سچ خبریں:رائے الیوم اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے دورہ سعودی عرب کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن اب ریاض کو ماسکو بیجنگ کے محور اور مشرق کی طرف جھکنے سے روک نہیں سکے گا۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اس ہفتہ کو سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ ایک ایسا دورہ جسے بہت سے ماہرین مشرق وسطیٰ میں اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ بحال کرنے کی امریکہ کی مایوس کن کوشش سمجھتے ہیں، رائے الیوم الیکٹرونک اخبار نے اس سلسلہ میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سلیوان کے اس دورے کا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک علاقائی محاذ کی تشکیل کے منصوبے کو بحال کرنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ دورہ امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر کے سفر کی تکمیل کا باعث ہے جس کے بعد یقینا امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن بھی انہیں مقاصد کے ساتھ ریاض کا دورہ کرنے والے ہیں۔
اس اخبار کے مطابق، امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ اپنا 30 سالہ روایتی اتحادی کھو چکا ہے اور فی الحال اس کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ نوجوان سعودی رہنما (محمد بن سلمان) نے امریکہ سے منہ موڑ کر مشرق یعنی چین اور روس کا رخ کیا اور اپنے پڑوسی ایران کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے ہیں جبکہ یہ تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی اور مذہبی فتنہ کے بیج بونا امریکہ کے ہاتھ میں سب لگان وصول کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار تھا ۔
یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ حسین امیرعبداللہیان اورفیصل بن فرحان رواں سال بیجنگ میں دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 7 سال اور 3 ماہ منقطع رہنے والے تعلقات کی بحالی پر مبنی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے باضابطہ طور پر ایک دوسرے سے ملے اور بات چیت کی،دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان سامنے آیا جس میں دونوں فریقوں نے تعاون کی توسیع میں درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا، اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تکنیکی وفود کا تبادلہ ہوا جس میں سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو دوبارہ کھولنے کے عمل کا جائزہ لیا گیا، مذکورہ بیان میں بن فرحان اور امیر عبداللہیان نے تعاون کی توسیع میں درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے اپنی تیاری پر زور دیا۔
رپورٹ کے مطابق سلیوان کے پاس سعودی عرب کو دوبارہ واشنگٹن کی پیروی کرنے اور ریاض کو اپنے نئے اتحادیوں (روس اور چین) سے دستبردار ہونے نیز برکس اور شنگھائی تنظیموں کی رکنیت سے دستبرار ہونے پر مجبور کرنے کی کوئی پرکشش پیشکش نہیں ہے اس وجہ سے نہ تو سلیوان اور نہ ہی بلنکن سے اس میدان میں معمول کی تعریفوں اور ٹھنڈے قہقہوں کے علاوہ کوئی خاص کامیابی حاصل کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے، رائے الیوم نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ سعودی عرب تیزی سے بدل رہا ہے، وہ اب مغرب کے ساتھ روایتی اتحاد کا اسیر نہیں رہا بلکہ اپنے مفادات کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دو روز قبل سعودی وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح نے اس تناظر میں اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات اس ملک کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کی قیمت پر نہیں ہوں گے بلکہ سعودی فیصلے اس کے اپنے مفادات پر مبنی ہوتے ہیں اس وجہ سے سعودی رہنما عالمی صورتحال کا درست مطالعہ کرتے ہوئے بخوبی جانتے ہیں کہ اس ملک کے موجودہ اور مستقبل کے مفادات کا انحصار چین اور روس کے ساتھ اتحاد پر ہے جو اقتصادی، عسکری اور تزویراتی طور پر بڑھ رہا ہے۔
اس اخبار نے اطلاع دی ہے کہ بیجنگ ماسکو اتحاد ایک نیا عالمی نظام قائم کرے گا جو بوسیدہ امریکی-یورپی عالمی نظام کا مخالف ہے مزید یہ کہ سعودی عرب کے چین کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے ریاض کی برآمدات کا حجم 100 بلین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہو گیا ہے،اسی وجہ سے ریاض برکس گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے جسے G7 کا مضبوط حریف سمجھا جاتا ہے،اس اخبار کے مطابق یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ صیہونی میڈیا یہ راگ الاپ رہا ہے کہ امریکی حکام کے دورہ ریاض کا مقصد اس حکومت سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی صیہونی امیدوں کو زندہ کرنا ہے جبکہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات بحال نہیں کر سکتا لہذا سوال یہ ہے کہ کیا وہ ریاض کو ایک ایسی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے تیار کر سکتا ہے جو تباہ ہو رہی ہے اور اسے اندرونی سیاسی جنگ نیز فلسطینی مزاحمت کی مسلح کاروائیوں کا سامنا ہے،ایسی کارروائیاں جنہوں نے اس حکومت کی سلامتی اور استحکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اس لیے اس کا آئن ڈوم بھی مزاحتی تحریک کے میزائل حملوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔
رائے الیوم کا کہنا ہے کہ بہت سے ماہرین کے مطابق سعودی عرب نے صیہونی حکومت اور امریکہ کو دھوکہ دیا ہے کیوںکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ریاض نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لائے گا لیکن اس کے بعد وہ امریکہ کا متبادل تلاش کرنے میں لگ گیا جس کے تحت اس نے ماسکو، بیجنگ اور تہران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا، اس طرح کی بہت ساری نشانیاں ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہمیں ایک نئے سعودی عرب کا سامنا ہے جو پچھلے سعودی عرب سے مختلف ہے،ایک ایسا ملک جس پر پہلے تیل کے بدلے حمایت کے نظریے کی حکومت تھی لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے۔
آخر میں اس اخبار نے لکھا کہ جب امریکی صدر جو بائیڈن گزشتہ سال ریاض کے دورے کے دوران سعودی عرب کو واشنگٹن کی دسترس میں واپس لانے میں ناکام رہے تو کیا سلیوان اور بلنکن ایسا کرنے میں کامیاب ہوں گے؟ تاہم سعودی عرب میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور یہ مسئلہ مرضی کے مطابق نہیں بلکہ تحقیق اور جانچ پر مبنی ہے، دریں اثناء امریکی جریدے نیشنل انٹرسٹ نے حال ہی میں سعودی عرب کے حوالے سے امریکہ کی ناکام پالیسی کے عنوان سے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ تجربہ بتاتا ہے کہ سعودی عرب کے تئیں امریکہ کی پالیسی سکیورٹی فراہم کرنے کے بدلے میں تیل حاصل کرنے کے اصول پر مبنی ہے جس میں وہ میں ناکام رہا ہے۔