سچ خبریں: مقبوضہ علاقوں کے شمالی محاذ میں حزب اللہ کی رضوان یونٹ کی وجہ سے شمالی علاقوں کو خالی کرنے والے صہیونی آباد کار جنگ کے بعد بھی ان علاقوں میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں ۔
غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کے حملے 100ویں دن کی دہلیز پر ہیں ، اگرچہ 23 ہزار سے زائد فلسطینی شہری صیہونیوں کی نسل پرستی کا شکار ہوچکے ہیں لیکن تل ابیب اور صیہونی آبادکار بھی اس آتشزدگی سے محفوظ نہیں رہے۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی حزب اللہ کے ساتھ لڑنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟
صیہونی حکومت کے عسکری اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو الاقصیٰ طوفان آپریشن کے آغاز کے ایک دن بعد 8 اکتوبر کو براہ راست اس جنگ میں شامل ہوئی، نے اپنے پے در پے اور شدید حملوں سے مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ اور صیہونی فوج کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے،اسے ہر روز اسے بھاری جانی نقصان پہنچاتا ہے۔
خوف کی بو اور ویران شمالی شہر
ان دنوں صہیونی حکام کے موقف، عبرانی ذرائع ابلاغ کی خبروں اور آباد کاروں کے خیالات کو دیکھ کر قابض حکومت کے لیے ایک بڑے بحران کا ادراک ممکن ہے،جنگ ختم ہونے کے باوجود بستیوں کو متاثر کرنے والے بحران کے ختم ہونے کی توقع نہیں ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل صیہونی حکومت کے 12 ٹی وی چینل نے اعلان کیا تھا کہ تل ابیب نے شمالی سرحدوں میں تنازعہ کی لکیر کے ساتھ 65 ہزار آباد کاروں کو وہاں سے نکال دیا ہے لیکن اس وقت ہزاروں لوگ سرحدوں کے بالکل قریب علاقے میں موجود ہیں اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے بے ساختہ علاقہ چھوڑ دیا اور انہیں حکومت کی مدد کے بغیر اس انخلاء کے اخراجات خود ادا کرنے پڑے۔
اس لیے شمالی سرحدوں سے تقریباً پانچ کلومیٹر تک کی بستیاں خالی پڑی ہیں اور آباد کاروں میں سے تقریباً 20000 کریات شمونی کے باشندے ہیں، صیہونی حکومت کے اندرونی محاذ کے کمانڈروں میں سے ایک ڈیوڈ عزولائی کا اندازہ ہے کہ اس بستی میں 2600 سے 2800 کے درمیان لوگ رہ گئے ہیں۔
اس وقت صیہونی حکام اپنے ماضی کے تجربات کے ساتھ اس بات سے پریشان ہیں کہ آباد کار شمالی علاقوں میں واپس نہ جائیں کیونکہ وہ حزب اللہ کے حملوں کے مقابلے میں آباد کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔
2006 کی جنگ میں حزب اللہ کو لطانی (لبنانی سرزمین پر لبنان فلسطین سرحدوں) کے دوسری طرف دھکیلنا صیہونی حکومت کی طرف سے لبنان کے خلاف اعلان کردہ اہداف میں سے ایک تھا جسے وہ حاصل نہیں کر سکی اور اب آباد کار تل ابیب کے رہنماؤں کے خالی وعدوں سے خوش نہیں ہیں۔
عبرانی زبان کے اخبار یدیوت احرونٹ نے المطلہ کی مقامی کونسل کے سربراہ ڈیوڈ ازولے کے حوالے سے لکھا ہے کہ شمال میں آج کی صورت حال جنگ سے پہلے کی نسبت بدتر ہے 2006 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر شمالی محاذ کھولنے سے باز رہنے اور حزب اللہ کو سرحدوں سے دور رکھنے کی اسرائیل کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ نصر اللہ جانتے ہیں کہ ہم ان پر حملہ نہیں کریں گے اس لیے ان کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔
عزولائی نے مزید کہا کہ اسرائیل کو سمجھنا چاہیے کہ اگر حزب اللہ لیطانی سے نہیں ہٹتی تو یہاں کوئی حکومت نہیں رہے گی، ہمیں یہاں اپنی موجودگی کی وجہ سے آزادی کی دوسری جنگ کا سامنا ہے،تمام عرب ممالک، ایران اور حزب اللہ ہمیں دیکھ رہے ہیں، جب تک ہم شمالی خطے میں موجود خطرے کو دور نہیں کریں گے، وہ ہمیں کمزور سمجھتے رہیں گے ،اسرائیلی فوج اور حکومت کو شمالی سرحدوں سے اس خطرے کو دور کرنا چاہیے۔
لہٰذا صہیونی حکام اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں کہ حزب اللہ کے خوف کی وجہ سے آباد کار واپس نہیں لوٹتے اور اس سلسلے میں یہودی طاقت پارٹی سے تعلق رکھنے والے Knesset (صیہونی حکومت کی پارلیمنٹ) کے رکن الموگ کوہن نے 26 اکتوبر کو کہا کہ اگر دشمن کو تباہ نہیں کیا گیا تو غزہ کی پٹی کے اطراف میں رہنے والے اسرائیلی اپنی بستیوں میں کبھی واپس نہیں آئیں گے، یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو ہمیشہ مختلف پلیٹ فارمز سے دہرایا جاتا ہے نیز صیہونی 12ویں چینل نے زور دیا کہ آباد کاروں کا انخلاء پیشگی تیاری کے بغیر کیا گیا ،یہاں تک کہ اگر آج جنگ ختم ہو جاتی ہے، ان میں سے بہت سے لوگ تیزی سے شمال کی طرف واپس نہیں جائیں گے۔
صیہونیوں اور آباد کاروں کے خوف کی گہرائی اور سکیورٹی فراہم ہونے میں ان کی مایوسی کا اندازہ کریات شمونہ میونسپلٹی کے نام سے مشہور ادارے کے سربراہ اویخائی اسٹرن کی رائے سے دیکھا جا سکتا ہے، جنہوں نے اعلان کیا کہ جب میں نے سرحد پر حزب اللہ کی افواج کی موجودگی اور گشت کی اس ویڈیو دیکھی تو میں حیران رہ گیا، چنانچہ اسرائیلی فوج نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اب ہم حزب اللہ کو سرحدوں پر نہیں دیکھیں گے اور سرحدوں پر حزب اللہ کا جو بھی عنصر نظر آئے گا اسے مار دیا جائے گا، لیکن وہ تو موجود ہیں،انہیں سرحدی علاقوں کے مکینوں پر گولیاں چلانے سے کون روکے گا؟ 7 اکتوبر کے بعد کیا اب بھی کسی کو سرحدوں کے پیچھے ہمارے دشمنوں کے ارادوں، دھمکیوں اور صلاحیتوں پر شک ہے؟
حزب اللہ کی رضوان ایلیٹ یونٹ، آباد کاروں کا ڈراؤنا خواب
حزب اللہ نے رضوان یونٹ کے نام سے 2500 مضبوط اسپیشل فورسز یونٹ کو تربیت دی ہے اور حتمی تصادم یا فوجی لحاظ سے صیہونی حکومت کے ساتھ ایک مکمل جنگ کے لیے مشقوں کا اہتمام کیا ہے، ایک یونٹ جو شام میں موجود رہی ہے اور اس کے پاس اہم جنگی تجربہ ہے۔
صیہونی حکومت کے ماہرین اور صحافیوں کے نزدیک رضوان افواج کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور حکومت کے ذرائع ان فورسز کو تجربہ کار قوتوں سے تعبیر کرتے ہیں۔
صہیونی اخبارے یدیوت احرونٹ کے عسکری امور کے تجزیہ کار Yossi Yehoshua جن کی تل ابیب میں اعلیٰ سطحی سکیورٹی ذرائع تک رسائی ہے، نے اعتراف کیا کہ جب تک رضوان یونٹ لبنان کی سرحد پر ہے، شمال کے باشندوں کی اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
صہیونی حلقوں کے نقطہ نظر سے رضوان یونٹ کے جنگجو بہت ہنر مند ہیں اور انہوں نے مشکل تربیت حاصل کی ہے،وہ ٹینک شکن ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد استعمال کرتے ہیں، ان میں لمبا فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت، پہاڑی علاقوں میں مشکل مشن انجام دینے کی طاقت اور خفیہ نیز یہ بجلی کی تیز رفتاری سے اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ حساس فوجی مشن انجام دیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ رضوان کی افواج کو سات سے 10 رکنی دستوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر ایک مرکزی کمانڈ پر انحصار کرتے ہوئے مستقل احکامات یا لاجسٹک اسپورٹ کے بغیر آزادانہ طور پر کام کر رہا ہے،ان کی بنیادی خصوصیت دراصل اس کے کمانڈروں کو دی گئی آپریشنل آزادی ہے اور ان کمانڈروں کو میدان جنگ میں فوری حکمت عملی سے متعلق فیصلے کرنے کی اجازت ہے، ان میں وہ رفتار، لچک اور اسٹرائیک ہے جو کسی بھی فوجی قوت کی پہچان ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صیہونی حکام جیسے کہ کریات شمونہ میونسپلٹی کے نام سے مشہور ادارے کے سربراہ اوخائی اسٹرن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ رضوان حزب اللہ کی خصوصی یونٹ ابھی بھی سرحد پر موجود ہے اور جب تک یہ یونٹ موجود ہے شمال کے باشندوں کی اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
Avikhay Stern نے صہیونی ٹی وی چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی آباد کاروں کا اپنے گھروں کو لوٹنے کا خوف ان تصاویر کی وجہ سے پایا جاتا ہے جو انہوں نے 7 اکتوبر کو دیکھی تھیں،حال ہی میں حزب اللہ کی رضوان یونٹ کی فورسز نے 5 سے 6 کلومیٹر تک مار کرنے والا ایک اینٹی آرمر میزائل داغا، جو سرحدی باڑ کے ساتھ الجلیل بستیوں پر جا گرا۔
اس صہیونی اہلکار نے کہا کہ نیتن یاہو اور گیلنٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ رضوان یونٹ سرحدوں سے ہٹ گئی ہے لیکن ہم اس یونٹ کی افواج کو ہر روز دیکھتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں ہم اسرائیلی حکام سے زیادہ جانتے ہیں۔
آخری بات
طوفان الاقصیٰ اور حزب اللہ کی طرف سے مقبوضہ علاقوں کی شمالی بستیوں پر روزانہ راکٹوں کی بارش کے بعد نہ صرف مقبوضہ فلسطین سے باہر کے یہودی ان انہیں چھوڑنے کا موقع تلاش کر رہے ہیں اور ریورس ہجرت میں تیزی آئی ہے۔
اس لیے آج معاشی اور معاش کے مسائل کے علاوہ صیہونی بستیوں کی خفیہ سکیورٹی اور تل ابیب کے رہنماؤں کی سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کے شمالی محاذ کا کنٹرول نصر اللہ کے ہاتھ میں
اس صورت حال میں، قبضہ شدہ زمینوں کے آباد کار اور مکین غصب شدہ زمینوں کو چھوڑنے کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت جس کی وجہ سے حکومتی اہلکار مستقل طور پر آباد کاروں کے واپس نہ آنے کے خطرے کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں،ایک ایسا بحران جو اگر غزہ میں جرائم جاری رہے اور بڑھتے رہے تو بلاشبہ مزید گہرا ہو جائے گا ۔