سویڈن میں اسلامو فوبیا کی صنعت

سویڈن

🗓️

سچ خبریں: سویڈن مغرب میں مسلم کمیونٹی کے خلاف لڑائی کا آئینہ بن چکا ہے اور ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز کاروائیوں کا ارتکاب کرتا رہا ہے، مسلمان بچوں کو بلا جواز اغوا کرنے سے لے کر قرآن پاک کے نسخے جلانے تک،وجہ کیا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ اور مستقبل کے واقعات کی جڑیں ماضی کے راستوں کے سلسلے میں تلاش کی جانی چاہئیں، خاص طور پر سیاست، معیشت، اور تعمیراتی معاشروں اور ان کی ثقافت کے میدان میں، شاید یہ حقیقت”اسلامو فوبیا” یا "اسلام کے خوف” کو ایک رجحان سے "ثقافت” میں تبدیل کرنے کی مسلسل کوشش نظر آئے، ایک ایسی سوچ جسے متعدد گروہ اور سماجی کارکن کئی دہائیوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انتہائی دائیں بازو کی تحریکیں ہمیشہ فتنہ اور نسل پرستی کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں، جن میں سے آخری سویڈن میں اسٹاک ہوم کی مسجد کے سامنے قرآن پاک کو نذرآتش کرنے میں دکھائی دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:فرانس اور جرمنی میں اسلامو فوبیا عروج پر

المیادین چینل کی ویب سائٹ نے اس سلسلہ میں ایک کالم شائع کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی توہین آمیز کاروائیاں سویڈن میں پہلی بار نہیں ہوئیں بلکہ اس طرح کی کاروائیاں اور توہین دیگر مغربی ممالک میں برسوں سے ہو رہی ہیں، ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ لیکن سویڈن میں یہ مسائل صرف نعروں اور تحریکوں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ یہ مختلف بہانوں سے مسلمان بچوں کو اغوا کرنے تک بھی پہنچ گئے، کالم نگار لکھتے ہیں کہ سویڈن میں اس اسلام مخالف روش کے بارے میں بہت سے سوالات ہیں، جیسے؛ قرآن کو جلانے، مسلمان بچوں کو اغوا کرنے، تارکین وطن کو دبانے اور مسلمانوں سے جنگ کی وجوہا کیا ہیں؟ بلاشبہ یہ معاملات ایک ایسے عمل کا مرکب ہیں جس کا مقصد اسلام کے ساتھ مغرب کی جدوجہد کے تاریخی پس منظر کی بنیاد پر مغربی ممالک کے آمرانہ اور سماجی ڈھانچے کی وضاحت کرنا ہے جیسا کہ امریکی سیاسی مفکر اسیموئیل ہنٹنگٹن نے اپنی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ میں اعتراف کیا ہے ،وہ لکھتے ہیں کہ اسلام واحد تہذیب ہے جس نے مغرب کی بقا پر سوالیہ نشان لگایا ہے اور اس نے دو مرتبہ ایسا کیا ہے۔

سویڈن میں اسلامو فوبیا اور اس کی صنعت کی تعریف
اسلامو فوبیا کی اصطلاح کا مطلب ہے مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا اور ان کے خلاف تعصب پیدا کرنا، جو بیروںی دنیا اور سوشل میڈیا دونوں جگہوں پر اشتعال انگیزی، دشمنی، عدم برداشت، دھمکیاں، ہراساں کرنا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کا باعث بنتا ہے اسلامو فوبیا ایک طرف اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان تاریخی تعلقات کی سطح میں اور دوسری طرف اسلامی معاشروں اور مغربی ممالک میں عصری ترقی کی سطح میں پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، یہ اصطلاح 20 ویں صدی کے آغاز سے ابھری لیکن عملی طور پر یہ اس سے پہلے موجود تھی، اس مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے کالم نگار نے لکھا ہے کہ فرانسیسی ماہرین سماجیات نے اس تصور کو فرانسیسی منتظمین کے ایک حصے کو مسترد کرنے اور مسلمانوں پر استعمار اور حکمرانی کے دور میں مسلم کمیونٹیز کے ساتھ ان کی دشمنی کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا، وہ لوگ جو پیدا شدہ حالات کی وجہ سے مسلم کمیونٹیز کے ساتھ ضم ہونے نیز انتظامی، سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر اپنے معاملات کو چلانے پر مجبور ہوئے، کالم میں کہا گیا ہے کہ بلا شبہ اس نفرت کی اصل نسل پرستی، ثقافتی اور نفسیاتی ہے، اور یہ آج تک جاری رہنے والے حکمران نوآبادیاتی نطریے کی طرف پلٹتی ہے جس کا مقصد مسلم معاشروں کو مسترد کرنا ہے اور مسلم معاشروں میں نفرت پھیلانا ہے نیز مسلمانوں کو آزادی کے مخالف اور بربریت کے مالک دکھانا ہے ،اسی وجہ سے مغربی مشین نے نئی صدی کے آغاز سے ہی اسلام کے خلاف اپنے پروپیگنڈے اور اشتعال انگیزیوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے کیونکہ کئی سالوں سے اور مسلم ممالک کی بڑھتی ہوئی معاشی اور فکری طاقت نیز مغربی ممالک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کی آمد کو دیکھتے ہوئے ان کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش کرنا ضروری تھا لہذا یہ مہم9/11 کے حملوں کے بعد سے، شروع کی گئی تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ تمام مسلمان داعش کی طرح ہیں، اس کاروائی کا ایک مقصد مسلمانوں کو مغربی معاشرے میں ضم ہونے اور اقتدار حاصل کرنے کے خوف سے انہیں قبول کرنے سے روکنا تھا اس کے علاوہ بھی متعدد اقدامات مسلمانوں کے خلاف اس جنگ کی تمام جہتوں میں عکاسی کرتے ہیں،مسلمانوں، عربوں، مساجد اور قبرستانوں کے خلاف مخاصمتیں جن کی کئی بار بے حرمتی کی گئی، بڑھ گئیں اور دائیں بازو کے نوجوانوں کے گروہ نمودار ہوئے جنہوں نے منظم طریقے سے ہر موقع پر یورپی شہروں کی سڑکوں اور گلیوں میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جیسا سویڈن میں ہوا۔ یہ واقعہ کئی بار دہرایا گیا۔

مزید پڑھیں:مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کی انتہا

سویڈن میں توہین
کالم کے مطابق انتہا پسندوں کی جانب تازہ ترین توہین سویڈن میں ہوئی، جہاں مسلمان اس معاشرے میں ضم ہونا چاہتے ہیں، لیکن انتہا پسند تحریکیں اس کو روکنے کی کوشش کررہی ہیں، یہ فرانس، آسٹریا، پولینڈ، ہالینڈ وغیرہ میں بھی دیکھا جاتا ہے،Rasmus Paludan کی سربراہی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت Stram Kurs ان تحریکوں میں سے دو سویڈش اور ڈینش ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ مہمیں جو چاہیں کریں انہیں پولیس کا تعاون حاصل ہوتا ہے،ہم نے اس کا مشاہدہ چند روز قبل اسلام کی تازہ ترین توہین میں کیا، جو قرآن کے نسخے کو جلانے پر مبنی تھی اور یہ کارروائی سویڈش پولیس کی رضامندی سے کی گئی تھی، جس نے اسلام مخالف مظاہرے کو منظم کرنے کی اجازت دی، یہ جانتے ہوئے کہ اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کا نسخہ جلانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے،اس کاروائی کی منظوری عدالت کی جانب سے دو اسلام مخالف ریلیوں کی اجازت دینے سے انکار پر مبنی پولیس کے فیصلے کو مسترد کرنے کے دو ہفتے بعد سامنے آئی ہے لیکن پولیس نے قرآن کی توہین کے بعد اس طرح کے مظاہرے کو مسترد کرنے کی وجہ سکیورٹی خدشات قرار دیا جس کا تجربہ اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے جہاں ابھی چند ماہ قبل سویڈن میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے ہونے والے ہفتوں کے مظاہروں اور احتجاجات کے نتیجے میں سویڈن کی مصنوعات پر پابندی لگائی گئی اور ترکی کی جانب سے نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے، تجزیہ نگار کے مطابق عرب نژاد نوجوان کا قرآن پاک کو جلانے کی اجازت دینا حادثاتی نہیں تھا بلکہ انہیں پیغام دینے کے لیے کہ یہاں تک کہ عرب بھی اپنی مسلم برادریوں سے بھاگ رہے ہیں،یہی آدامی مناسب لگا۔

کالم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضی میں سویڈن میں مسلمانوں نے اس طرح کی کاروائیوں کی مخالفت کرنے کی کوشش کی تو پولیس تشدد کے ساتھ انہیں جواب دیتی تھی نیز انہیں بھی مقابلہ کرنے پر مجبور کرتی تھی تاکہ سویڈن میں مسلمانوں کی پرتشدد موجودگی، ان کی غیر متوازن تصویر اور معاشرے میں اسلامو فوبیا کے رجحان کو فروغ دیا جا سکے لیکن سیاسی جہت میں اس تحریک کی نشوونما جو یورپ میں اسلامو فوبیا سے پروان چڑھ رہی ہے،سویڈن کو بھی اسے اپنانے پر مجبور کرتی ہے، کیونکہ یہ اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لہٰذا قرآن کے نسخے کو جلانے کا جرم سویڈن میں مسلمانوں کو بھڑکانے، ان کی توہین اور تذلیل کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ اسلام اور دنیا میں اس کا اقتدار اپنی مقدس کتاب قرآن کی حفاظت نہیں کر سکا ،اس کا مقصد ایک طویل تنازعہ پیدا کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کی مہاجرت کو کم کیا جا سکے،پناہ گزینوں کو نکالا جا سکے اور مسلمانوں کے اخراج کا دروازہ کھل سکے۔

مسلمان بچوں کا اغوا
کالم نگار نے مختلف بہانوں سے مسلمان بچوں کے اغوا کے بارے میں مزید لکھا کہ سماجی نظام یا سماجی خدمات خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتی ہیں، جیسے کہ ناقابل قبول بہانوں سے مسلمان بچوں کو ان کے والدین کے گھروں سے لے آتے ہیں یا بے بنیاد وجوہات کی بناء پر بچوں کو اغوا کر لیتے ہیں یا مسلمان خاندانوں کو ہسپتالوں سے لے جاتے ہیں ، کالم کے مطابق یہ نظام مثال کے طور پر والدین کی اپنی بیٹیوں کے ساتھ حیا کی اہمیت کے بارے میں اور حجاب کی حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں گفتگو کوگھریلو تشدد اور جبر کہتا ہے نیز گھر والوں کی جانب سے بچوں کو زنا، فحاشی (گفتگو میں فحاشی) یا حرام تعلقات کے بارے میں کچھ کہنے کو جرم کہتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اسلامی ثقافت میں "غیرت” کے عنوان سے جو درجہ بندی کی گئی ہے وہ انفرادی آزادی کی خلاف ورزی ہے

قابل ذکر ہے کہ ایسا اس وقت ہو رہا ہے جبکہ وکیل اور اسکینڈینیوین ہیومن رائٹس کمیٹی کے رکنSeo Westerbergسویڈن میں سماجی خدمت کے نظام کے کچھ رازوں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور اس مسئلے کے مالی پہلو کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں،سویڈن کی سماجی خدمات کے حوالے سے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں آٹھ مقدمات جیتے والے مذکورہ وکیل نے اناطولیہ نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سویڈش حکام مسلمان بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور یہ قبول نہیں کرتے کہ مسلمانوں کے پاس زندگی گزارنے کے اور طریقے ہیں۔

سویڈن میں مسلمانوں کی ترقی؛ مغربی انتہا پسندوں کے لیے باعث تشویش
سویڈن میں مسلمانوں کی آمد بتدریج تھی اور شروع میں اس ملک میں مسلمانوں کی ہجرت دوسری جنگ عظیم کے موقع پر ہوئی، لیکن مسلم امیگریشن کی دوسری لہر کام کی تلاش کے مقصد سے شروع ہوئی جہاں ترکی، شمالی افریقہ، فلسطین، عراق اور یوگوسلاویہ جیسے ممالک سے ہزاروں مزدور اس ملک میں ہجرت کر گئے اور باقاعدہ طور پر اس ملک میں پہلی اسلامی اقلیت کے قیام کا آغاز کیا نیز ایسی انجمنیں اور کلب قائم کیے جو ان کے مذہبی اور سماجی تشخص کی نمائندگی کرتے تھے،تاہم 1970 کی دہائی کے وسط میں ہجرت کا مقصد کام کی تلاش سے سیاسی-انسانی ہمدردی میں بدل گیا اور لبنان، کردستان، بنگلہ دیش، یوگنڈا اور فلسطین کے لوگ سیاسی، سلامتی اور اقتصادی بحرانوں سے بچنے کے لیے سویڈن بھاگ گئے اور کچھ شہروں میں۔ جیسے یتبوری، مالمو، اور وہ اپسالا میں آباد ہوئے، 1975 میں اس ملک میں پہلی اسلامی ایسوسی ایشن قائم کی گئی، جس کا صدر دفتر مالمو (جنوبی) میں ہے اور اسے "سویڈن میں اسلامی ایسوسی ایشنز کی یونین” کے نام سے جانا جاتا ہے جسے سویڈش حکومت نے تسلیم کیا ہے، ایران، عراق، اریٹیریا، بلغاریہ، ترکی اور پاکستان سے ہجرت کا سلسلہ جاری رہا اور اس ملک میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہوگئی۔ سویڈن کے شماریات اور معلوماتی مرکز نے اعلان کیا کہ 1966 میں سویڈن میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد 1000 تھی جبکہ یہ تعداد 2023 میں 875000 تک پہنچ گئی جو کہ ملک کی 10 ملین کی آبادی کا 8.5 فیصد ہے،یہ اعدادوشمار سویڈن میں اسلامی برادری کی موجودگی کے مضبوط ہونے کو ظاہر کرتا ہے اور اقتدار میں ان کی شرکت کی درخواست کا دروازہ کھولتا ہے،ایک ایسی چیز جس کی یورپی بالعموم اور سویڈن بالخصوص اس ملک کے انتہا پسند اجازت نہیں دیتے۔

جب سویڈن کے معاشی مسائل تارکین وطن کی گردن پر آئے
2007 میں، عالمی مالیاتی بحران کے وقت، اسلامو فوبیا کی لہر اٹھی، انتہائی دائیں بازو نے اس خیال کو فروغ دیا کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہونے والی ہجرت اس بحران کی وجہ ہے اور تارکین وطن یورپیوں سے مواقع چوری کرنے اور عوامی بجٹ پر بے تحاشہ اخراجات عائد کرتے ہیں نیز شامی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے سے اس سوچ میں شدت آئی،سویڈن میں اسی وقت جب اسلامو فوبیا کی لہر اور مسلمانوں کے مقدسات کی توہین اس سال کے آغاز سے جاری ہے، معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے، جو اب مہنگائی تک محدود نہیں رہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ اپریل میں اوسط مہنگائی 10.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ بے روزگاری اب بھی بڑھ رہی ہے، اسی وجہ سے سویڈن کے مرکزی بینک نے شرح سود کو بڑھا کر 3.75% کر دیا جو گزشتہ 15 سالوں میں سب سے زیادہ شرح ہے۔

آخر میں کالم نگار لکھتے ہیں کہ ایسے ماحول میں بعید نہیں تھا کہ انتہائی دائیں بازو کی تحریکیں سامنے آئیں جو اس بحران کی وجوہات مغرب میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کو قرار دیتی ہیں، یہ سب کچھ مغرب میں مسلمانوں کو پسماندہ کرنے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے اورسویڈن کا اس کاروائی کا دوسرا مقصد شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) میں شمولیت کے حوالے سے اپنے موقف کی حمایت کرنا ہے۔

مشہور خبریں۔

وزیراعظم کی زیر صدارت ایس آئی ایف سی کا اجلاس، وزیراعلیٰ کے پی بھی شریک

🗓️ 25 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز  شریف کی زیر صدارت خصوصی سرمایہ

پولینڈ کی جانب سے یورپ میں امریکی فوجی موجودگی کا خیر مقدم

🗓️ 30 جون 2022سچ خبریں:  پولینڈ نے بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کے

صیہونی ڈاکٹرز سفید پوش قصاب

🗓️ 6 جولائی 2022سچ خبریں:  انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے ڈاکٹروں کی کمیونٹی نے

قومی اسمبلی کا اجلاس کل صبح ساڑھے 10 بجے ہو گا۔

🗓️ 8 اپریل 2022اسلام آباد(سچ خبریں) قومی اسمبلی کے اجلاس کا 6 نکاتی ایجنڈا جاری کر

76 سال میں پہلی بار اگلا مالی سال آنے سے پہلے پچھلا بجٹ پیش کرنا پڑا، مشیر خزانہ خیبرپختونخوا

🗓️ 11 مئی 2024پشاور: (سچ خبریں) مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کہا ہے کہ 76

شہداء کے لواحقین سے ملاقات کے لئے کابینہ کمیٹی تشکیل دے دی

🗓️ 9 دسمبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں)  تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سانحہ

دنیا میں امریکی ڈالر کی طاقت اور کشش میں کمی

🗓️ 10 اپریل 2023سچ خبریں:جرمن اخبار Wirtschaftswoche نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ سونے

نواز شریف پاکستان واپس آ جائیں اس کے علاوہ ان کے تمام آپشن غیر قانونی ہیں

🗓️ 6 اگست 2021لاہور(سچ خبریں) وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے