماس کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنا تھا لیکن وہ اس جنگ میں ناکام رہی،تاہم تل ابیب نے غزہ کے اس علاقے میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر کے اور شمالی غزہ میں بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر کے رائے عامہ کو اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے خلاف متحرک کرنے کی کوشش کی،غزہ کے شمال سے جنوب کی طرف لوگوں کی جبری ہجرت بھی اسی مقصد کے ساتھ کی گئی۔
تاہم شمالی غزہ کے تقریباً نصف لوگوں نے زبردستی نقل مکانی کرنے سے انکار کر دیا اور جنگ بندی کے اعلان کے بعد بے گھر ہونے والے افراد کا ایک بڑا حصہ شمالی غزہ واپس چلا گیا،اب جنوبی غزہ کے خلاف فوجی کاروائیوں کے ساتھ، صیہونی حکومت غزہ کے شمال اور جنوب دونوں حصوں میں تباہی، بمباری اور مزاحمت کے نقصان میں اضافہ کرکے حماس کے خلاف اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ حماس کی شبیہ بالخصوص فلسطینی عوام میں خراب کرنا صیہونی حکومت کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔
درحقیقت اس طرح صیہونی حکومت حماس پر قیدیوں بالخصوص فوجی اہلکاروں کے تبادلے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے،ساتھ ہی اس سے حماس کو یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ اگر وہ صہیونیوں کے مطالبات پر راضی نہ ہوئے تو وہ جنگ کو پورے غزہ تک پھیلا دیں گے۔
4۔ جنوبی غزہ کے لوگوں کو مصر منتقل کرنا
جنوبی غزہ میں فوجی آپریشن کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت جنوبی غزہ کے لوگوں کو مصر منتقل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، یہ تجویز جنگ کے آغاز سے ہی اس حکومت کی حکمت عملیوں میں موجود ہے لیکن اسے مصر کی سخت مخالفت کے ساتھ ساتھ غزہ کے لوگوں کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا،اب چونکہ رفح شہر رفح کراسنگ کے قریب ہے، صیہونی حکومت اس شہر پر بمباری کرکے فلسطینی عوام کی مصر منتقلی کی کوشش کر رہی ہے،اس صورت میں صیہونی حکومت غزہ پر شمال اور جنوب دونوں طرف سے بمباری جاری رکھے گی اور اپنے غاصبانہ اہداف کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
5۔ نیتن یاہو کو زندہ رہنے کے لیے جنگ کو جاری رکھنے اور اسے بڑھانے کی ضرورت
حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ نیتن یاہو کے لیے زندگی اور موت ہے،اس کا تسلسل نیتن یاہو کی سیاسی بقا کا باعث بن سکتا ہے اور جنگ کا خاتمہ نیتن یاہو کی سیاسی زندگی کے خاتمے کا باعث بنے گا،لہٰذا وہ حماس کو ختم کرنے کے جھوٹے دعوے کے ساتھ اپنے لیے ایک کارنامہ ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں،یہ مسئلہ انتھونی بلنکن کے ساتھ مذاکرات میں بھی ظاہر ہوا، جہاں نیتن یاہو نے حماس کو ختم کرنے کی تجویز کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کے لیے امریکہ اور واشنگٹن کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی۔
صیہونی وزیر اعظم حماس کو ختم کرنے پر اصرار کرتے ہیں جب کہ بہت سے صیہونی، امریکی یہاں تک کہ یورپی حکام نیتن یاہو کے اس موقف کے خلاف ہیں اور اسے ناممکن سمجھتے ہیں،امریکن کونسل آن فارن ریلیشنز کے سربراہ رچرڈ ہاس نے واضح طور پر کہا کہ حماس کو ختم کرنا ممکن نہیں کیونکہ حماس کو ایک تنظیم کے طور پر نہیں بلکہ ایک سوچ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
اسی دوران حماس کو ختم کرنے میں صہیونیوں کی ناکامی کا مکمل مظہر قیدیوں کے تبادلے کے تیسرے مرحلے میں تھا، جب حماس نے شمالی غزہ کے علاقے میں قیدیوں کو ان کے حوالے کیا،اس سے ظاہر ہوا کہ غزہ کے شمال میں حماس کی نابودی کے بارے میں صہیونیوں کی باتیں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھیں اور اب انہوں نے جنوب میں حماس کی شکست کے جھوٹ کو ہوا دے کر اپنی کاروائیاں شروع کر دی ہیں،حماس کے خاتمے کی تجویز دے کر نیتن یاہو مقبوضہ فلسطین کے سیاسی منظر نامے سے اپنے خاتمے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نتیجہ
غزہ کے خلاف جنگ 7 روزہ جنگ بندی کے بعد جاری ہے، ایسے میں جب صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ نے شمالی غزہ کے علاوہ جنوبی غزہ کے خلاف فوجی کاروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے،خان یونس کے دو شہر، ایک شہر کے طور پر جس کا نام حماس سے جڑا ہوا ہے اور رفح شہر جو رفح کراسنگ کے قریب واقع ہے، دونوں میں صیہونی حکومت کی فوجی کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے،صیہونی حکومت کی طرف سے جنوبی غزہ پر توجہ مرکوز کرنے کی کئی وجوہات ہیں لیکن جنوبی غزہ میں فوجی کاروائیوں کی زیادہ تر وجہ نیتن یاہو کی کابینہ اور صیہونی حکومت کو اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کی ضرورت اور کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی ساکھ کو مزید گرنے سے روک سکیں۔
مزید پڑھیں: جنوبی غزہ میں مزاحمت کاروں اور صہیونی جارحیت پسندوں کے درمیان شدید تصادم
تاہم جس طرح شمالی غزہ کے خلاف 47 دنوں کی جنگ صہیونیوں کی کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس نہیں لا سکی، اسی طرح جنگ کا نیا دور انہیں یہ ہدف فراہم نہیں کرے گا، بلکہ انتونیو گوٹریس کے بیان طرح تل ابیب کے خلاف عالمی دباؤ میں اضافہ کرے گا،اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے غزہ کے خلاف جنگ روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کا سہارا لیا ہے۔