سچ خبریں: ایسے وقت میں جب تل ابیب تیسری عالمی جنگ شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ایران اور حزب اللہ طوفان الاقصیٰ آپریشن میں حماس کی تاریخی کامیابیوں پر زور دیتے ہوئے فوری جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
طوفان الاقصیٰ کے آپریشن کے چند گھنٹے بعد بنیامین نیتن یاہو اور یوو گیلنٹ نے ایک طویل مدتی اور وسیع آپریشن میں اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی-فوجی انفراسٹرکچر پر زمینی حملے کرکے تباہ کرنے کا وعدہ کیا،اس کے ساتھ ہی صیہونی سیاسی عسکری حکام کے نعروں کے ساتھ مغربی ممالک کے لیڈروں نے مقبوضہ علاقوں کا سفر کرکے پورے مشرق وسطیٰ میں مزاحمت کے خلاف فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: موجودہ جنگ میں حزب اللہ کا طرز عمل
مثال کے طور پر امریکہ، انگلستان اور فرانس نے تل ابیب کو لاجسٹک اور معلوماتی مدد فراہم کرتے ہوئے مشرقی بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنے جنگی جہاز بھیج کر ایران اور حزب اللہ کو پیغام دینے کی کوشش کی، تاہم تل ابیب اور صیہونی حکومت کے حامیوں کی سیاسی اور میدانی دھمکیوں کے باوجود عراق، یمن، شام اور لبنان میں مزاحمتی گروہوں نے جارحانہ انداز اختیار کیا ہے اور مقبوضہ فلسطین میں امریکی اڈوں اور اسٹریٹیجک اہداف کو میزائل اور ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا ہے، اس تحلیل میں ہم شمالی محاذ میں حزب اللہ کی کاروائیوں کے سلسلے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کے لیے اس گروہ کی عملی حمایت کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
مغرب کو سید حسن نصراللہ کی وارننگ
سید حسن نصر اللہ نے 3 نومبر کو اپنی تاریخی تقریر کے دوران اعلان کیا کہ حزب اللہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے پہلے گھنٹوں سے ہی صیہونیوں کے ساتھ جنگ میں داخل ہو چکی ہے،حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس گروہ نے سرحدی کاروائیوں کی سطح کو عبور کر کے صیہونی حکومت کے خلاف زبردست جنگ شروع کر دی ہے، انہوں نے حالیہ جنگ میں حماس کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا،انہوں نے امریکیوں کو خبردار کیا کہ حزب اللہ کو اس ملک کے جہازوں سے کوئی خوف نہیں ہے اور اس کے پاس امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ضروری ہتھیار موجود ہیں، سید حسن نصر اللہ نے بائیڈن حکومت کو تل ابیب کی اصل حامی اور غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کی مسلسل فوجی جارحیت کی اصل وجہ قرار دیا۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران صیہونی فوج کا ایک تہائی، بحریہ کا 50 فیصد اور فضائی افواج کا ایک چوتھائی حصہ حزب اللہ اور وہاں موجود فلسطینی گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے شمالی محاذ پر تعینات کیا گیا ہے،مندرجہ بالا اعدادوشمار کے علاوہ شمالی سرحدوں میں صیہونی حکومت اور مزاحمتی قوتوں کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے دوران حزب اللہ فورسز کے تقریباً پچاس ارکان شہید ہوئے،ایسا لگتا ہے کہ لبنانی مزاحمت کی سیاسی عسکری کمان غزہ کی پٹی میں صیہونیوں کی فوجی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھتے ہوئے تل ابیب کو ابہام اور غیر یقینی کی حالت میں رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ اس طرح پہل حزب اللہ فورسز کے ہاتھ میں رہے۔
مقبوضہ علاقوں کے شمال کو غیر مستحکم کرنا
صیہونی فوجی اور سیاسی ڈھانچے کو 7 اکتوبر کے آپریشن کے خوفناک دھچکے نے اسرائیلی حکام اور غزہ پر زمینی حملہ کرنے حماس کو تباہ کرنے جیسے مہنگے آپشنز کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ مزاحمتی محور کے خلاف تل ابیب کے تحفظ کو بحال کیا جا سکے،ایسی صورت حال میں جب صیہونی فوج غزہ کی پٹی پر ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہی تھی اور ریزرو فورسز سے 300000 لوگوں کو بلا کر نیز مغرب سے اربوں ڈالر کی مالی اور فوجی امداد حاصل کر رہی تھی، حزب اللہ کے مقبوضہ شمالی علاقوں میں اہم حملے بتدریج اسرائیلی فوج اور فوجی صلاحیتوں کے ایک حصے کے شمال کی طرف منتقلی کا باعث بنے، صیہونی فوج شمالی سرحدوں کی طرف چلی گئی جس کی وجہ سے غزہ کے خلاف زمینی کاروائیوں کو کچھ دنوں کے لیے موخر کر دیا گیا،حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں اضافے کے بعد تل ابیب نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں میں 43 بستیوں کو خالی کرا لیا جس کے نتیجہ میں 65 ہزار صہیونی سرکاری کیمپوں میں مقیم ہیں،حزب اللہ کی ایک اور حکمت عملی اور کاروائی صیہونی انٹیلی جنس اسٹیشنوں اور جاسوسی کیمروں کو تباہ کرنا تھا، جس نے عملی طور پر مزاحمتی قوتوں کے خلاف فیلڈ مشاہدے اور کاروائی کے اقدام کو روک دیا۔
المنار چینل کے مطابق مزاحمتی فورسز نے تقریباً 100 فوجی اڈوں، 140 انٹیلی جنس کیمرے، 33 ریڈار، 69 مواصلاتی نظام، 12 ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو 105 سے زیادہ اہداف کے ساتھ نشانہ بنایا،اس کے علاوہ حزب اللہ کے حملوں میں 40 سے زائد صیہونی فوجی ہلاک اور 80 افراد زخمی ہوئے،شمالی محاذ میں لبنانی مزاحمت کی کل کاروائیاں عراق اور یمن کے مزاحمتی گروہوں کی کارروائیوں کو شامل کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت اور امریکہ کے میدانی ارتکاز کو تباہ کرنے کا سبب بنی ہیں،شاید اسی وجہ سے صیہونی وزیر اعظم اور اس کے وزیر جنگ،آنے والے دنوں میں حزب اللہ کے ممکنہ فیصلوں سے پریشان ہو کر اسے مسلسل مہلک اور غیر معمولی حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے حزب اللہ نے اسٹریٹجک فیصلہ سازی کے میدان میں ابہام کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اور اسرائیلی اڈوں پر حملوں کے ذریعے نیتن یاہو کی حکومت کے کمپیوٹنگ اپریٹس کو مفلوج کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں ایک طرف صیہونی شمالی سرحدوں پر حزب اللہ کے حملوں کے جاری رہنے کی وجہ سے اس خطے میں حالات کو معمول پر نہیں لا سکتے اور دوسری طرف کشیدگی کی سطح اتنی نہیں بڑھی ہے کہ لبنان کے خلاف بڑے پیمانے پر حملہ کر سکیں،پچھلے مہینے کے دوران حزب اللہ نے صیہونی حکومت کو زمینی حملہ روکنے پر مجبور کر کے غزہ کی پٹی پر صیہونیوں کی ہمہ جہت جارحیت کو روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
خلاصہ
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد نیتن یاہو کی حکومت اور اسرائیلی میڈیا نے اس واقعے کا موازنہ 11 ستمبر کے حملوں،جنگ آزادی اور ہولوکاسٹ جیسے واقعات سے کرتے ہوئے مزاحمت کے محور پر الزام کی انگلی اٹھانے کا منصوبہ بنایا،تاکہ مغربی ممالک کے لیے جنگ میں داخل ہونے کے لیے میدان تیار کیا جا سکے،دوسرے لفظوں میں حالیہ جنگ میں صیہونیوں کا اصل ہدف واشنگٹن اور دیگر یورپی ممالک کی مدد سے جنگ کا دائرہ وسیع کرنا ہے،ایسی صورتحال میں مزاحمتی محور نے غزہ کی مزاحمت کو مختلف محاذوں پر سیاسی، میڈیا اور حتیٰ کہ فوجی مدد فراہم کرتے ہوئے تل ابیب کو علاقائی حالات کے ساتھ زیادتی کرنے اور مشرق وسطیٰ میں ایک عظیم جنگ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی۔
مزید پڑھیں: بائیڈن نے صیہونیوں سے حزب اللہ کے بارے میں کیا کہا؟
عین اسی وقت جب اسرائیلی سیاست دان مشرق وسطیٰ میں تیسری عالمی جنگ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایران اور حزب اللہ طوفان الاقصیٰ آپریشن میں حماس کی تاریخی کامیابیوں پر زور دیتے ہوئے، تنازعات کے فریقوں کے درمیان فوری جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کر رہے ہیں،بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنگ بندی کے قیام اور صیہونی حکومت پر مزاحمت کی شرائط عائد کرنے کا مطلب تحریک حماس کے ہاتھوں تل ابیب کی مکمل شکست اور مقبوضہ علاقوں میں نیتن یاہو کی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہوگا،اس تجزیے کی بنیاد پر، اسرائیلی دشمن کے خلاف سرخ لکیریں اور ڈیٹرنس کھینچتے ہوئے حزب اللہ جنگ بندی کے آپشن پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں میں انتہا پسند جماعتوں اور قوتوں کی زندگی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے نیز حزب اللہ کے کل اقدامات انتھونی بلنکن کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران ان کے ایجنڈے پر براہ راست اثر ڈال سکتے ہیں اور تل ابیب پر جنگ بندی قبول کرنے اور غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ روکنے کے لیے واشنگٹن کے دباؤ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔